غیرت مندوں کی الٹی شلوار…. نیز یہ کہ بادشاہ ننگا ہے


\"\"  عدنان خان کاکڑ کا کالم نظر سے گزرا۔ دل کو کوئی خاص طمانیت کا احساس یوں نہ ہوا کہ جب شہر کی گلیوں میں جھوٹ ہاتھ میں ننگی تلوار لیے گھوڑے پر سوار ہو جائے اور شہر اس گھڑ سوار کا ہمنوا ہو تو برہنہ پا سچ کو عافیت کی دعا مانگنی چاہیے ۔لیکن عدنان صاحب میں شاید دانشورانہ بد دیانتی کی تاب لانے کی سکت کم ہو گی ۔بول پڑے!

’دانشوارانہ بد دیانتی‘ کی ترکیب کا استعمال بھی شاید نامناسب ہے کہ اس ترکیب میں لفظ ’دانشورانہ‘ آتا ہے۔

اُتری شلوار والے معاشرے میں آپ غیرت مندوں کی ’اُلٹی شلواروں‘ کا رونا لے بیٹھے ہیں ‘

ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک اینکر دہائی دے دیتا ہے کہ یہ دیکھو پاکستان میں کیسا نابغہ پیدا ہو گیا ہے یہ پانی سے کار چلا سکتا ہے ۔۔وہ اپنے ’تماشے ‘ میں ایک طرف ناخواندہ جرائم پیشہ موجد کو بٹھاتا ہے تو دوسری طرف کوانٹم فزکس میں عالمی شہرت یافتہ سائنس دان پرویز ہود بھائی کو بٹھاتا ہے۔ پرویز ہود بھائی کے وہ تمام سائنسی دلائل اس کو متاثر نہیں کر تے ۔ law of thermodynamics  جیسی باتیں فضول لگتیں ہیں۔ فاضل اینکر کی کوشش ہوتی ہے کہ پرویز ہود بھائی کی بات کو کاٹ کر زیادہ سے زیادہ وقت اس ’موجد ‘ کو ملے کہ جس کی ایجاد ایک ہزار سال سے سائنس کے میدان میں پیچھے رہنے والی قوم کی ساری غفلتوں کا حساب کتاب برابر کر دے۔ ہمیں ویسے بھی ایسے شارٹ کٹس بہت پسند ہے جو اس بات کا امکان لیے ہوں کہ کافروں کے اختیار کیے لمبے راستے کے نتائج پر حاوی ہو جائیں۔

ان موجد صاحب کی حقیقت تو بہت جلد سامنے آ گئی لیکن عوام میں ایک جم غفیر سازشی نظریات کی بنت میں مصروف رہا کہ کیسے تیل پیدا کرنے والے ملک اور کمپنیز اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم یہودی تنظیموں نے اس نابغے کی آواز کو دبا دیا کہ اگر وہ پانی سے چلنے والی کار کو مارکیٹ میں لے آتا تو تیل کے پیداوار سے منسلک ملکوں کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہو جاتا اور مزید برآں ایک اسلامی ملک پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ۔۔

میری پرویز ہود بھائی سے ایک ہی ملاقات ہے اور اس ملاقات میں میں نے یہ گلہ کیا تھا کہ آپ اس پروگرام میں مسلسل ’توہین علم و عقل‘ کے مرتکب ہوئے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ عقل یا علم کی بات کو ہر صور ت سامنے لا نا چاہیے چاہے آواز کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔ اور مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی میں جب میں انہیں چھوڑنے ان کے کمرے میں گیا تو ایک لکڑی کا چھوٹا سا ڈیکوریشن پیس نما پنکھا ان کی میز پر پڑا تھا جو بغیر کسی خارجی توانائی کے خود ہی مسلسل چل رہا تھا تو میں نے سوال کیا ‘ ”سر کیا آپ نے بھی مفت توانائی کے نظریے پر کام کرنا شروع کر دیا ہے“ تو انہوں نے جواب دیا ۔۔”یاد رکھنا! اس کائنات میں کچھ بھی مفت نہیں ہے۔ اس پنکھے کے پیچھے کشش ثقل کی طاقت کے کرشمے ہیں “

اگر ہم میں تھوڑا سا …. یا یوں کہیے کہ رتی برابر میلان بھی جانبِ تحقیق ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ یہ فراڈ بہت سے ملکوں میں ہر وقت ہو رہا ہوتا ہے۔

آپ ایک ویب سائیٹ بنائیں۔۔اس پر کمزور سائنسی دلائل اور ترکیبوں سے پانی سے چلنے والی کار کا تعارف کرائیں۔ ساتھ میں کچھ کہانیاں لکھیں کہ کیسے بیسیوں ذہین افراد کو تیل پیدا کرنے والے مافیا نے اس ایجاد پر مار ڈالا۔ اور میں یعنی اس ویب سائیٹ کا مالک بھی چھپ کر زندگی گزارتا ہوں۔ آپ کو ایک کتابچہ دے رہا ہوں جس پر بہت آسان الفاظ سے پانی سے چلنے والی کار کی ترکیب لکھ دی ہے ۔بس آپ نے ایک احتیاط کرنی ہے کہ آپ خود یہ کار بنا لیں لیکن کسی اور کو نہیں بتانا وگرنہ یہ مافیا آپ کو زندہ نہیں چھوڑے گا اور…. انسانیت کو تیل مافیا سے نجات دلانے کے لیے اس کتابچہ کی قیمت صرف دس ڈالر ہے ۔۔۔اور لاکھوں بے وقوف جب دس ڈالر اس ویب سائیٹ کی جھولی میں پھینکتے ہیں تو ویب سائیٹ مالک کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ (مزید اس کو قانونی معاملات میں لانے کے لیے یہ اعلان بھی کر دیا جاتا ہے کہ اگر آپ سے یہ کار نہ بن سکی یا یہ کتابچہ جھوٹ ہوا تو دس ڈالر واپس لے سکتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ بعد میں ویب سائیٹ کے مالک کا یہ موقف ہوتا ہے کہ آپ کو سائنس کی شدبد نہیں ہے یا آپ نے طریقہ کار پر صحیح عمل نہیں کیا۔ مزید یہ کہ اس طرح کی آفرز اس مفروضے پر بنائی جاتیں ہیں کہ دس ڈالر جیسی قلیل رقم کی واپسی کا تقاضا کم ہی کریں گے بالخصوص اگر واپسی کی رقم کا طریقہ کارپیچیدہ ہو۔

جہاں تک اُلٹی شلواروں والے عظیم کالم نگار کا تعلق ہے تو یہ کوئی بہت دور کی بات نہیں جب جاوید چوہدری نے اپنے پروگرام میں یروشلم کے اس پتھر کا ذکر کیا تھا جو ہوا میں معلق ہے اور اسکی اسلامی تاریخ کے نہایت مقدس معاملات سے مناسبت بیان کی جاتی ہے۔ (ہمیں خلاف قدرت واقعات بہت ذہنی آسودگی دیتے ہیں)

اور یہ وہی پتھر ہے جو آپ نے اکثر سوشل میڈیا پر گردش کرتا دیکھا ہو گا جس کے نیچے ہزاروں کمنٹس میں سبحان اللہ لکھا ہوتا ہے اور یہ وہی پتھر ہے جو ہمارے اسلامی کیلنڈروں کی زینت بنتا ہے اور حجاموں اور تندوروں پر کسی بوسیدہ پنکھے کے نیچے ہچکولے لیتا نظر آتا ہے ۔۔

میں نے جب موصوف کا یہ پروگرام دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس پتھر کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے کسی بڑی تحقیق یا بہت عالی دماغ ہونا شرط نہیں۔ فقط تین معمولی اقدامات سے آپ یہ معاملہ حل کر سکتے ہیں ۔۔۔

۱۔ آپ کسی بھی ترکیب کے ساتھ لفظ Fakeلکھ کر گوگل کریں تو آپ کو تصویر کا دوسرا رُخ نظر آ جاتا ہے۔ جیسے گوگل میں Jerusalem stone fake لکھنے سے آپ کو یہی پتھر زمین پر پڑا دکھائی دے گا اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ پتھر نیچے کی طرف دو نوکوں کے سہارے زمین پر کھڑا ہے اور یہ دو نوکیں فوٹوشاپ کی مدد سے صاف کر دی گئی ہیں ۔

۲۔ قانونِ قدرت کے خلاف کسی بھی بات کو سننے کے بعد فورا محتاط اور چوکنا ہو کر تحقیق کرنا ایک مثبت اور عقلی طریقہ کار ہے۔ آپ سے کوئی کہے کہ فلاں جگہ پانی چڑھائی کی جانب رواں دواں ہے تو آپ کا فوری رد عمل یہ ہونا چاہیئے کہ کیوں کہ یہ معاملہ قانونِ قدرت یعنی کششِ ثقل کے خلاف ہے تو مجھے اس پر محتاط ہو جانا چاہیے اور آگے بات کرنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے۔

۳۔ ایک عام فہم ذہن بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر کوئی پتھر اس طرح قانون توڑ رہا ہے اور فزکس کا پوری دنیا کے سامنے مذاق اڑا رہا ہے تو اب تک نیشنل جیوگرافک’ ڈسکوری‘ یا Abdus Salam International Centre for Theoretical Physics (ICTP) جیسے عالمی اداروں کو خبر بھی نہیں ہوئی۔

لیکن جاوید چوہدری صاحب نے غالبا یہ سوچا ہو گا کہ عالمی اداروں تک اس خبر کے پہنچنے سے پہلے میں پاکستان میں اپنے پروگرام میں ’سٹوری بریک ‘کر لوں …. اور یقین کیجئے انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اس پروگرام کو شئیر کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی اور پسندیدگی کے کمنٹس دینے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ۔ اور یہی تو مدعا اور مقصد تھا …. باقی جہنم میں جائے سائنس، عقل اور علم ….

منٹو کا کردار کم از کم کالی شلوار پہننا تو چاہتا تھا۔ یہ اینکرز اور ان کو پسند کرنے والے تو سرے سے عقل کی شلوار پہننا ہی نہیں چاہتے۔ ”اینکر تو اتارے اسے ، شلوار ہی نشتے“

اغیار کیونکہ دیکھ سکتے ہیں تو وہ دیکھ کر چیختے ہیں ۔۔۔دیکھو، دیکھو، یہ ننگے ہیں۔ دیکھو عقل کی اقلیم کا بادشاہ ننگا ہے ….

اور ہم اپنی شلوار ٹٹولنے کی بجائے …. سازشی نظریات کی کشیدہ کاری مصروف ہو جاتے ہیں۔ خود فریبی کی چادر سے بنی ”الٹی شلوار“ پر سازشی نظریات کی کشیدہ کاری بے حد جامہ زیب معلوم ہوتی ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments