صحافی کی جزئیات نگاری اور دانشور کا ٹیڑھا قلم


\"\" حساس موضوعات پر لکھنے میں چند در چند مشکلات پیش آتی ہیں۔ آرتھر کوئسلر نے کچھ ایسے ہی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ فنکار موضوع کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے آپ سے کہتا ہے۔ ’حقائق بالکل واضح ہیں۔ اصولوں کا اطلاق ایسے ریاضیاتی طریقے سے ہو رہا ہے گویا کمان سے نکلے تیر سیدھے ہدف پہ بیٹھ رہے ہیں۔ میں اس آسانی سے لکھوں گا جیسے کھانا کھانے کے عمل کو بیان کیا جاتا ہے‘۔ دانشور لکھنا شروع کرتا ہے۔ سرے سے سرا الجھتا چلا جاتا ہے۔ لکھنے والے کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہوتا ہے۔ اس کا قلم موضوع کے دباﺅ سے ٹیڑھا ہونے لگتا ہے۔ داور حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ…. دوسری طرف بہاﺅ کے رخ پیراکی کے اپنے لطف ہیں۔ ٹھنڈا صاف پانی بہہ رہا ہے۔ پایاب کناروں پر ہری گھاس ہے، چھتنار درختوں پر خوش رنگ پرندے ہیں۔ پرے کہیں بادل کا ٹکڑا روئی کے گالے جیسا آسمانوں میں تیرتا نظر آتا ہے۔ مقبولیت پسند قلم کار لہروں کے رخ پر ہاتھ پاﺅں چھوڑے ، ایک دیہاتی لڑکے جیسی مسرت کے ساتھ کسی بےہودہ گیت کے بول بے معنی آوازوں کے ساتھ منہ سے نکالتا چلا جاتا ہے۔ ’میں سچا ہوں، تم جھوٹے ہو۔ میں بہادر ہوں ،تم بزدل ہو‘۔ دانش اور رسوخ میں کشمکش کی کہانی پرانی ہے۔ سوئے ادب کا اندیشہ آڑے آتا ہے ورنہ اردو صحافت کی داستان کچھ ایسی بہجت افزا نہیں۔ ایک طرف سرسید اور ان کے رفقا تھے۔ دوسری طرف السنہ شرقیہ کے شناور ، اودھ کے تعلقہ دار، تہذیب کے پتلے اور انگریزی تعلیم کے دشمن۔ دریا نے ذرا رخ بدلا تو تحریک خلافت کے سب مخالف انگریز کے کاسہ لیس اور ٹوڈی ٹھہرے جب کہ حریت ، حمیت اور مفاد ملت پر ہمارا اجارہ۔ کون پوچھے کہ تحریک خلافت سے مجلس احرار نے کیسے جنم لیا؟ زمیندار سے انقلاب کیسے برآمد ہوا؟ علامہ اقبال اور سکندر حیات میں کیا اختلافات تھے؟ پنجاب مسلم لیگ اور لیاقت علی خان میں کیا جھگڑا تھا۔ نیلی پوش تحریک کیا تھی؟ علامہ عنایت اللہ مشرقی کے بیلچے کا نشان مسولینی کے اٹلی اور لاہور کے ٹبی دروازے میں بیک وقت کیسے نمودار ہوتا تھا۔ سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی کہ خضر حیات ہمارے بھائی ہو گئے۔ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا۔ ’کناروں پر بیٹھنے والے کبھی منجدھار میں تو آئیں‘۔ انہیں معلوم ہو کہ جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں، وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں۔ عطاالحق قاسمی کے ایک کردار ببن میاں کو شکایت ہے کہ لوگ پرانی باتیں نکال لاتے ہیں۔ قریب رکھا اخبار نہیں پڑھ سکتے۔ تو چلئے کچھ قریب کی باتیں دیکھ لیں۔ اکیسویں صدی کو کل ملا کر سولہ برس گزرے۔ ہمارے ملک میں تاریخ کا یہ ٹکڑا تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف کی آمریت ، پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ عہد اور مسلم لیگ نواز کی حکومت….

جیسا کہ ہم منظور شدہ نصاب کے پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں، اکتوبر 1999ء میں نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کے ہاتھوں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ ایسے میں کارگل کے فاتح نے کوس لمن الملکی بجایا اور چوہے اپنے بلوں سے نکل کر قطار اندر قطار آمریت کے سمندر میں داخل ہو گئے۔ چند شرپسند زنداں میں ڈال دیے گئے اور باقی اہل وطن مٹھائی تقسیم کرنے نکل گئے۔ 11 ستمبر 2001ء کی شام امریکا میں دو بلند عمارتیں زمین بوس ہوئیں۔ یہی وہ تاریخ ہے جب پاکستان میں دو قوی الجثہ طاقتوں میں نادیدہ لڑائی شروع ہوئی۔ 2001ء کے موسم خزاں میں ایک صاحب دانش اسلام آباد میں کہتا پھرتا تھا ’تمام رات بجے گی، ابھی بجا کیا ہے‘۔ دہشت گردی مخالف جنگ میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہونے میں پرویز مشرف کے اقتدار کی طوالت بھی پنہاں تھی اور معیشت کے مسائل بھی ٹالے جا سکتے تھے۔ چنانچہ آمریت نے پرانی پالیسی کو حسب ضرورت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئے اور پرانے مفاد کا ٹکراﺅ ہوا۔ پیچیدگی یہ تھی کہ ایک پوری نسل بدخشاں، جلال آباد کی فتوحات پڑھ کے جوان ہوئی تھی۔ یونانی المیے کا بحران بنا بنایارکھا تھا۔ کرنا صرف یہ تھا کہ پرویز مشرف کو کمال اتاترک کا نام دے کر جدید اور قدیم کا جھگڑا اٹھایا جائے۔ سو ہم کچھ سادہ بیانات نکال لائے۔ ’پرویز مشرف نے قومی مفاد بیچ دیا ہے۔ اپنی حکومت بچانے کے لیے طالبان کی اسلامی حکومت سے غداری کی ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن نہیں ہونے دیں گے۔ ہزاروں جذباتی نوجوانوں کو افغانستان لے جا کر مروانے والے صوفی محمد صاحب فقیر ایپی کی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجاہدین پاکستان کے دوست ہیں۔ امریکا پاکستان میں جہاد کی فصل کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں غیروں کی خاطر اپنوں سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان میں طالبان کا کوئی وجود نہیں۔ بس اسی سادہ نسخے میں پانچ برس گزر گئے۔ 2007ء کے عبوری برس میں افتخار محمد چودھری ، لال مسجد اور پرویز مشرف کا صدارتی انتخاب نمایاں رہے۔ البتہ چناب فارمولے پر کبھی جم کے بات ہی نہیں ہو سکی۔ ہم عدلیہ بچانے نکلے تھے ، بے نظیر بھٹو کی قربانی دے کر 2008ء میں داخل ہو گئے۔

پیپلز پارٹی کے پانچ برس چند لفظوں میں سمیٹے جا سکتے ہیں۔ عدلیہ کی بحالی، این آر او کے ذریعے آمریت اور بدعنوان سیاست دانوں میں گٹھ جوڑ، کیری لوگر بل کے ذریعے قومی حمیت کا سودا ، سوئس بینکوں میں رکھے ساٹھ ملین ڈالر، امریکہ ڈومور کا تقاضا کرتا ہے اور میمو گیٹ سکینڈل۔ چھوڑئیے کہ سوات کا معاہدہ کس نے کیا؟ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن واقعی موجود تھا یا ڈرامہ رچایا گیا۔ پنجابی طالبان کا کوئی وجود تھا یا پنجاب حکومت کے خلاف سازش تھی؟ کیا ملک کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی ڈرون حملوں کا ردعمل تھی؟ پیپلز پارٹی کا عہد عملی طور پر 4 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر کے قتل کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بینظیر بھٹو اور سلمان تاثیر کے قتل میں ممکنہ تانے بانے کو نظر انداز کر دینا چاہیے کیونکہ ہمارا کام قوم کی ہمت بندھانا ہے۔ جنوری 2011ء میں ہم نے سلمان تاثیر کو رخصت کیا اور اکتوبر 2011ء میں عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا دریافت کیا۔ یہاں سے اگلی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ’طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ 2013ءکے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی (یہ پوچھنا منع ہے کہ دھاندلی کس نے کی تھی)۔ ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں کا حساب چاہیے۔ دہشت گردی کی فنڈنگ سیاسی قوتیں کر رہی تھیں۔ پاناما کیس کے فیصلے سے پاکستان کا مستقبل ایسے سنور جائے گا جیسے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی سے انصاف کا بول بالا ہو گیا تھا۔ حافظ سعید کی نظربندی کے احکامات واشنگٹن سے آئے ہیں۔ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کرنے والوں نے پاکستان کی سرزمین پر کبھی دہشت گردی نہیں کی اور سو بات کی ایک بات یہ کہ ہم اپنی زمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اپریل 2014ءمیں ایک معروف صحافی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر پر نہیں آ سکی البتہ بلند ا ٓہنگ نعرے لگانے والے اب دوسرے مورچوں پر چلے گئے ہیں۔ مہربان ٹھیک کہتے ہیں، سادہ بات کہنی چاہیے، دانشورانہ موشگافیوں سے قلم ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments