جوا اب شرفا کا کھیل نہیں رہا ہے


سکول میں شرطوں پر ہمیں جے جے نے لگایا تھا۔ جے جے کون تھا یہ رہنے دیں۔ کروڑ کروڑ کی ہم شرطیں لگاتے تھے۔ ہارنے والا کروڑوں کا مقروض ہو جاتا۔ تب تک وہ مقروض رہتا جب تک کوئی شرط جیت کر ادھار چکا نہیں دیتا تھا۔ یہ سارا لین دین زبانی اور ہوائی ہوتا تھا۔ لین دین والی شرط ایک دو سموسے یا کوک کی بوتل پر لگا کرتی تھی۔ کون لمبی جمپ لگائے گا کون ریس جیتے گا۔ کون کس کو چھکا مارے گا۔ بچوں والی چھوٹی چھوٹی باتیں۔

جے جے ایک نہایت قاتل شرط بھی لگایا کرتا۔ وہ کوئی دعوی کرتا ہم لوگ اعتراض کرتے تو وہ کہتا چلو پھر لگاؤ۔ کوئی بھی نہ لگاتا۔ کیسے لگاتا کون لگاتا اپنی عزت داؤ پر وہ بھی پشاور میں۔ سب مان جاتے کہ وہ سچا ہے اور ہم بغیر شرط لگائے اس کی فتح تسلیم کر لیتے۔ میڈیا سے تعلق ہوا تو کبھی کسی خبر کی تصدیق کے لئے کسی ہم جماعت سے رابطہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ تصدیق کا بس ایک ہی سادہ طریقہ ہے کہ اچھا اگر غلط ہوئی تو پھر جے جے والی تیسری شرط۔

اس تیسری شرط کا مطلب ایک خطاب قبول کرنا ہے جس سے سیدھا سیدھا اپنی ذات پر حرف آتا ہے۔ بدلتے موسم کے ساتھ ہمارے کھیل بھی بدل جاتے تھے۔ ایک بار والی بال کا میچ کھیل رہے تھے۔ مد مقابل ٹیم افغان تھی ہماری ٹیم میں شنواری آفریدی تھے زیادہ۔ سو دو سو کی شرط سے معاملہ شروع ہوا تھا۔ افغانی جب ہار گئے تو ان کا ایک بزرگ گھر کے اندر گیا اور ایک چھوٹا سا تھیلا نوٹوں کا لے کر آیا اور بولا اس رازئے۔ یعنی اب آؤ شرط لگا کے کھیلو۔

ہم لوگ آرام سے کھیل ختم کر کے گھروں کو آ گئے تھے۔ کالج پہنچے تو ہمارا ایک ہم جماعت ایسا بھی تھا جو پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھیلا۔ کچھ اڑتی باتیں پشاور کے ابھرتے کھلاڑیوں کی سنی تھیں ہم نے۔ یہ جھوٹی باتیں تھیں کہ کیسے انہوں نے ایک آدھ میچ ہی کھیلا۔ کس کرکٹر نے ان کو پیسے لینے پر رام کیا۔ بدلے میں کہاں کی لیگ آفر کی اس میچ کا کیا نتیجہ رہا۔ یہ کہانیاں تو جھوٹی تھیں بری بات یہ تھی کہ ان میں بتائے گئے حقائق سچے تھے۔

میچ کا نتیجہ بھی سچا ہی تھا۔ چھوڑیں کہ پرانی باتیں ہیں۔ جب جواہرات کا شوق ہوا تو صرافہ بازار میں ہی صبح شام ہوتی تھی۔ جیولری کا کاروبار کرنے والے حاجی صاحبان شادیوں کی دعوتیں دیتے رہتے تھے۔ اپنے ساتھی صرافوں کو شرمندہ بھی کیا کرتے تھے یہ کہہ کر کہ تم شادی پر آئے اور صرف چار پانچ ہزار ہی لگائے فلاش پر۔ شادی کتنی بڑی ہوئی کتنی دھوم دھام سے ہوئی یہ جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ شادی والے گھر میں کتنے دن کتنی ٹولیاں بیٹھ کر تاش فلاش کھیلتی رہیں۔

اس میں اصل مزہ تب آتا تھا جب ایسی کسی شادی پر چھاپا پڑ جاتا۔ یہ چھاپا ڈلوانے والے بھی اپنے ہی ہوتے تھے۔ ہوتا کچھ بھی نہیں تھا بس پولیس بھی اپنا حصہ لے مرتی تھی۔ اگلے دن جب حاجی صاحب صاف ہندکو میں چھاپہ ڈلوانے والوں کے خاندان کی تعریف کرتے تو وہ سننے والی ہوتی تھی۔ یہ تعریف ہندکو میں سننا تو مزیدار ہے ہی لیکن اگر یہ ہندکو مارکہ پشتو میں ہوتی تو جب جب یاد آتی موڈ اچھا کر دیتی۔ ہمارے ایک تجربہ کار مشر نے ایک بار کرکٹ پر سٹہ کرانے کو ہی زندگی کا مشن بنا لیا۔ اس کے لئے اس نے جو گھر جن صاحب سے کرایہ پر لیا ان صاحب کا نام بھی لیں تو کیس توہین والا ہی بنتا ہے۔

مشر نے ایک بڑا کھانا کیا اس میں پیسے والوں کو دعوت دی۔ کئی مہمان حاجی صاحبان ایسے بھی تھے جو چلہ لگانے بیرون ملک بھی جایا کرتے تھے۔ مشر نے ایک بہت پر اثر تقریر کی اس نے کہا یہ بھی ایک کاروبار ہے۔ تم لوگ پیسے تو کماتے ہو اس کو سائیڈ بزنس سمجھو۔ ہم شروع میں صرف کرکٹ میچ پر ہی سٹہ کھیلیں گے۔ ہر اوور ہر بال پر پیسے لگاؤ۔

میچ ختم ہو گا تو حساب کریں گے۔ تم نے ایک میچ میں دو تین لاکھ روپئے ہی لگانے ہیں۔ حساب کے بعد یا تو دس ہزار کما چکے ہو گے یا بیس ہزار کا نقصان ہو گا۔ بہترین کام ہے تفریح بھی ہے اکٹھے بھی ہوں گے کھائیں پیئیں گے آپس میں تعلقات اچھے ہوں گے۔ مشر کا کاروبار راکٹ کی طرح سیدھا آسمان کی جانب گیا تھا۔ اللہ بھلا کرے ہمارے ایک مشہور بدمعاش کا اس نے مشر کے ساتھ شرط لگانی شروع کر دی۔ حساب کتاب میں ہی کچھ گڑبڑ ہوئی ہو گی مشر نے اس کام پر لعنت بھیج دی۔

جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ یار اب یہ شرفا کا کام نہیں رہا۔ سٹہ کھیلنا کام تو بہت اچھا ہے بس برا یہ ہوا ہے کہ یہ اب شرفا کا کھیل نہیں رہا۔ اندازہ کریں آپ کرکٹ پر شرط لگائیں۔ ادھر ان منحوس کھلاڑیوں نے کسی سے پیسے پکڑ رکھے ہوں برا کھیلنے کے لئے۔ یہ کوئی بات ہے بھلا شرفا کے ساتھ اب اس ملک میں ایسے ہو گا کیا۔ ایسے ہو گا تو یہ ملک کیسے چلے گا۔ دل چاہ رہا ہے کہ کاش وہ بدمعاش زندہ ہوتا۔ وہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کے خود سٹہ کھیلنے پر ان کی طبعیت صاف کرتا۔ تاکہ شرفا عزت اور سکون کے ساتھ اس کھیل کو جاری رکھ سکتے۔ صرافہ بازار کے حاجی صاحبان اور اپنے مشر سے درخواست ہے کہ غصہ نہ ہوں ہمیں تو گپیں مارنے کی عادت ہے۔ البتہ جو مشترکہ دوست یہ سب پڑھ کر ہنس رہے ہیں ان کے دانت توڑنے کے لئے آپ لوگ آزاد ہیں۔
Feb 11, 2017

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments