ہم سب کا ماہ نا تمام


 

\"adnan

یہ جنوری کی چھے تاریخ تھی جب دھندلی سرد شام میں وجاہت مسعود صاحب کا فون آیا کہ وہ کسی معاملے پر اس عاجز کی فوری راہنمائی کے طلب گار تھے۔ خاکسار نے سوچا کہ ہو نہ ہو انہوں نے پھر کوئی مزیدار کھانا پکوایا ہے اور تنہا کھانا مناسب نہیں جان رہے اور بہانے سے بلا رہے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں ہی یہ عاجز ان کے دولت خانے پر حاضر ہو گیا کہ تاخیر کی وجہ سے کھانا ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ مگر موصوف کی سٹڈی میں داخل ہو کر کچھ سجھائی نہ دیا۔ ہر طرف دھویں کی ایک دبیز چادر چھائی ہوئی تھی۔ اس شدید کہر میں ایک ہیولا اٹھا اور اداس آواز میں بولا ’عدنان بھائی، میں نے دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘۔

ہم نے گلے لگا کر تسلی دلاسہ دیا کہ ٹھیک ہے کہ یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ اس سے دل لگایا جائے، لیکن آتما ہتیا تو کوئی حل نہیں ہے۔ تس پہ وہ الگ ہوئے اور کہنے لگے کہ ’نہیں بھائی، میں دنیائے فانی نہیں،’دنیا پاکستان‘ چھوڑ رہا ہوں۔ اور اب اداس ہوں کہ آن لائن جرنلز کا چسکہ پڑ گیا ہے اور پرنٹ میں وہ مزا ہی نہیں آتا ہے جو آن لائن میں ہے‘۔

ہم نے محترم کو امید دلائی کہ دنیا کو ختم ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی لگتا ہے کہ قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی ہیں، تو بہتر ہے کہ اچھی توقعات رکھی جائیں اور باقی زندگی ہنس کھیل کر گزار لی جائے۔ انہوں نے کچھ حوصلہ پکڑا تو خاکسار نے پوچھا کہ کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ معلوم ہوا کہ’دنیا پاکستان‘ کے مالکان سے سائٹ کے مواد اور شکل پر اختلاف ہو گیا ہے۔ بخدا خوب داد دی کہ ایسی نازک خیالی کی روایت اس سے پہلے صرف میر تقی میر کے باب میں ہی لکھی گئی تھی جو کہ ایک طویل سفر میں سارے رستے اس لئے گونگے بنے رہے تھے کہ گنوار ہم سفروں سے بات کر کے کہیں ان کی زبان نہ خراب ہو جائے۔ اسی دھند میں ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے کہ وہ پاکستان کے ایک سینئر صحافی ہیں اور وہ مشوروں میں شامل رہے۔

خیر اس عاجز نے خوب حوصلہ دیا کہ ویب سائٹ تو ٹکے ٹوکری ملتی ہے۔ ایک گئی ہے تو دوسری بنا لیتے ہیں۔ ویسے بھی سیانے بتا گئے ہیں کہ بس، محبوبہ یا ویب سائٹ ہاتھ سے نکل جائے تو افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ ایک جائے تو دوسری آنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اس پر ان کو کچھ تسلی ہوئی تو دو تین گھنٹے میں ہی ’ہم سب‘ کا نام تجویز کر کے سائٹ کھڑی کر دی گئی اور چھے جنوری کی شام کو سات بج کر پچیس منٹ پر پہلی پوسٹ ڈالی گئی کہ ’اردو کی آن لائن صحافت میں ایک قابل اعتبار نام آ رہا ہے‘۔ ان تمام لوگوں کے نام اس پوسٹ میں ڈالے گئے جنہوں نے اس نئی دنیا میں وجاہت مسعود کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا تھا۔

\"humsub-banner-w2\"

چھے جنوری کو رجسٹر ہونے والی یہ سائٹ نو جنوری کو لانچ کر دی گئی۔ پہلے دو تین دن میں ہی اس نے روزانہ کی اتنی ویور شپ پا لی جو کہ ایک عام  ویب سائٹ کو چھے مہینے میں حاصل ہوتی ہے۔ دو ہفتے کے بعد ویورشپ دگنی ہو چکی تھی۔ اور اب چار ہفتے کے بعد یہ چوگنی ہو چکی ہے۔ محض ایک مہینے میں ہی ’ہم سب‘ کی سائٹ پاکستان میں دیکھی جانے والی دو ہزار مقبول ترین ویب سائٹس کی فہرست میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اور جس رفتار سے یہ مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے، پوری توقع ہے کہ اگلے دو ہفتے کے اندر یہ پاکستان کی ایک ہزار مقبول ترین ویب سائٹس میں سے ایک ہو گی۔ واضح رہے کہ ان مقبول سائٹوں کی فہرست میں میں بڑے اخبارات، مقبول ترین بین الاقوامی سائٹس جیسا کہ گوگل اور فیس بک اور وکی پیڈیا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بعض دوسری اردو ویب سائٹس جو کہ \’ہم سب\’ سے کئی ماہ پہلے منظر عام پر آ چکی تھیں، اس سے کافی پیچھے رہ گئی ہیں۔

شروع کے دنوں میں ہی ظفر اللہ خان (ید بیضا)، فرنود عالم، وسی بابا، حسنین جمال، عثمان قاضی، سید مجاہد علی، عاصم بخشی، وقار احمد ملک، رامش فاطمہ اور ذیشان ہاشم صاحبان کی کئی تحریریں ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کر چکی تھیں۔ سائٹ لانچ ہونے کے دو دن بعد شائع ہونے والی حسنین جمال کی تحریر ’بدلنا گھر مستنصر حسین تارڑ کا‘ کو تقریباً انیس ہزار افراد نے پڑھا ہے۔ اسی دن شائع ہونے والی فرنود عالم کی تحریر ’مردانہ منافقت میں گم ہو جانے والی عورت‘ کو سترہ ہزار افراد نے پڑھا ہے۔ ید بیضا کی تحریر ’باچا خان یونیورسٹی۔۔۔ گرہ کھل گئی‘ کو سترہ ہزار ویو ملے۔ سید مجاہد علی کی ’فرزندان مشرق اور مغرب کی بے حیا عورتوں‘ کو ساڑھے تیرہ ہزار مرتبہ پڑھا گیا۔ قصہ مختصر کہ اس ایک ماہ کی قلیل مدت میں ’ہم سب‘ پر کم و بیش چار لاکھ تحریریں پڑھی جا چکی ہیں۔

اس کامیابی میں ہم سب شامل ہیں، لکھنے والے بھی اور پڑھنے والے بھی۔ ’ہم سب‘ کی پالیسی یہی ہے کہ خواہ دائیں بازو کا نقطہ نظر ہو یا بائیں بازو کا یا وسط کا، سب  ہی کوشائع کیا جائے گا۔ اگر تحریر اچھی ہے، مہذب انداز میں لکھی گئی ہے، اور اس میں بے بنیاد شخصی الزامات کی بھرمار نہیں ہے، تو اسے شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی لئے آپ کو ’ہم سب‘ پر لبرل اور سیکولر تحریریں بھِی نظر آتی ہیں اور دائیں بازو کے قدامت پرست بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں دینی تحریریں بھی ملتی ہیں اور دنیاوی بھی۔ ’ہم سب‘ کا یہ ماننا ہے کہ یہ صرف مکالمے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ موقف کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ انتظامیہ نے نہیں کرنا ہے، بلکہ یہ منصب ہمارے قاری کا ہے کہ وہ تحریر کے موقف کے بارے میں اپنے علم و ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے خود سے فیصلہ کرے۔

ہم اپنے لبرل دوستوں کے بھی شکر گزار ہیں، اور دائیں بازو کے دوستوں کے بھی۔ ایک طرف ہمیں ڈاکٹر مجاہد مرزا صاحب کی شفقت حاصل رہی تو دوسری طرف جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب ہماری مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ فیض اللہ خان نے ہمیں نوازا تو جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب بھی اپنی ویب سائٹ کی نظامت سے وقت نکال کر مسلسل اپنی وال پر ہماری راہنمائی کرتے رہے۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ الفاظ و دلیل ان کے در کے غلام ہیں۔ ان جیسا لکھنا تو کیا، ہماری یہ حسرت ہے کہ ہم ان کو پڑھ بھی سکیں۔ سطحی الفاظ سے نیچے مفہوم و معنی کی جو تہہ وہ سمو دیتے ہیں، وہی ان کا کمال فن ہے۔

ہمیں امید ہے کہ ہمارے یہ دوست اور قاری مستقبل میں بھی ’ہم سب‘ کو اسی ذوق و شوق سے دیکھتے رہیں گے اور ہمارے حوصلے بڑھاتے رہیں گے۔ اور نئے لکھنے والے بھی ہمیں اس قابل سمجھتے رہیں گے کہ اپنی تحریریں ہمیں بھیجتے رہیں۔ چند لکھنے والوں کے نام اس مضمون میں لکھے گئے ہیں اور بیشتر کے رہ گئے ہیں، لیکن ہم ان سب دوستوں کے شکرگزار ہیں جو ’ہم سب‘ کو ایک مقبول ویب سائٹ بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments