حنا شہنواز: غیرت کمانے نکلے، حمیت جاتی رہی
ہم چراغوں کو تم آندھیوں نے اجاڑا ہے۔ اس لَو کی حفاظت پر تم مامور تھے۔ ان کو جلتے رکھنا تمہاری ذمہ داری تھی تم تو بجھانے والے بن گئے۔ ہم جلتے رہنا چاہتے تھے۔ ہمیں ہی بجھانا تھا تو ایک پھونک کی مار تھے ہم۔ آندھیوں سے پورا گھر کیوں اجاڑا۔ ہم لوح مکرر پر رکھے تقدیس کے اوراق نہیں تھے، جن کی حفاظت وہ خود کرتا۔ ہم انسان ہیں۔ ہم وہاں سے بھی نکالے گئے اور یہاں تم نے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ خدا نے اماں حوا کو سزا دی، وہ خدا ہے، سزا دے سکتا ہے، مگر سزا دی، مارا نہیں، حالانکہ وہ خدا ہے، دے سکتا تھا مگر پھر معاف بھی کر دیا۔
تم سزا نہیں دیتے، مارتے ہو۔ جان لیتے ہو۔ جان تمہاری تو نہیں جو جب جی چاہے کھڑے تقاضا شروع کر دیتے ہو۔ اس تقاضے کے پیچھے بھی تمہارا اپنا مقصد موجود ہوتا ہے، وگرنہ جان لینا کسی انسان کے لیے ممکن کیوں کر ہے۔
مار دینے سے تم یہاں اپنے لیے وسائل کا بندوبست تو کر لیتے ہو، لیکن نہیں جانتے کہ یہ وسائل تمہارے لیے کن مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
اچھا تم لے لو، سب لے لو۔ زمین، جائیداد، ان کا کل سامان کہ شاید تمہاری حرص کی آگ کچھ کم ہو جائے تو یہ سب لے کر جان بخش دو۔ دیکھو وقت نے کہاں لا کھڑا کیا ہے کہ جان دینے اور بخشنے والے کو بھی نہیں پتا ہو گا کہ اس کی مخلوق تم سوں کے آگے ہاتھ پھیلائے گی اور جان کی بخشش مانگے گی۔ میری پور پور نوچ لو اور پھر بھی پیٹ نہ بھرے تو تقدیر نوچ دو تاکہ تقدیر کی ساعتیں اور گھڑیاں ہر اس جنس سے خالی کر دی جائیں جو تمہیں تمہاری غیرت اور حمیت یاد دلا دیتی ہیں۔
تم گالیاں دو۔ اِسی جنس پر تبصرے کرو۔ اسی جنس کی خواہش اپنی آنکھوں میں سجائے اپنے دن اور اپنی راتیں بسر کرو، مگر یہی جنس تمہاری بہن نہ ہو۔
لگتا یوں ہے کہ صرف بہن، ماں، بیوی، بیٹی، یعنی ہر وہ رشتہ جو تقدیس کی چادر میں لپٹا ہے جرم ہے۔ کیوں کہ تمہیں مسئلہ انہی سے ہے۔ اگر کسی اور کے یہی رشتے تمہارے خیال اور ذہن کی زینت ہیں تو ان سے زیادہ حسین کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ لباس مسئلہ ہے مگر انہی رشتوں میں۔ یعنی تمہاری جبلت کی تسکین کی حد تک نہ لباس چاہیے نہ پردہ نہ گھر کے اندر کی گھٹن ہونی چاہیے اور نہ باہر جانے پر پابندی۔ نہ بے ہودگی مسئلہ ہے اور نہ شوخ و چنچل ہونا۔
تو آؤ اور نوچ لو ہر بہن اور بیٹی کو کہ یہ وہ رشتے ہیں جو تم جیسے ہی کسی اور کی تسکین کا باعث، مگر تمہاری نہیں۔ تو جو تمہاری تسکین نہیں بن سکتا وہ بھلا جیے کیوں؟ جائیدادیں تمہاری کمائی نہیں۔ مگر صرف تمہاری ہیں اور جو بہنیں ان میں سے کچھ لے سکتی ہیں وہ جییں کیوں؟ ان کو مار دینا چاہیے۔ پھر کیا! جی لو گے؟ یاد رکھو کہ پھر وہ دن بھی آئے گا جب تمہاری بیٹی ہو گی اور اس کا بھائی بھی، تمہاری بیٹی ہو گی اور کوئی اس کا شوہر بھی، تمہاری بہن ہو گی اور کوئی اس کا سسرال بھی۔
تمہیں بیوی وہ چاہیے جو اپنے ساتھ مال و متاع لائے اور تمہاری تقدیر کی لکیروں کو نئے رنگ اور ڈھنگ سے سجا دے۔ مگر بیٹی اور بہن ایسی چاہیے جو قرآن سے بیاہ کو مان جائے یا ستی کر دی جائے اور یا پھر خود اپنے مقتل میں چلی جائے تاکہ تم امیر رہو۔ تمہارے سپوتوں کی جائیداد تقسیم نہ ہو جائے، مگر تم بھول جاتے ہو وہ دن کہ جب تمہارے وہی فخر تمہیں کسی اندھیری کوٹھڑی میں پھینک دیتے ہیں کہ اب تم ان کے لیے وبال جان ہو۔
اگر یہ جنس جو بیوی، بہن اور بیٹی ہیں کسی روز غیرت پر اتر جائیں گی تو سوچو اس دن تم میں سے ایک ایک جب گھر داخل ہو گا تو اس کا استقبال مقتل کی سولی سے کیا جائے گا۔ جو کالک تم ان کے چہروں پر ملنا چاہتے ہو اسے لینے کے لیے کسی کیچڑ کا رخ کیوں کرتے ہو، اپنے چہروں پر ہاتھ تو پھیرو ایک بار اور پھر اپنی ہتھیلی سے چمٹی کالک کو خود دیکھو تو سہی اور اب یہ کالک ان پر مل دو کہ یہ جرم تو احساس بنے کہ میں اور یہ کالک کوئی دو مختلف چیزیں نہیں۔ تم نہ دِل رکھتے ہو اور نہ احساس، نہ ضمیر زندہ اور نہ جگر پُرسوز۔
یہ تقدیس کی چادریں جو تم ہمارے سروں پر ڈالنا چاہتے ہو یہ ہم اوڑھ لیں گی، مگر اِن کا پَلو تم سرکا کر اپنی آنکھوں اور دوسرا اپنے ضمیر کو بھی اُڑھا دو کہ یہی بنانے والے مالک کا تقاضا بھی تھا۔
تم میں کچھ وہ بھی ہیں جو حنا جیسی بیٹی کو پڑھا لکھا دیتے ہیں، وہ شعور دے دیتے ہیں کہ وہ تم سے بھیڑیوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ کتنے بے وقوف ہوتے ہیں یہ بھائی، باپ جو یہ شعور نہیں دیتے کہ دیکھ بیٹا پڑھ بھی لکھ بھی مگر تو کمزور ہے نہیں، مگر سمجھ کہ ہے اور کبھی ان بھیڑیوں کے سامنے کھڑی مت ہونا ورنہ یہ درندے ہیں بات نہیں کرتے، دلیل نہ سنتے ہیں نہ دیتے ہیں یہ صرف ایک ہی حربہ جانتے ہیں اور وہ ہے آواز بند کر دینا۔ تو تم بس اِن کی ہر بات پر سرتسلیم خم کرنا۔
اور یہ رشتے یہ تیرے کب ہوں گے جب اُن کا کوئی مفاد ہو گا یا جب اُن کی جبلت کی تسکین تو بن سکے گی۔ تیری ہر مشکل میں یہ تیری ہی آزمائش بن جائیں گے۔ یہ پہاڑ سے پتھر دل اُس وقت تیری سرکتی چادر کا مزہ لیں گے۔
حنا بھی اب وہاں آرام کرسی پر بیٹھی سوچتی ہو گی کہ جب میرا باپ کینسر سے مر گیا تب یہ سب کہاں تھے؟ جب میرا بھائی قتل کر دیا گیا تھا اس وقت یہ سب کہاں تھے؟ جب میں نے یہ فیصلہ کیا کہ بھائی کی بیوہ اور دو یتیم بچوں کو پالنے کو مجھے باہر نکل کر نوکری کرنی پڑے گی اس وقت یہ سب کہاں تھے؟ جب میں اپنی بہن کے یتیم بچے کو اس کے اپنے دادا سے چھڑانے کی خاطر عدالتوں کے چکر کاٹ رہی تھی اس وقت یہ سب کہاں تھے؟
مگر اِس وقت کہ جب جائیداد کی باری آئی تو سب میرے ہو گئے۔ چچا اپنے بے کار اور نیم خواندہ بیٹے کا رشتہ لیے پہنچے کہ دیکھ بیٹی اس سے شادی کر لے۔ اس طرح خاندان کی جائیداد خاندان میں رہ جائے گی۔ مگر میں کرتی تو کیا کرتی پڑھ لکھ گئی تھی اپنے حقوق کی حفاظت کا بھوت سوار تھا۔
تمہیں جائیداد چاہیے، اچھا لے لو مگر مارو تو نہیں۔ تم نے مجھے ساری عمر گھر بٹھانا ہے، بیٹھوں گی مگر مارو تو نہیں۔ پتا نہیں اب بہن کیا کرے گی اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا۔ بس یہی خیال دِل میں آتا ہے اور وہ آخری لمحات سینہ چیرتے ہیں تو ایک آہ نکل جاتی ہے اور صرف یہ الفاظ کہ دیکھو! لے لو، سب لے لو، جو چاہیے لے لو، مگر مجھے مارو تو نہیں کہ میری بہن اور اس کے بچوں کا اب کیا ہو گا؟ شاید اس کو بھی۔۔۔۔۔۔
- سلیم صافی اور قوم کا اخلاقی انحطاط - 26/08/2018
- ہم سب زینب کے مجرم ہیں - 27/01/2018
- مشال خان اور منجمد خون - 15/04/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).