جیسے عوام ویسے حکمران (یگانہ نجمی)۔


کہتے ہیں کسی ملک میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ جن میں ایک بہت نیک عبادت گذار تھا۔ جبکہ دوسرا نہایت بد اطوار جوئے اور شراب جیسی لت میں مبتلا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گذر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں ہجوم اکٹھا تھا۔ وہ دونوں اس ہجوم کی طرف بڑھے اور ان لوگوں سے دریافت کیا کہ اتنا ہجوم کیوں اکٹھا ہے؟

لوگوں نے بتایا کہ ہم اپنے بادشاہ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اور ہمارہ یہ دستور ہے کہ ہم ایک پرندہ اڑاتے ہیں۔ جس شخص کے سر پر یہ پرندہ بیٹھ جاتا ہے وہ ہی ہمارا بادشاہ بن جاتا ہے۔

ان لوگوں نے پرندہ کو اڑایا وہ پرندہ ان دوستوں میں سے اس دوست کے سر پر جا بیٹھا جو کہ ایک بدکردار شخص تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس شخص کو جو عبادت گزار تھا۔ بے حد افسوس ہوا۔

اس نے سوچا میں نے ساری زندگی عبادت گزاری میں بسر کردی مگر میرے بجائے یہ پرندہ اس دوست کے سر پر جا کر بیٹھ گیا، جو ساری زندگی برائیوں میں پڑا رہا۔

ابھی وہ اس سوچ میں ہی تھا کہ اس کا دوست اس کے پاس آیا اور کہا کہ تم اس بات پر افسردہ مت ہو کہ یہ بادشاہت مجھے کیوں مل گئی۔ اور تم کیوں ان کے بادشاہ منتخب نہ ہو سکے۔

دراصل یہ قوم اخلاقی لحاظ سے مجھ سے بھی بدتر ہے، اس لیے اللہ نے مجھے ان پر مسلط کیا ہے۔

اس کہانی کو اگر موجودہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو ثابت ہوا کہ حکمران کے دیانتدار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی حیثیت میں اپنا احتساب کریں۔

اس وقت ہم جس قدر بددیانت اور بدکردار ہوچکے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک دوسرے کا حق غصب کرنا، دوسرے کی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیرنا ہمارا روز کا معمول بن چکا ہے۔ دوسری طرف اگر ذمہ دارئیوں کی ادائیگی کی بات آتی ہے۔ تو خواہ وہ ایک شہری ہو، استاد ہو یا ایک طالب علم، کیا ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری کو دیانتداری سے اپنا فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔ اگر ہم اپنا تجزیہ کریں تو جواب نفی میں ہی آئے گا۔ ہم کسی ایسے شخص کو جس نے موبائل چوری کیا ہو، پکڑے جانے پر مارنے بلکہ جلا کر مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اور خود بجلی کی چوری جسے جرم کرنےکو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے مگر اس چھوٹی سی بات نے جس کی وجہ سے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ وہ لوڈشیڈنگ کی عفریت کی صورت میں نازل ہوچکا ہے۔

رشوت جیسی قبیح لعنت جس نے ملک کے معاشی و سماجی کو تباہ و برباد کردیا ہے جس نے قدم قدم نہ ختم ہونے والی مشکلات کھڑی کردی ہیں، جو اس سماج کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ کیا اس کےذمہ دار ہم نہیں؟ اپنی خواہشات کی تکمیل میں ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جو کے رشوت جیسی لعنت کے بغیر ممکن نہیں۔

ایک اور چیز عدم برداشت۔ جس کی مثالیں آئے دن ہمیں گھریلو سطح سے لے کر اعلٰی سطح پر دیکھنے کو ملتی ہیں جب ایک طالبِ علم دوسرے طالب علم کے مقابلے میں زیادہ نمبر نہ آنے پر خودکشی جیسے بھیانک جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہے، حکومت۔ یا اس کے لواحقین یا وہ فرد خود؟

بڑے شہروں میں ٹریفک کےحادثات اور جن میں بہت سی جانی نقصان ایک فرد کی عدم برداشت کا ہی نتیجہ ہے۔

ہمارے معاشرے کی حالت تو اس طرح ہو گئی ہے۔ “جیسے گملے میں اگا ہوا شہر“ جس کی نہ تو کوئی اپنی تہذیب باقی رہی ہے نہ روایت کہ جس کی پاسداری کی جائے۔ ہر شخص صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو پورا کرنے کے لیے دوسرے کو قبر میں دکھیلنے کے لیےتیار ہے۔ کیا یہ بے حسی صرف فرد کی ذات تک محدود رہ سکتی ہے؟ کیا انسان کا عمل اس کی ذات تک محدود رہ سکتا ہے؟ مگر افسوس ہر شخص صرف یہ ہی سوچ رکھتا ہے اور اس سوچ نے جو بدامنی اور ابتری پیدا کردی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔

حکمرانوں کی بے حسی کا رونا ہی کیا۔ جب آپس کے تعلقات میں بددیانتی اور دھوکا دہی جیسے عناصر کار فرما ہیں۔ سفاکی کا یہ عالم ہے کہ کسی کے ساتھہ ہونے والی زیادتی پر آواز اٹھانا تو درکنار دکھ بھی محسوس نہیں کرتے بلکہ میڈیا پر بار بار دکھائی جانے والی اغوا اور مظالم کی تشہیر جسے صرف تفریح طبع لیے دیکھا جاتا ہے۔ سماج کے اس سفاکانہ اور ظالمانہ رویے کا ذمہ دار آخر کون ہے۔ ؟

میر نے کہا تھا۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments