حوا کا خط ، آدم کے نام


اے آدم !\"\"

 میرا قصور صرف اتنا کہ میں  تمہارے بعد آئی۔ رب نے فیصلہ کیا کہ تمہیں دنیا تو دور کی بات جنت بھی تنہا راس نہیں آرہی تھی سو اس نے مجھے خلق کیا۔ ایک ساتھی کے روپ میں۔ تمہاری ہی پسلی سے جنمی۔ نہ سر سے پیدا ہوئی کہ تم سے اونچی اور عظیم بنوں اور نہ ہی پیروں سے پیدا ھوئی  کہ تمہارے پیر کی جوتی بن کر رہوں۔ میں تمہاری پسلی سے جنمی تاکہ تمہارے شانہ بہ شانہ چلوں۔ مگر قصور شاید میرا یہ تھا کہ میں تمہارے بعد آئی۔اور آدم تم کو یہ خوش فہمی ہو گئی کہ میں تم سے کمتر ہوں۔ شیطان کے بہکاوے میں آنے ،جنت سے نکالے جانے اور  مرد کوجہنم میں لے جانے والی بننے کا الزام بھی تم نے میرے ہی سر ڈالا۔ مگر تم بھول گئے ربِ زوالجلال نے اس جنت سے نکالی ہوئی گنہگار مخلوق پر کیا کرم کیا؟ اس نے میرے قدموں تلے جنت رکھ دی اور مجھے عظیم بنا دیا۔

اس رب نےمجھے خوبصورتی بخشی۔ مگر آدم تم میرے نازک وجود کو میری کمزوری سمجھ بیٹھے۔ حالنکہ میرا وجود چٹان سے بھی زیادہ مضبوط بنایا ہے میرے رب نے۔اس نے میرے اندر جذبات اور محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر خلق کیا۔ یہ میرے جذبات ہی تو ہیں جس نے مجھے ماں بیٹی بہن اور بیوی بنایا ہے ۔مگر تم نے اسے میری کند ذہنی سمجھ لیا۔

اس خالق نے مجھے تخلیق کار بنایا۔ اے آدم! تم نے مجھے نطفہ دیا میں نے تمہیں اس کے بدلے اولاد دی۔ تمہاری بنائی پتھر کی دیواروں کے اندر گھر میں نے بنایا۔ تمہارے لائے ہوئے مرے ہوئے جانور کی بجائے پھل پودوں سے کھانا میں نے بنایا۔ تمہارا پیٹ بھرا۔ سونے کے لیئے آرم دہ بستر میں نے بنایا۔ دن بھر کی تپتی دھوپ کے بدلے اپنے آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں دی۔ مگر اے آدم تم نے میری تمام تر صلاحییتوں اور محبتوں کو غلامی کا روپ دے ڈالا۔ میرے ہی وجود سے پیدا ہو کر ،میری ہی جوانی کھا کر مجھے ہی زندہ درگور کر ڈالا۔ کبھی غیرت کے نام پر۔ کبھی رسم و رواج کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر۔

اے آدم ! کیا عجیب اتیفاق ہے کہ ابنِ آدم نے پہلا قتل بھی کیا تو حوا کی بیٹی کے نام پر۔ دراصل غلطی میری ہی ہے کہ میں خاموش رہی۔ کاش میں ابنِ آدم کا ہاتھ روکنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی تو آج ابنِ آدم میرے خون سے ہاتھ نہ رنگ رہا ہوتا۔ کاش میں اس کے حق کےلیئے اٹھ کھڑی ہوتی کہ وہ بھی تو اشرف المخلوقات ہی ہے کہ جس کے ہونے کا تنہا تجھ کو بہت ناز ہے ۔ کاش میں اٹھ کھڑی ہوتی ابنِ آدم کو روکنے، اس کا مالک بننے سے کہ اس کا بھی اپنا وجود ہے۔ دل ہے محسوس کرنے کے لیئے۔ دماغ ہے سوچنے کے لیئے۔ کاش میں پہلے دن سے ہی آواز اٹھاتی کہ نہ تو کوئی اس کے نام پر قتل کرے اور نہ ہی کوئی ابنِ آدم  اسے اپنی ملکیت سمجھ کر قتل کرے۔ اے آدم کاش میں یہ شکوہ تجھ سے تب کرتی تو آج ان گنت حوا کی بیٹییاں محبت اور عزت کے نام پر قتل نہیں ہوتیں۔ ان کے نام پر خون نہ بہتا۔ آج حوا کی بیٹی اپنی زات کی خود مالک ہوتی۔ اپنے فیصلے وہ خود کر پاتی۔ نہ ابنِ آدم اسے زندہ درگور کرتا۔ نہ عزت کے نام پر گولی مارتا اور نہ ہی حوا کی بیٹی کو اپنے کئے ہوئے گناہوں کے بدلے ونی کرتا اور نہ ہی کاری کرتا۔

مگر اے آدم! اب دل چاہتا ہے کہ زبان بھی کھولوں اور تمہارا ہاتھ بھی روکوں!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments