عورت سوال کرتی ہے


\"\"یہ نظریہ ہوتا کیا ہے؟ ایک خیال یا عقیدہ یا رایٔے جو کسی فرد، گروہ یا معاشرے کے متعلق جڑ پکڑ لیتا ہے۔ مثلاً پاکستان کی شناخت دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر اس کو اسلامی مملکت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں بدرِ شاہی حکومت ہے اور اس نظام کی بنیاد ایک عقیدے پر ہے کہ یہاں مرد حاکم ہے اور عورت محکوم۔ اس معاشرے کی تمام تر اقدار، روایات، رسوم و رواج اس آڈیٰٔیالوجی کی عکاسی کرتی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کس کو کیا جاتا ہے؟ ریپ کس کا ہوتا ہے؟ ونی کی رسم کس کے لیے ہے؟ قرآن سے شادی بھی عورت کی ہی ہوتی ہے۔ یہ پدرانہ نظام کبھی کسی مرد کو ونی کرتا ہے؟ یا اس کی قرآن سے شادی کرتا ہے یا پھر کسی مرد کو ریپ کیا جاتا ہے؟

ایسا نییں ہوتا کیونکہ ان حاکموں کہ یہ سب کرنے کی اجازت ہے۔ مذہب ان کا، قانون ان کا، معاشرہ ان کا اور اختیارات بھی انھی کے۔ اس نظام میں عورت کا مقام استعمال کی شے سے زیادہ نہیں ہے اور ایسی شے جس کو جب چاہیں، جس روپ میں چاہیں، ڈالا جا سکتا ہے۔

میں مرد ہوں۔ مجھے گھر چلانا ہے تو تعلیم پر صرف میرا حق ہے، نوکری یا کاروبار بھی صرف میں کر سکتا ہوں کیونکہ عورتیں تو ناقص عقل ہوتی ہیں۔ ان کے بس کے کام نہیں ہیں یہ۔ اور ہم عورتیں اطاعت میں یہ قبول کرتی ہیں کہ جی ہم ہیں ناقص عقل۔۔ میں مرد ہوں۔ میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ مجھ سے منسلک خواتین کو کوئی دیکھے بھی لیکن مجھے حق ہے کہ میری نظروں نے سب خواتین کو دیکھنا ہے۔

مردوں کی یہ حاکمانہ شناخت کو مزید مستحکم کرنے میں کچھ ٹی وی ڈرامے یا مخصوص لٹریچر بھی کافی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ درج ذیل متن ایک مشہور ڈرامے سے لیا گیا ہے۔

 \”ممی! یہ مرد عورت کے لیے کیا ہوتا ہے؟ وہ دروازہ ہوتا ہے۔ دروازے کا کام رستہ روکنا ہوتا ہے یا رستہ دینا اور ممی اس دروازے نے میرا رستہ روک لیا ہے۔ میرا نہیں، ہر عورت کا رستہ روک لیا ہے۔ آگے جانے نہیں دیتا۔ آج تک آگے جانے نہیں دیا۔\”

کسی بھی گھر میں جو ایک دروازے کا کردار ہوتا ہے وہی ایک مرد کا کردار ہے خواتین کی زندگیوں میں۔ دروازہ اپنی مرضی سے کھلتا ہے اور اس کا دل نہ چاہے تو تاعمر بند رھتا ہے۔ ہاں دروازہ حفاظت بھی کرتا ہے لیکن حفاظت سے زیادہ یہ مفاد کی گیم ہے۔ اس حفاظت کے عوض کتنی قربانیاں بھی تو لیتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایسا لٹریچر خواتین کی مظلومیت پر روشنی ڈال رہے ہیں لیکن پس پردہ ان کو یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں کہ بے چاریو! محکوم ہونا تمہاری تقدیر ہے۔ تم اہل نہیں اس دروازے کو کھولنے کی۔ تمہاری تقدیر ہے اس کی دھلیز کے ساتھ چپکے رہنا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی نکمے اور کاہل انسان کو کہتے رہیں کہ تو کاہل ہے، تو کاہل ہے۔ تو اس کا ذہہن یہ قبول کر لے گا کہ میں کاہل ہوں۔ ہم خواتین بھی یہ قبول کر چکی ہیں کہ ہم بے بس ہیں۔ لاچار ہیں۔ مجبور ہیں۔ یہ مرد ہمارے اَن داتا اور مالک ہیں۔

در حقیقت یہ خواتین کی نفسیات کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل ہے۔ جب گھر میں بیٹھی ایک عورت، جس کے پاس تفریح کا ایک ہی ذریعہ ٹی وی ہے، خواتین کے ایسے کردار دیکھتی ہے جس میں ایک اعلی تعلیم یافتہ عورت ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں یہ نظریہ مزید مستحکم ہو جاتا ہے کہ میں لاچار ہوں، مجبور ہوں۔ مجھے ہر ظلم برداشت کرنا ہے۔ برأے مہربانی یہ خطرناک کھیل بند کر دیں۔

 بنت حوا سے ایک سوال ہے۔ ہماری یہ شناخت اگلی کتنی نسلوں تک منتقل ہو گی؟ اور کتنی بیٹاں اس پدرانہ نظام کی بھینٹ چڑھیں گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments