کاش سارا سماج بے غیرت ہوجائے


  \"\"ٹپ ……..ٹپ…… ٹپ …….ٹپ

ٹپکتا، اُبلتا، سرخ لال \”بے غیرت خون \”۔

 کیونکہ غیرت والا خون تو سفید ہو جاتا ہے۔

ہے ناں؟

یہ تھی ہی بے غیرت۔ لال رنگ گواہ ہے۔ ورنہ اس کے خون کا رنگ بھی سفید ہوتا۔

روز قتل گاہوں سے غیرت کے علمبردار آلہ قتل پہ بےغیرت لہو کی بوندیں لئے برآمد ہوتے ہیں ۔

ایک قلمکار اپنے قلم سے مرثیے کا مطلع اگلتا ہے اور سوزی درد کی لے سے اپنی لَے ملاتے، تان اٹھاتے ہیں۔

غیرت مند بریگیڈ کے ایسے موقعوں پرالبتہ لب سِل جاتے ہیں اور قلم دوات کہیں کھو جاتے ہیں ۔

اس مجرمانہ چشم پوشی اور خبث باطن کی حد تک بھی چلو کوئی بات نہیں۔

لیکن

جو بین کرتے ہیں ان کے کھلے بالوں کو تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے چاک گریباں کو قابل گرفت قرار دیا جاتا ہے اور ان کی سینہ کوبی پہ فتوے جاری کیے جاتے ہیں ۔

کیسا ہنگام ہے تمہارے ہاں

اپنا راوی تو چین لکھتا ہے۔

کیا قاتل صرف وہ جس کا ہاتھ دستے پر جما ہے ، جو پستول میں گولیاں بھر رہا ہے یا مٹی کا تیل چھڑک رہا ہے۔

ٹپکتے لہو میں ان قاتلوں کے چہرے بھی جھلکتے ہیں جنہوں نے اس خنجر کو آب دی جو ایک بہن کی آنتیں ٹٹولتا، ریڑھ کی ہڈی تک ترازو ہو جاتا ہے۔

گولیوں کے خالی خولوں پہ ان وضاحت کاروں، عذر خواہوں کا برانڈ کنداں جو انہیں چلانے والے کو جواز فراہم کرتے ہیں۔

خون ناحق کی لکیر تو غلاظت کے اس ڈھیر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ایسے ذہنوں کی تربیت کرتے ہیں۔

یہ خنجر ایک دم نہیں چلتے گولیاں اچانک نہیں برستیں۔ برسوں کی ذہنی تربیت ان ہاتھوں کو کانپنے نہیں دیتی، صدیوں کا سکوت کانوں کو بہرہ کرگیا یے۔

 ایتلاف صلاحیت ۔

دلوں کا پتھرانا طویل ارتقا کا نتیجہ ہے۔

یہ کون ہیں جن کہ دل \’ خون میں لتھڑے چہرے دیکھ کر ، جلتے جسم کی سڑاند سونگھ کر ، کھلی آنتیں دیکھ کر ، ادھ کھلی وحشت زدہ مردہ آنکھیں دیکھ کر بھی نہیں پسیجتا؟

متفعن ذہنوں کا رس، مقویِ غیرت رسائل ، جان لیوا تقرریں ہیں جو دل پسیجنے نہیں دیتیں۔ کیمیا گر، روایات، خاندانی وقار، مذہب اور تعصب کا مرکب بنا کر بڑے تواتر سے پلا رہے ہیں۔

داغ خون سے دھونے کی تربیت نے خون کے داغ سماج کے منہ پر مل دیے ہیں ۔

کلپ سے کلجگ آ گیا، سب بدل گیا۔ نہیں بدلا تو ناری کا نصیب نہیں بدلا اس بدقسمت خطے میں جہاں اُن کے قید خانے میں گھڑی وہیں رکی ہوئی ہے جب پہلی عورت کو ستی کیا گیا تھا۔

 زمین سخت ہے اور آسمان دور ۔

ایک اور گستاخ ، باغی عورت اپنے انجام کو پہنچی۔ اگلی باری کس کی ہے کسے خبر؟

 \” بے غیرت بریگیڈ \” کے قلمکاروں کے قلم تو خون تھوک رہے ہیں ۔

مرثیے خون سے لکھے جاتے ہیں ۔

عزادار بہتی انگارا آنکھوں سے ، بکھرے بالوں کے ساتھ، سینہ کوبی کررہے ہیں۔

حنا شاہنواز کی لاش کی پژمردہ، ملتجی آنکھیں روح کے اندر تک گھور رہی ہیں۔ اور اپنی ہمزادوں کو کچھ سمجھا بھی رہی ہیں۔

غیرت ، جائیداد ، پسند کی شادی ، تانک جھانک ، سب جواز ہیں ۔

بھیڑیے میمنوں کے عذر نہیں سنتے۔

بھیڑیوں کو جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

لیکن کیا یہاں کے حساس فنکار مرثیے کے علاوہ کوئی اور صنف نہیں لکھ سکیں گے؟

کیا عزاداری ہم پہ عمر بھر کے لئے فرض کردی گئی ہے؟

اگر یہی غیرت ہے تو کاش سارا سماج بے غیرت ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments