عمران خان نے کیسے طالبان کا ایجنڈا قوم کو بیچا؟


\"\"ہم منجدھار میں تو ویسے ہی پھنسے ہوئے ہیں تو کیوں نہ تھوڑی سی ہمت کر کے کچھ نکات کا جائزہ لے لیا جائے، مثلا ایک زیر غور معاہدے کی ایک شق کچھ اس طرح تھی:

’’ وفاقی حکومت اس بات کی پابند ہو گی کہ شریعت کے نفاذ کے لیے اقدامات کرے۔ مثلا قرآن و سنت میں درج اسلامی اصولوں کی روشنی میں نماز (صلواۃ) کا قیام، زکوۃ کا انتظام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم اور برایئوں سے روکنے) کا بندوبست، ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ، اور معاشی اور معاشرتی انصاف کی فراہمی کے لیے (قران و سنہ کی کے احکامات کی روشنی میں) مناسب اقدامات کرنا ‘‘

اگر یہ عبارت آپ کی جانی پہچانی لگے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے، کہ یہ میاں نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت میں ان کی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ پندرھویں آئینی ترمیم (جو قاری کے ذوق کے مطابق سوئے اتفاق یا حسن اتفاق سے منڈھے نا چڑھ سکی) کی بنیادی شق کا ترجمہ ہے

اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر معاملہ میں کسی نا کسی سازش کا کھرا ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ایک بظاہر قابل یقین مفروضہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امیر المومنین بننے کا خواہش مند ایک سیاست دان اپنے وقت کا سب سے بڑا سیاسی شعبدہ دکھایا ہی چاہتا تھا کہ۔۔۔۔۔ ‘‘

لیکن اس دفعہ ایسا ہوگا اور غیر محسوس طور پر ہو گا اور کوئی نواز شریف سے یہ بھی نہیں کہہ سکے گا کہ ’’ یہ کیا طالبانی کام ‘‘ کرنے لگے ہو۔

لیکن ٹھہریے، اب اس منظر نامے میں ایک اور ولن بھی داخل ہو چکا ہے اور وہ ہے عمران خان جن کو بجا طور پر طالبان خان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں جس نے ہماری سیاست کو مسلح شدت پسندی کی چٹانوں پر پٹخنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی

خان صاحب کے حمایتی چلائیں گے کہ ’’ لو جی پھر عمران خان پر تنقید شروع۔ ہر بات کا ذمہ دار صرف عمران خان ہے۔ اگر کوئی کتا بھی سڑک پر ٹرک کے نیچے آ جائے تو وہ بھی عمران خان کا قصور ہے۔۔ حالانکہ عمران کے پاس تو حکومت بھی نہیں۔۔ اس کا کسی سرکاری مشینری پر کوئی کنڑول تک نہیں ‘‘

عمران کے حامیوں کا یہ اعتراض کہ وہ اقتدار میں نہیں ہے حقیقت پر مبنی ہے لیکن اس سے عمران خان کے شدت پسندی والے معاملہ میں ولن کے کردار پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اگر غور کیا جائے تو عین اسی وجہ سے کہ عمران خان کے پاس اقتدار نہیں (اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے)، وہ شدت پسندی کی حمایت جیسے خطرناک کام بھی کر گزرتا ہے (ویسے عمران خان کے پی کے میں حکومت ملنے کو تو کسی گنتی میں ہی نہیں لاتا کیونکہ اس کے نزدیک جب تک پنجاب میں اقتدار نہ ملا تو گویا کچھ نہ ملا )

عمران خان کا ہم سب کے لیے پیدا کردہ مسئلہ جتنا سادہ ہے اتنا ہی گھناؤنا بھی ہے، یعنی مسلح شدت پسندی کے بیانیے کو ریاست اور معاشرے میں قبول عام کی حیثیت دلانا

 عمران خان نے پے در پے اپنے سیاسی موقف سے شدت پسند بیانیے کو اس کے مضر اثرات سے بے خبر عوام کے سامنے خوبصورت اور پرکشش الفاظ کا جامہ پہنا کر پش کیا، بالکل ایسے ھی جیسے درد سر میں مبتلا مریض کو ایک شوگر کوٹد گولی یہ کہہ کر پیش کی جائے کہ یہ اس کے سر درد کا علاج ہے

ایسا نہیں کہ خان صاحب نہ ہوتے تو دائیں بازو کی سیاست یا مذہبی سیاست ملک سے ختم ہو چکی ہوتی۔ عمران خان نہ بھی ہوتے تو طالبان تو پھر بھی تھے۔ عمران خان نہ بھی ہوتے تو بھی سیاست کی آڑ میں نفرت اور عدم برداشت کے بیوپاری پھر بھی ہوتے، اور تحریک طالبان اور خود کش بمباروں کے بہت سے عذر خواہ پھر بھی مو جود ہوتے ۔ لیکن عمران خان کے بغیر شدت پسند اور خود کش بمباروں سے مسلح بیانیہ کو وہ قبول عام حاصل نہ ہوتا جو اس کو عمران خان کے علمبردار بننے کی صورت میں حاصل ہوا۔

ہم ایک منٹ کے لیے تصور کرتے ہیں کہ عمران خان سیاست میں کبھی آئے ہی نہیں تھے، قومی سٹیج پر کوئی طالبان خان، کوئی روشن آنکھوں اور مسحور کن مسکراہٹ والا کھلاڑی ملک کی ہر دوسری ٹی وی سکرین میں گھسا نہیں بیٹھا تھا، بلکہ اس سب کی جگہ صرف وہی پرانی مذہبی جماعتیں اور ضیا کی باقیات ہیں جو دائیں بازو کی سیاست کی قومی منظر میں نمائندگی کرتی ہیں۔

تو اس صورت میں منظر نامہ کچھ ایسے بنے گا کہ طالبان خود کش دھماکوں میں خود کو اور قومی املاک اور لوگوں کو اڑا رہے ہیں، لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔۔ اس سب میں کسی کو کچھ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا جائے اور طالبان کی کارروائیوں کے باوجود زندگی رواں دواں ہے، گلیوں میں بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں، سیاستدان کمزور اور کوئی کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہیں جب کہ پبلک کنفیوژن کا شکار ہے

اس اوپر بیان کردہ منظر میں پردہ اٹھتا ہے اور سٹیج پر طالبان کے عذر خواہوں کا سردار (جس کی اپنی سوچ بھی شدت پسندی کی ہی ایک شاخ ہے) داخل ہوتا ہے۔ موازنے میں مذہبی سیاست کے پرانے کھلاڑیوں، مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ حتی کہ لال مسجد کے امام مولانا عبد العزیز کو بھی رکھ لیجیے۔۔ ان سب کی طرف سے طالبان کے بارے میں ایک جیسا ہی پیغام سننے کو ملے گا جس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ : ’’ طالبان کو غلط سمجھا گیا ہے، طالبان کے مسئلہ کا حل پیار کے دو بول اور پاکستان کے تمام مسائل کا حل \”تھوڑا سا اور اسلام\” ہے۔۔۔ اس کے ساتھ اگر امریکہ اور اس کے طاغوتی عزائم کو مردہ باد بھی کہہ دیا جائے تو سمجھو کام پورا ‘‘

عوام میں سے کچھ اس پر خلوص وعظ کو سنتے، سننے والوں میں سے بھی کچھ بیچ بیچ میں اونگھنے لگتے اور سن سنا کر سب واپس اپنے کام دھندے پر چائے سموسوں اور قہقہوں کے سنگ خیال آرائی کرتے کہ ’’ یہ سادہ لوح حضرات جنھیں سب جاننے کا زعم ہے، خود کو سنجیدہ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سامعین بھی انھیں سنجیدہ لے رہے ہیں ‘‘

اس صورتحال میں کیونکہ شدت پسندی اور دہشت گردی کو خوشنما پیکٹ میں لپیٹ کر بیچنے والا کوئی نہیں تو یہ عفریت اپنی پرانی جگہ، یعنی معاشرے اور سیاسی بیانیے کے سمندر کے کناروں پر اٹھنے والی لہروں تک ہی محدود رہتی ہے۔ اور پھر عمران خان پیچیدہ معاملات کو سادہ فکری کی سان پر چڑھا کر قوم کے سامنے پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے ساتھ میانوالی کی پہاڑیوں سے اتر کو سوئے قوم آتے ہیں۔

سادہ فکری آسانی سے خلط مبحث کا موقع مہیا کرتی ہے خصوصا جب اسے دائیں بازو کا چورن بیچنے کے لیے استعمال کیا جائے تو مقبولیت کے بلندیاں آسانی اور تیز رفتاری سے طے کرواتی ہے ۔  چنانچہ طالبان خان دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے سادہ ترین فارمولا کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں :

1۔ پاکستان کی حالت بری ہے، لیکن اسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، اگر ہماری قیادت دیانت دار اور ہماری اشرافیہ محب وطن ہو

2۔ پاکستان میں اقتدار پر قابض طبقات اور اشرافیہ اس لیے محب وطن اور ایماندار نہیں کیونکہ وہ اخلاقی گراوٹ کا شکار اور غیر ملکی مفادات کے اسیر ہیں

3۔ پاکستان میں جو کچھ بھی غلط اور خراب اور برا ہو رہا ہے اس کی واحد وجہ بے ایمان قیادت اور اقتدار پر قابض غیر محب وطن طبقہ ہے

4۔ طالبان لوگوں کے درمیان سے اٹھے ہیں، وہ لوگ جو بددیانت قیادت اور غیر محب وطن اشرافیہ کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے ہیں

5۔ طالبان کو غلط سمجھا گیا ہے اور ان کے بارے میں غلط تصور پھیلایا گیا ہے۔۔ اور ایسا اقتدار پر قابض غیر محب وطن طبقہ، نیز اپنے مفادات اور غیر ملکی مفادات کی اسیر راشی اور بد دیانت قیادت نے جان بوجھ کر طالبان کو بدنام کیا ہے۔

ملاحظہ کیجیے کہ طالبان اور شدت پسندی کی عذر خواہی کے تانے بانے کیسے بنے گئے ہیں

اس عذر خواہانہ بیانیے کا کمال یہ ہے کہ یہ متعصب اور نفرت انگیز نہ دکھائی دیتے ہوئے بھی دراصل تعصب اور نفرت کی طرف داری اور حمایت کرتا ہے۔ اس کا کمال اس زبان میں ہے جو عوامی ہمدردی کا دھوکہ دیتے ہوئے تشدد اور نفرت کا کاروبار کرنے والوں کو ان کے جرائم سے بری کرتی ہے

عمران خان کا یہ بیانیہ بکا اور خوب بکا۔  قوم کے ایک بڑے حصے نے دہشت گردی کی عذر خواہی کی کڑوی گولی کو میٹھے غلاف میں لپیٹ کر نگل لیا ۔ حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ سکول کا طالبعلم ہو، یا گھردار خاتون خانہ، چارپائی پر مسند نشین عامی یا جدید تراش خراش کے پینٹ کوٹ میں ملبوس بابو، ہر ایک اس کا شکار بنا ۔ اس بیانیے کے سراب سے پیاس بجھانے والے اپنے تئیں اسے حق و سچائی آخری چشمہ سمجھتے ہوئے اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس یہ چشمہ کہاں سے پھوٹ رہا ہے، اس دانش کا منبع وہ شخص ہے جسے دنیا عمران خان کے نام سے جانتی ہے اور جس نے پاکستان میں وسیع بپیمانے پر شدت پسندی کی معذرت خواہی کرنے والا ایچنڈا کامیابی سے فروخت کیا  ہے۔

٭٭٭   ٭٭٭

سیرل المیڈا کا یہ تجزیہ ٹھیک دو برس قبل نو فروری 2014ء کو انگریزی روز نامے ڈان میں شائع ہوا تھا۔ (http://www.dawn.com/news/1085748) یہ وہ دن تھے جب نواز حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ناٹک کھیلا جا رہا تھا۔ اس تحریر کو \”ہم سب\” کے لئے محترم سلمان یونس نے ترجمہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments