اپنی ہی تلاش میں ایک سفر ۔۔۔ ڈی این اے کی مدد سے


\"\"ہمارے ایک کزن نے اپنی مونچھیں کبھی صاف نہیں‌ کرائیں۔ کہتے تھے یہ اوریجنل مغل مونچھیں‌ ہیں۔ ساری زندگی پلان بنانے کے بعد 2015 میں میں‌ نے انڈیا کا سفر کیا اور ابو کی طرف کی کافی ساری فیملی سے پہلی بار ملی۔ میرے بھائی کی سکھر میں‌ دوسری سالگرہ کی قریب 40 سال پرانی ایک دھندلی تصویر میں‌ ایک انڈین پھوپی سفید کپڑوں‌ میں‌ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب 2015 میں‌ ہم انڈیا جا کر ان سے ملے تو اس کے چند مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ میری کزن نے بتایا کہ ایک علی گڑھ کی فمیلی نے کراچی شفٹ‌ ہونے کے بعد ہماری فیملی کے ناموں‌ پر اپنے بچوں‌ کے نام رکھ لئیے۔ یعنی ایک دو نہیں‌ ساری فیملی کے نام چرا لئیے گئے۔ یہ بات سن کر پہلے مجھے یقین نہیں‌ آیا، پھر میں‌ نے ان سے مذاق میں‌ کہا کہ آپ لوگوں‌ کے ڈپلیکیٹ سے ملنے کے لئیے میں‌ کراچی ہی چلی جاتی وہ میرے لئیے آسان ہوتا۔ وہاں‌تو دو سال رہے بھی تھے۔ بس پکڑ کر ہی چلے جاتے۔ ہمیں‌ اپنے دل و دماغ سے یہ بات نکال دینی ہو گی کہ اپنا نام بدل کر ہم بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ انسان بہتر یا بڑا صرف اپنے کاموں‌ سے ہوتا ہے اور بس۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے اپنے نام بھی نقلی تو نہیں؟

1989 میں‌ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے تحقیق دانوں‌ نے ہاواسوپائی ریڈ انڈین قبیلے پر ایک ذیابیطس کا ریسرچ پراجیکٹ شروع کیا جس میں‌ انہوں‌ نے لوگوں‌ کے خون کے سیمپل جمع کئیے۔ انہوں‌ نے آگے چل کر ان نمونوں‌ کو دیگر پراجیکٹس میں‌ بھی استعمال کرنا شروع کردیا جن میں‌ انسانی ہجرت اور جینیائی وراثت کی اسٹڈیز بھی شامل تھیں۔ یہ بات ریسرچ کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جب مریض‌ سے کنسنٹ (رضا مندی) لیا جاتا ہے تو اس میں‌ صاف بتانا ہوتا ہے کہ سیمپل کس چیز کے لئیے استعمال ہوں گے۔ اگر آگے چل کر مزید ریسرچ کرنی ہو یا ایسے سوال سامنے آئے جن کے لئیے کچھ نیا کرنا ہے تو واپس جا کر اجازت لینی ہوتی ہے۔ مریض اپنا دیا ہوا کنسنٹ کبھی بھی واپس بھی لے سکتے ہیں۔
\"\"
2003  میں‌ یونیورسٹی میں‌  لیکچر ہورہا تھا جس میں اس‌ امریکی ریڈ انڈین کے قبیلے کی جینیات اور انسانی ہجرت کے موضوع پر کی گئی ریسرچ پیش کی جا رہی تھی۔ حاظرین میں‌ سے ایک لڑکی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کو یہ جان کر بہت برا محسوس ہوا کہ اس میں یہ ڈسکس کیا گیا کہ ریڈ انڈین دنیا میں‌ کہاں‌ سے امریکہ آئے۔ یہ خون کے سیمپل ان افراد سے یہ کہہ کر لئیے گئے تھے کہ ان کو ذیابیطس، کولیسٹرول اور میٹابولک سنڈروم کے بارے میں‌ ریسرچ پر استعمال کیا جائے گا۔ ان لوگوں‌ کو یہ نہیں‌ بتایا گیا تھا کہ انسانی ہجرت کے بارے میں‌ معلومات حاصل کی جائیں‌ گی۔ اس ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ ریڈ انڈین  ایشیاء سے نارتھ امریکہ آئے ہیں۔ اس کے بارے میں‌ ایک تھیوری یہ ہے کہ ان دونوں بر اعظموں‌ کے مابین برف کا راستہ تھا جس پر لوگ چل کر چلے ‌گئے تھے۔ وہ راستہ بعد میں‌ پگھل کر ختم ہوگیا اور لوگ دنیا کے الگ الگ علاقوں‌ میں‌ تقسیم ہوگئے۔ اس کے بعد امریکہ تب دریافت ہوا جب انسانوں‌ نے پانی کے جہاز بنا لئیے اور لمبے سفر کی ہمت کی۔

یہ جان کر اس ریڈ انڈین قبیلے کے افراد دل برداشتہ بھی ہوئے اور انہوں‌ نے اپنے عقائد کی تذلیل محسوس کی کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ ریڈ انڈین افراد گرینڈ کینین سے شروع ہوئے۔ انہوں‌ نے 2004 میں‌ یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور یونیورسٹی کو کئی ملین ڈالر کا جرمانہ بھی ہوگیا۔ ریڈ انڈین اقوام پر ڈھائے گئے مظالم امریکہ کے ضمیر کا ایک گہرا حصہ ہیں۔ آج کے ریڈ انڈین لوگوں‌ کے لئیے مکمل طور پر مفت ہسپتال اور کلینک ہیں، ان کے آزاد علاقے ہیں اور کسینو اور سگریٹ وغیرہ کے جو بھی ان کے بزنس ہیں‌ ان پر کوئی ٹیکس نہیں۔ کئی ریڈ انڈین خاندانوں کو گھر بیٹھے پیسے بھی ملتے ہیں۔
گرینڈ کینین ایریزونا میں‌ ہے اور وہ دیکھنے کے لائق ایک عجوبہ ہے۔ ایسے جیسے چلتے چلتے ایکدم سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوں۔ وہ بہت بڑی، بہت گہری ہے اور بہت پرانی بھی ہے۔ گرینڈ کینین ایک اندازے کے مطابق تقریباً 17 ملین سال پرانی ہے۔ کولوراڈو دریا کے بہتے ہوئے پانی نے اس کو لاکھوں‌ سال تراشا ہے اور ہر لمحے‌ سورج کے سفر کے ساتھ اس کے جادوئئ رنگ بدلتے ہیں۔ گرینڈ کینین کی وسعت اور عمر دیکھ کر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کائنات میں‌ اس کی اپنی زندگی کتنی مختصر ہے۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں‌ کہ اس کو دیکھ کر ریڈ انڈین اس بات پر یقین کرنے لگے کہ وہ گرینڈ کینین سے آئے ہوں‌ گے۔
یونیورسٹی میں‌ انسانی ہجرت کے بارے میں ایک بہت دلچسپ لیکچر سنا تھا جس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایکس کروموسوم علاقائی ہیں اور وائے کروموسوم نے شاہرائے قراقرم پر سفر کیا۔ ایکس کروموسوم میں‌ ہزار جین ہیں‌ اور وہ اب بھی باقی ہیں‌ لیکن وائے کروموسوم تیزی سے ارتقاء سے گزرتے ہوئے سکڑتا گیا اور اب اس پر سو سے کم جین رہ گئے ہیں۔ کچھ سائنسدانوں‌ کے خیال میں‌ وائے کروموسوم دنیا سے غائب بھی ہوسکتا ہے۔\"\"
جب سے ڈی این اے سے اینسسٹری معلوم کرنے کے اشتہار ٹی وی میں‌ آنا شروع ہوئے میں‌ تب سے اپنا ڈی این اے چیک کرانے کے لئیے سوچ رہی تھی۔ اسپیکر ٹریننگ میں‌ ایک کیلیفورنیا کے افریقی نژاد اینڈوکرنالوجسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں‌نے بتایا کہ ان کے ڈی این اے میں‌ کون کون سی نسلوں‌ کے جین شامل ہیں۔ کہنے لگے زیادہ تر افریقی ہے، کچھ یورپی، کچھ ریڈ انڈین اور 13 فیصد ساؤتھ ایسٹ ایشین نکلا جو مجھے سمجھ نہیں‌ آیا۔ جی وہ چنگیز خان ہے! میں‌ نے ان کو کہا کیونکہ چنگیز خان کے جین آج کی دنیا کے 2% افراد یا تقریباً 30 ملین انسانوں‌ میں‌ پائے جاتے ہین۔ اس لئیے مذاق میں‌ کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان دنیا میں‌ گذرے ہوئے لوگوں‌ میں‌ کامیاب ترین آدمی ہے۔ مجھے خود بھی یہی فکر ہے کہ میرے ڈی این اے میں‌ بھی چنگیز خان نہ نکل آئے اس لئیے ابھی تک نہیں‌ بھیجا ہے۔ تو کیا ہوا، انہوں‌ نے کہا بس جسم ہی ہے ناں۔
بچپن سے بہت خوفناک تاریخ‌ پڑھی کہ تاتاری کتنے ظالم تھے۔ وہ کھوپڑیوں‌ کے مینار بناتے تھے اور اس میں‌ کھوپڑیوں‌ کا اضافہ کرنے کے لئیے حاملہ ماؤں‌ کا پیٹ کاٹ کر بچے تک نکال لیتے تھے۔ کسی مؤرخ نے لکھا کہ ہم ہر بات نہیں‌ لکھ رہے ہیں‌ کیونکہ آنے والی نسلیں‌ یقین نہیں‌ کریں‌ گی۔
ایک بیٹل کیڑا کمر کے بل فرش پر گرا ہوا تھا اور وہ ہوا میں‌ اپنے ننھے منے پاؤں‌ چلا رہا تھا تو میں‌ نے اس کے نیچے کاغذ کھسکا کر اس کو باہر پھینک دیا تو وہ سیدھا ہوگیا اور بھاگا چلا گیا۔ بغداد کو تہس نہس کرکے جب شاہی خاندان کے افراد کو پکڑ لیا تو تاتاریوں‌ کا خیال تھا کہ خون بہانے سے نحوست ہوتی ہے اس لئیے انہوں نے ان کو قالین میں‌ لپیٹا اور اس پر گھوڑے دوڑا کر مارا۔ تاریخ کو غیر جانبداری سے پڑھا جائے تو مغلوں‌ نے بھی کچھ کم ظلم نہیں‌ کئیے۔
اس لئیے جب اینسسٹری ٹیسٹ کی کٹ آبھی گئی تو دو مہینے رکھی رہی۔ آخر کار میں‌ نے سوچا کہ ایک سائنسدان ہونے کے ناطے ہمیں‌ آبجیکٹولی سوچنا چاہئیے۔ ریڈ انڈین قبیلے کو بھی نئی انفارمیشن کے ساتھ اپنے خیالات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کو ہماری انفرادی زندگی ایک معجزہ ہے۔ کس طرح‌ سمندر کی تہہ میں‌ چند خلئے جڑ گئے اور ارتقاء کے پروسس سے گذر کر کتنے انواع کی مخلوقات بن گئیں۔ ننانوے فیصد اسپی شیز تو ناپید بھی ہوچکی ہیں۔ اس باکس کو کھولا، اس میں‌ دی گئی ہدایات کو غور سے پڑھا اور سفید پلاسٹک ٹیوب میں‌ تھوک ڈالا اور اس کو نیلے اسٹیبلائزنگ محلول میں‌ مکس کرکے واپسی کے لفافے میں‌ بند کرکے ڈاک میں‌ ڈال دیا۔

یہ پہلا حصہ ہے۔ اس تحریر کا دوسرا حصہ نتائج آنے کے بعد لکھوں‌ گی جس کے لئیے میں‌ سانس روک کر انتظار کررہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments