چہرے کا پردہ اور تہذیب


\"siftain_khan\"

سوشل میڈیا کی دنیا میں آج کل چہرے کے پردے کا معرکہ جاری ہے۔ اسی ذیل میں ثقافت ، فقہ ، روایت ،تہذیب اور سماج بھی زیر بحث ہیں۔ دونوں طرف کے گھوڑ سوار اپنے اپنے اسلحہ کے ساتھ حملہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ روایتی طبقے کے حاملین حسب معمول \” فتنہ \” کے نام پر اس کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ مخالفین اجتہاد ، مصلحت عامہ اور حالات کے تقاضوں جیسی اصطلاحات سے لیس ہیں۔ بغیر سیاق کے آیات اور بغیر پس منظر کے احادیث بیان کی جا رہی ہیں۔ مزاج کی موزونیت دلائل تراش رہی ہے۔ ثقافت کو دین بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ٹوپی والے برقعے کو عین مطلوب اسلام قرار دیا جا رہا ہے۔ سد ذریعہ کے اصول سے روحانیت اخذ کی جا رہی ہے۔ جیسے اللہ کے حکم سے اس کی تکمیل یا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ عورت کو سراپا شر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ چہرہ جو اللہ نے علامت شناخت بنایا ہے، اس کو بھی علامت شہوت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ قرآن کے قانون حجاب کو سمجھے بغیر کہ اعضا کی پوشیدگی کے پیچھے کیا علت ہے۔ فطرت انسانی کا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے۔ کیا انسانیت کی تاریخ میں کبھی چہرے کو باعث فتنہ قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر ہر چیز مستور رکھنا مطلوب تھا تو پھر حجاب کے تفصیلی احکام دینے کی کیا ضرورت تھی۔ آنکھوں میں حیا رکھنے کی کیا تک تھی۔

شریعت کو جب ثقافتی پس منظر میں سمجھا جائے تو ایسا ہی تضاد جنم لیتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ فقیہان شہر قانون اور سماج کا تعلق سمجھنے سے بھی عاری ہیں۔ حکمت اور قانون کا ازلی رشتہ ان کی نظروں سے پنہاں ہے۔ محبت اور شہوت میں تفریق سے معذور ہیں۔ ارتقا اور جمود کی اصطلاحات سے ناآشنا ہیں۔ عرف کی اہمیت سے انجان ہیں۔ تمدن اور تہذیب کے تغیر سے ناواقف ہیں۔ دنیا جس جگہ پہنچ گئی ہے وہاں آپ قبول کریں یا نہ کریں عورت اور آزادی انسان کے بارے میں بہت حساسیت پائی جاتی ہے۔ آپ کا تصور عورت اگر زمانہ قدیم کی لونڈیوں سے زیادہ نہیں تو پھر آپ لاکھ دعوت دیں وہ آپ کے علم ، تہذیب اور مذھب کسی کے قریب نہیں آئیں گے۔ آپ کے اور مغرب کے درمیان ایسی دیوار قائم ہو جائے گی جس کو یاجوج ماجوج بھی گرا نہ سکیں گے۔ آج کی دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ آپ کے علم سے پہلے آپ کا امیج پہنچتا ہے۔ جس گھٹن زدہ ماحول کے لئے آپ دلیلں لاتے ہیں وہ کب کا متروک ہو چکا۔ زمانے کا جبر بھی آپ کو اب وہاں ٹکنے نہیں دے گا جس کے لئے آپ روایت سے سند لاتے ہیں۔ اس کا شاہد آپ کا اپنا وجود ہے۔ غالب تہذیب کے منفی پہلووں سے نبر آزما ہونے کا طریقہ صدیوں پیچھے کا سفر نہیں بلکہ بصیرت سے اپنی اقدار کی آمیزش ہے۔ اپنے رنگ میں روایت مغرب کو ڈھالنا ہے۔ انسانیت کا تہذیبی ارتقا اسی طرح ممکن ہوا ہے۔ عالم کا مشترکہ ورثہ ہے۔ کوئی تہذیبی روایت مطلقاً حرام یا غلط نہیں ہوتی۔ نہ یہ کوئی ایسی جامد شے ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ انگور سے رس نکالتے ہیں یا شراب۔ گند والی مکھی بنتے ہیں ہا شہد کی۔

لہذا اس کا مظہر ویلنٹائن ڈے پر پابندی نہیں بلکہ محبت اور شہوت کے درمیان فرق کو نمایاں کرنا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو پھر معاشرہ آپ کو اس جگہ بھی اہمیت نہیں دے گا جہاں پہلے اہم تھے۔ کیوں کہ آج کا نوجوان تفریح اور آزادی کے بارے میں سب سے زیادہ حساس ہے۔ اگر آپ اس کو اس کی اجازت نہیں دیں گے تو وہ غلط رستے سے اس کو پورا کرے گا۔ خود شریعت میں حرمت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ تدریج ( حکم کو بتدریج نافذ کرنا ) کا کیا مقام ہے۔ نفسیات میں کیا رد عمل جنم لیتا ہے اگر آپ ایک صریح حرام شے کو بھی فوراً سے ناجائز قرار دے ڈالیں چہ جائیکہ ایک ایسے حکم پر اصرار کریں جس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments