حنا تو جیت گئی میرے سماج کا مرد ہار گیا!


یہ حنا شاہنواز ہیں۔ یہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ حنا کا معانی مہندی ہے۔ ہر لڑکی کے کچھ ارمان اور کچھ خواب ہوتے ہیں جو وہ اپنی حنا بندی سے متعلق پلکوں پر سجا رکھتی ہیں۔ حنا شاہنواز کے ہاتھ بھی پیلے ہوئے مگر مہندی سے نہیں خون سے۔ جی ہاں حنا کا تعلق کوہاٹ استرزئی سے تھا۔ حنا کا والد ایک کامیاب تاجر تھا ان کا اپنا کوئلے کا کاروبار تھا۔ گھر میں آسودگی تھی۔ حنا ناز و نعم میں پلی تھی۔ چھوٹا سا کنبہ خوش و خرم اور خوش حال تھا۔ پھر حالات نے کروٹ لیا۔ حنا کا والد کینسر میں مبتلا ہو کر چل بسا۔ کچھ عرصہ بعد والدہ بھی بیمار ہو کر وفات پاگئیں۔ حنا کا بھائی گاؤں میں کسی جھگڑے میں مارا گیا۔ یوں مردوں کی اس دنیا میں حنا تنہا رہ گئی۔ مگر حنا نے ہمت نہیں۔ ہاری وہ ایک بہادر خاتون تھی۔ انہوں نے ایم فل مکمل کیا۔

حالات یہ تھے کہ گھر میں فاقے چل رہے تھے مقتول بھائی کی بیوہ اور ان کے دو یتیم بچے۔ چھوٹی بیوہ بہن اور ان کا ایک یتیم بچہ بھی حنا کے گھر رہنے لگے تھے۔ ان سب کی کفالت کی ذمہ داری حنا کے سر تھی۔ حنا نے کافی جگہ جاب اپلائی کی لیکن نہیں ملی۔ سرکاری اداروں کی بھی خاک چھانی مگر دروازے خود پر بند پائے کہ ان کے پاس سفارش اور رشوت جو نہ تھی۔

بالآخر حنا نے ایک این جی او میں نوکری شروع کر دی۔ ان کے دن پھر سے بدلنے لگے تھے۔ انہیں معقول تنخواہ ملنا شروع ہوئی تھی۔ گھر میں موجود مقتول بھائی اور بیوہ بہن کے یتیم بچوں کی زندگیوں میں بھی شرارتیں اور خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔ حنا ان کے لیے کھلونے بھی خرید کر لائی تھی۔ گھر میں چہل پہل تھی۔

حنا اب اپنا بھی گھر بسانا چاہتی تھی۔ وہ پڑھی لکھی ذہین و بہادر لڑکی تھی۔ وہ شکل سے بھی اچھی تھی۔ اسے اچھا رشتہ بھی مل سکتا تھا کہ حنا کے چچا کو اچانک سے رشتہ داری یاد آگئی۔ اپنے ان پڑھ اور نالائق بیٹے محبوب عالم کو آگے کیا کہ اس سے شادی کرو۔ حنا اس سے پہلے چچا سے اپنے مقتول بھائی اور اپنا حق جائداد مانگ  چکی تھی۔ چاچا اس شادی سے یوں زن اور زمین دونوں ہتھیانا چاہتا تھا۔ ادھر حنا نے اپنے ان پڑھ کزن محبوب عالم سے شادی کرنے سے انکار کیا۔ ادھر خاندان کی غیرت نے جوش مارا کہ اچھا یہ لڑکی ہمارے خاندان کی روایات اور اقدار کو مٹی میں ملائے گی۔ گھر سے باہر جا کر نوکری کرے گی۔ بدبخت محبوب عالم نے چار گولیاں حنا کے بدن میں اتاریں اور اس \”بغاوت\” کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا۔

\"\"

جب سے حنا کے قتل کی خبر پڑھی ہے یقین کیجئے میرا جگر مجروح۔ قلب ٹکڑے اور میرا احساس زخمی زخمی ہے۔ ان یتیم بچوں کے بارے سوچ کر دل بیٹھ جاتا ہے جن کی واحد کفیل حنا تھی۔ کیا ہمارا معاشرہ اور ہمارا سماج اس قدر تنزل اور گراوٹ کا شکار ہوا ہے کہ کوئی بھی بدبخت غیرت کے نام پر اٹھ کر حناؤں کا خون کرتا پھرے ؟ حنا کے قتل کا ذمہ دار صرف ان کا کزن نہیں ہے ہم سب شریک قتل ہیں۔ جی ہاں ہم سب۔

اس قتل کا ذمہ دار وہ سیاستدان بھی ہے جو گاؤں کی کچی سڑکوں کو پکی کرنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر گاؤں کی فرسودہ روایات کو بدلنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا ہے۔ اس قتل کا ذمہ دار مسجد کا وہ مولوی بھی ہے جو جمعہ کے جمعہ منبر پر چڑھ کر امریکہ کی جوڑ توڑ میں لگا ہوتا ہے یا مخالف فرقے کو فتح کرنے کے مقدس مشن پر۔ اس کے موضوعات خطبات میں کہیں بھی سماج کے سلگتے معاشرتی مسائل اور ان کا حل شامل نہیں ہوتا ہے۔ ذمہ دار ہمارا نظام انصاف بھی ہے۔ ذمہ دار ہمارا محکمہ پولیس بھی ہے کہ جو دیہی علاقوں میں موجود وڈیرا اور چودھری کلچر کا محافظ ہے۔

جب تک ہم سب مل کر اپنے سماج سے اس دور جاہلیت کو رخصت نہیں کریں گے تب تک معاشرے میں نام نہاد غیرت کے نام پر حناؤں کا خون ہوتا رہے گا۔ اسلام تو صنف نازک کو آبگینوں سے تشبیہ دیتا ہے کہ انہیں کوئی ٹھیس نہ پہنچے۔ کہیں عبادہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تنبیہ کرتے ہوئے رسول خداﷺ نے فرمایا کہ میں آپ سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے بڑھ کر غیرت کا پاس رکھنے والا مگر شریعت تو گواہ اور دلیل پر یقین رکھتی ہے۔ ہمارے سماج میں جاہلانہ کلچر اور نام نہاد غیرت کو اسلام کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرنے کی جو گھناؤنی روایت ہے اسے ختم کرنا ہوگا۔

حنا میری بہن میں اس سماج کا ایک بے بس فرد میں تجھ سے شرمندہ ہوں۔ میں دل سوختہ اور رنجیدہ ہوں۔ ہاں آج تو جیت گئی اور میرے معاشرے کا مرد ہار گیا ہے !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments