نورا خان


 

\"Muhammad-Ishfaq\"

ہم لوگ تھانہ صدر بیرونی میں پولیس ملازموں کے ریسٹ روم میں بیٹھے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ہم میں سے ایک یہاں لاک اپ میں بند تھا، رات اس سے چکری روڈ والی چوکی پہ چرس برامد ہو گئی تھی۔ یہ تو خیر معمولی مسئلہ تھا پانچ سو، ہزار کی گیم، مگر شاہ جی نے اے ایس آئی کی گالیوں کے جواب میں اسے دو چار ہاتھ بھی جڑ دیے تھے۔ قانون اب انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوانے پہ تلا بیٹھا تھا اور ہم یہ تہیہ کئے ہوئے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے انہیں تھانے سے نکال کر لانا ہے۔ ایسے میں کسی نے مجھے بتایا کہ نورا باپ بن گیا ہے، میں بے ساختہ اٹھا اور نورے کو گلے لگا کر مبارکباد دی۔
’نام کیا رکھا ہے بیٹے کا؟‘
’عبدالرحمان۔۔۔۔اشفاق بھائی‘
’ماشاءاللہ، پیارا نام ہے‘
’میں اپنے عبدالرحمان کو حافظِ قرآن بناؤں گا، آپ دیکھنا۔ اپنے امی ابا کو پھر وہ خود ہی بخشوا لے گا۔‘ نورے نے ہنستے ہوئے مگر ایک عزم سے کہا۔ یہ دوسرا موقع تھا جب مجھے نورا خان بہت اچھا لگا۔ پہلا موقع کیا تھا اس سے پہلے یہ جان لیجئے کہ وہ کون تھا۔
اسے دو تین سال ہوئے تھے ٹاہلی موہری آئے۔ پٹھان فیملی تھی مگر واہیات قسم کے لوگ۔ بوڑھا باپ مزدور تھا مگر انتہائی بد دماغ آدمی، ماں حد سے زیادہ جھگڑالو اور بدزبان عورت، بہن نے آتے ہی محلے کے دس لڑکے پیچھے لگا لئے مگر نورا خان ان سب سے بڑھ کر تھا۔
چھوٹا قد، گٹھا ہوا جسم، چوڑا چکلا سینہ، صورت ایسی نہیں کہ یاد رہ جائے، بہرحال شکل سے ہی بدمعاش لگتا تھا اور تھا بھی۔ آتے ہی محلے کے چھوٹے موٹے گینگز میں سے چند ایک سے اس کی دوستی ہوگئی، اور کچھ سے لڑائی۔ لڑائی میں دلیر تھا، مار کھانے سے ڈرتا نہیں تھا اس لئے کامیاب رہتا تھا۔ لہٰذا جلد ہی اپنی جگہ بنا لی۔ کچھ پڑھنا لکھنا بھی جانتا تھا۔۔۔کم از کم NOORA لکھنا اسے آتا تھا لہٰذا اپنے گھر کے آس پاس کی دیواریں اس نے اپنی وال چاکنگ کر کے بھر دیں۔ باقی چرس، کپی یہ سب تو چلتا ہی تھا۔ خود بھی پیتا تھا دوسروں کو لا بھی دیتا تھا۔ کبھی کچھ محنت مزدوری بھی کر لیتا تھا، کبھی دھونس دھاندلی سے کچھ پیسے نکال لیتا تھا، چل رہا تھا نظام اس کا۔
حرکتیں شاید ہم سب کی یہی تھیں مگر اس کے باوجود ہم سفید پوش تھے، معزز کہلاتے تھے۔ ہمارا گروپ ایک تو ان بدمعاشانہ قسم کے پنگوں سے دور رہتا تھا، دوسرا ہمارا کچھ بلاوجہ ہی رعب زیادہ تھا، اس لئے نورا اور اس جیسے سڑک چھاپ لفنگے ہمارا لحاظ کیا کرتے تھے۔ واسطہ ان سے پڑتا ہی رہتا تھا۔
رات کو ڈیڑھ دو بجے کا وقت تھا، محرموں کے دن۔ ڈھیری والی امام بارگاہ سے شیعہ حضرات مجلس سن کر بھی کب کے گھروں کو جاچکے تھے، میں اور شاہد، پوڈری چوک پر ایک ریڑھی پہ بیٹھے گپیں لگا رہے تھے، جب ایک رکشہ رکا اور اس میں سے نورا برامد ہوا۔ اسے دیکھ کر ہم دونوں کے منہ سے بیک وقت ایک ہی گالی نکلی، پھر ہم ہنسنے لگے۔ مگر نورا اکیلا نہیں تھا، چادر میں لپٹی ایک دبلی پتلی لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔ مجھے تعجب ہوا تو شاہد نے ہنستے ہوئے بتایا کہ چند دن پہلے نورے کی شادی ہوئی ہے۔
’کمال ہے یار‘
’کمال تو ہے، پتہ ہے شادی کس سے کی ہے؟‘
’کس سے؟‘
’شبو سے‘
’شبّو؟ کراچی والی شبّو سے؟‘ ۔ میں حیران رہ گیا۔ آپ کو بھی حیرت ہوتی اگر آپ شبو کو جانتے ہوتے۔
اسے پہلی بار میں نے یہیں پوڈری چوک پہ ہی دیکھا تھا۔ ہم لوگ ہوٹل کے سامنے باہر لگی کرسیوں پہ بیٹھے تھے، ساتھ کھڑی ٹیکسی کے ڈرائیور سے وہ باتیں کر رہی تھی۔ انیس بیس سال کی دبلی پتلی لڑکی، لمبا قد، سانولا رنگ، معقول صورت، مگر جس چیز نے متوجہ کیا وہ اس کی زبان تھی۔ صاف، ستھری شستہ اردو۔ ہم اسے مانگنے والی سمجھے تھے مگر کسی بھکارن کو ایسی شائستہ اردو بولتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ڈرائیور نے اسے پچاس روپے دیے اور ساتھ کوئی بیہودہ سی بات کی اور وہ چلی گئی، ڈرائیور کو بلوایا گیا اور چائے کی پیالی پہ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ شبّو تھی۔
شبّو کراچی کی تھی مہاجر برادری سے، کسی لاہوریے کی محبت میں گرفتار ہوئی وہ اسے بھگا کر لاہور لے گیا۔ چند دن ساتھ رکھا، دل بھر گیا تو ایک اور دوست کے حوالے کردیا۔ اس نے شبّو کو چرس کی لت بھی لگا دی۔ پھر نشہ پانی پورا کرنے کیلئے اسے باقاعدہ جسم فروشی پہ مجبور کیا۔ شبّو موقع پا کر راولپنڈی بھاگ آئی۔
ریلوے سٹیشن سے ایک ٹیکسی والا اسے پوڈری چوک لے آیا اور ایک بار پھر وہی سب شروع ہو گیا جو لاہور میں ہوتا رہا تھا۔ یہاں بہت سے ملازمت یا کاروباری پیشہ چھڑے چھانٹ بیٹھکیں یا چھوٹے مکان کرائے پہ لے کر رہتے ہیں۔ شبّو ایک بیٹھک سے دوسری میں منتقل ہوتی رہی۔
ہم سب کندھے جھٹک کر ایک جملہ کہتے ہیں۔ ’گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اور جان چھڑا لیتے ہیں۔‘ لیکن ان میں سے ہر لڑکی اس معاشرے کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس نام نہاد اسلامی معاشرے کے مکروہ، بھیانک، غلاظت بھرے، خبیث چہرے کی جیتی جاگتی تصویر۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ ایک محلے والوں نے شور مچایا تو شبّو کو بیٹھک سے نکال دیا گیا۔ اب وہ چند بھیڑیوں کی کچھار سے نکل کر جنگل میں آن پہنچی تھی۔ مگر شبّو بنیادی طور پر’سروائیور‘ تھی۔ وہ لوگ جو جبلّی طور پر بقا کا ہنر جانتے ہیں، جو بس جیتے چلے جاتے ہیں، خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ ایسا ہی ایک دن تھا یہ بھی، جب ہم نے اسے دیکھا۔
اور ایسا ہی ایک دن تھا جب اسے نورا خان نے بھی دیکھا، وہ اسے گھر لے آیا، اپنے جنونی باپ اور بدزبان ماں کو کیا کہا، کیسے چپ کرایا معلوم نہیں مگر اگلے دن مولوی کو بلا کر نورے نے شبّو سے نکاح کر لیا۔
یہ جان کر نورا مجھے پہلی بار بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے کیا کچھ سہا ہوگا اس کا مجھے اندازہ تھا۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا جن لوگوں میں تھا شاید وہ سب ہی اس کی منکوحہ کو برت چکے تھے۔ ایک روز ایسے ہی ایک محفل سے گزر ہوا۔ آٹھ دس لڑکے نورے کے چھوٹے بھائی کو اس کی بھابھی کے حوالے سے چھیڑ رہے تھے۔ میں وہاں جا بیٹھا اور سب کو خوب بے عزت کیا، گالیاں دیں اور ان پر ثابت کیا کہ نورا ان لوگوں سے، مجھ سے ہزار درجے بہتر انسان ہے۔ یہ میں کچھ زیادہ ہی کر گیا تھا، مگر شاید نورے کے چھوٹے بھائی نے اسے بتا دیا، اس کے بعد نورا مجھ سے معمول سے کچھ زیادہ مؤدب ہوکر ملتا تھا۔ مگر نورے میں کچھ تھا جس کی وجہ سے ہمارا گروپ اسے کچھ فاصلے پہ ہی رکھتا تھا۔ یہ کچھ ہوتا ہے کچھ لوگوں میں، ان کی صورت، باڈی لینگویج یا ان کے انداز میں ۔۔۔ ایسا کچھ جو آپ لاشعوری طور پر پسند نہیں کرتے۔ شاید یہ اکیسویں صدی میں بھی نورے کا بدرمنیر کی فلموں جیسا بدمعاش دکھائی دینے کی کوشش تھی، اس کے گلے کا رومال، یا اس کا وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتے رہنا، یا اس کا کسی تاثر سے پاک چہرہ ۔۔۔۔ پوکر فیس۔
اس روز بھی ہم اپنے ایک دوست پولیس ملازم کو اس کے گھر سے تھانے لے جانے آئے تھے کہ نورے کو شاہ جی کے اٹھائے جانے کی خبر ملی تو وہ زبردستی ساتھ ہولیا تھا۔ ایک زبردست کوشش کے بعد بالآخر ہم شاہ جی کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئے، بمعہ برامد شدہ مال۔ ایک لطیفہ یہ بھی کہ جو مال پکڑا گیا تھا وہ کم تھا جبکہ اس سے زیادہ لے کر ہم تھانے سے باہر نکل آئے۔
زندگی چلتی رہی، پھر پتہ چلا کہ نورے نے شبو کو طلاق دے دی ہے۔ سننے میں یہی آیا کہ شبو جیسی لڑکیاں گھر کیسے بسا سکتی ہیں۔ اس بار نورے کے ساتھ سب کو ہمدردی تھی۔ واللہ اعلم کیا ہوا۔ سنا یہی کہ بیٹا نورے نے اپنے پاس رکھ لیا۔
مزید تین چار سال گزرے، ایک دن کام سے گھر آیا تو بھتیجے نے بتایا صبح کسی کو باہر کوئی گولیاں مار گیا۔ باہر نکلا تو معلوم ہوا نورے کو اس کے دوست شانے نے ٹانگ پہ دو گولیاں مار دیں۔ اسے شک تھا کہ نورے نے اس کی مخبری کی ہے۔ آدھ گھنٹہ نورا سڑک پہ پڑا رہا ہمارے گھر سے کچھ دور دکانوں کے سامنے مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ اس کے کہنے پر اس کے ایک دوست کو البتہ کسی نے فون کرکے بلالیا، جو اسے رکشے پر ساتھ لے گیا۔ مجھے افسوس ہوا۔ میں ہوتا تو کم از کم اتنی بے حسی کا مظاہرہ نہ کرپاتا۔
نورا بچ گیا اور شانا چھپتا پھر رہا یہ معلوم ہوا، مگر ملاقات نورے سے نہ ہو پائی۔ اس کے ماں باپ بھی محلہ چھوڑ گئے اور میں بھی۔
پرسوں بہن بیمار تھی، اس کے ساتھ یہاں ایک نرسنگ ہوم آیا ہوا تھا۔ باہر گیٹ کے ساتھ بھی دو بنچیں پڑی ہیں، ان پہ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ شبّو کو آتے دیکھا۔ تقریباً وہی حلیہ جس میں پہلی بار دیکھا تھا، کمزور پہلے سے زیادہ مگر باقی ویسی کی ویسی۔
کچھ لوگ سروائیور ہوتے ہیں، بقا کے ہنر سے آشنا، جو بس جیتے چلے جاتے ہیں، خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ نورا، شبّو اور میں ۔۔۔۔ ہم سب سروائیور ہیں۔ کچھ بھی چھن جائے، کچھ بھی کھو جائے، کوئی بھی چھوڑ جائے، ہم جیتے ہی چلے جاتے ہیں۔

کوئی چاند ٹوٹے یا دل جلے، یا زمیں کہیں سے ابل پڑے
ہم اسیرِ صورتِ حال ہیں ، ہمیں حادثات کا ڈر نہیں

مجھے اس روز شبّو کو دیکھ کر عبدالرحمان یاد آیا، جسے کبھی دیکھا تو نہیں مگر جس نے حافظ بن کر اپنے ماں باپ کو بخشوا لینا تھا ۔۔۔۔ اللہ کرے ایسا ہی ہوا ہو اور اللہ کرے ایسا ہی ہوتا ہو۔

(ناموں کے علاوہ باقی سب سچ ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments