لہو رنگ حنا کی اللہ سے فریاد


\"\"میں حنا۔۔۔ لہو رنگ حنا۔

آج مجھے اللہ سے کچھ سوال کرنے ہیں۔ کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ساری زندگی صرف دعائیں ہی کیں۔ اب ذرا کچھ فرصت ملی ہے تو کچھ باتیں ہو جائیں۔ پہلے تو اللہ تعالی آپ یہ بتائیں کہ آپ میرے اللہ ہیں مگر زمین پر میرے لئے اتنے سارے خدا کیوں بن بیٹھے تھے؟ میرے خالق تو آپ تھے مگر زندگی کے فیصلے کہیں اور سے کیوں طے ہوتے تھے؟ موت کا بھی فیصلہ ان میں سے ایک نے کر لیا کہ کب، کیوں اور کیسے آئے۔

عبادت تو میں نے ہمیشہ آپ کی کی مگر اطاعت کے لئے ان جھوٹے خداؤں کی جانب سے کیوں حکم آتا تھا؟ جب بھائی مر گیا تو کسی نے بھائی بن کر ساتھ نہ دیا۔ بیوہ بہن اور بیوہ بھابھی کے ساتھ کو بانٹنے کوئی میرے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہ تھا۔ کینسر کا علاج تو دور ایک وقت کی دوا کے پیسے کبھی کہیں اور سے نہ آئے مگر ابا کے مرنے کے بعد ایک جاہل، گنوار کا رشتہ ضرور آ گیا۔ قرآن میں آپ نے بتا دیا کہ بیٹی کو درگور نہ کرو لیکن زمین پہ اکڑ کر چلنے والے باطل خدا بیٹی، بھانجی، بھتیجی سب کو زر کے ترازو میں تولنے کے بعد سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔

تعلیم میرا اپنا فیصلہ تھا۔ تعلیم نے مجھے فقط ڈگری ہی نہیں دی بلکہ شعور بھی دیا اور یہی ایک وہ چیز تھی جو اس معاشرے سے برداشت نہیں ہوتی۔ میرا تو جرم دگنا تھا۔ ایک تو تعلیم یافتہ لڑکی جو مخلوط درسگاہ جاتی ہو، دوسرا ایک خاندانی رشتہ سے انکار کرتی ہو۔ اوقات سے باہر ہو گئی تھی میں اللہ میاں۔ اس اوقات سے جو زمینی خداؤں نے میرے لئے مختص کی تھی۔ مجھے عورت ہونے کے ناطے صرف جسمانی ضروریات پوری کرنے کی تا حیات ڈیوٹی نبھانی تھی۔ شوہر کی بھی اور بچوں کی بھی۔ مجھے تنوروں میں آگ لگانی چاہئیے تھی مگر میں اپنے ذہن میں آگہی کی چنگاری جلا بیٹھی۔ آپ نے نا فرمانوں کے لئے بھی توبہ کا آپشن رکھا ہے نا؟ زمینی خداؤں نے تو مجھے توبہ کا موقع بھی نہ دیا اور قصہ ہی ختم کر دیا۔ جانے کتنی گولیاں تھیں جو مجھے لگیں کیونکہ میں تو پہلی گولی لگتے ہی اپنے گھر والوں کے مستقبل کا سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیسے گزارا کریں گے؟ اس ماہ کا بل کون دے گا؟ گھر میں راشن کہاں سے آئے گا؟ گھر کے بچوں کی دوائی کہاں سے آئے گی؟ کیونکہ یہ وہ ضرورتیں ہیں جو کسی نے کبھی ہمارے لئے پوری نہ کیں۔

آپ کو پتہ ہے اللہ تعالی کہ مجھے مار کر ایک باطل خدا نے اپنی غیرت میں اضافہ کیا۔ بڑا ہی بے غیرت نکلا یہ معاشرہ۔ نہ کسی رشتہ دار کو توفیق ہوئی اور نہ پڑوسی کو کہ گھر سے نکل کر اس سے پوچھیں کہ تیری غیرت اس وقت کہاں تھی جب یہ لڑکی تعلیم حاصل کر رہی تھی اور تو آوارہ گردی میں مصروف تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ صرف ایبٹ آباد والوں کی ہی سماعتیں کمزور ہیں جب ایک لڑکی جلتی رہی اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ مگر اب اپنے کوہاٹ والوں کو کیا کہوں؟ مجھے تو بڑا خوبصورت لگتا تھا یہ علاقہ۔ پتہ نہیں تھا کہ کسی غلیظ سوچ کے مالک کے ہاتھوں یہاں موت ایسے بے بس ہوکر آئے گی۔ سب بولتے تھے کہ حنا کا رنگ لال ہوتا ہے۔ مگر دیکھا اب سب نے کہ اس حنا کا لال رنگ ہوا۔ قطرہ قطرہ بہتی زندگی تمام ہوئی اور کوئی مدد کو نہ آیا۔ کتنا خوبصورت تھا میرا کوہاٹ۔ کتنے بد صورت تھے وہ لوگ۔ کتنے بد باطن تھے وہ۔

اے اللہ جب کہیں حنا، کہیں طیبہ، کہیں طوبی، کہیں سنبل پر ظلم ہوتا ہے تو آس پاس والے گونگے، اندھے، بہرے کیوں ہو جاتے ہیں؟ کسی کا جہیز کم ہو تو زبانیں دھاری دار ہو جاتی ہیں، کسی کی پسند کی شادی ہو رہی ہو تو سماعتیں دگنا کام کرتی ہیں اور کسی کی عزت کا جب تماشا بنے تو آنکھوں کو چشموں کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ ایسا کیوں ہے؟

خیر اب مجھے اس دنیا کی فکر نہیں۔ مجھے چھٹکارا مل گیا مہینے کے بل، گھر کے خرچے، دوائی کے پرچے، خاندان کی باتوں، محلے کی آنکھوں اور جائیداد کے جھگڑوں سے۔ مگر ہاں وہ سب ابھی اس دنیا میں ہیں۔ کیا میں تجھ سے ایک درخواست کر سکتی ہوں؟ وہ یہ کہ ان کی عمر بہت لمبی کرنا، انہیں آسائش، سہولتیں اور سب کچھ دینا مگر بیٹی نہ دینا۔ وہ قدر نہیں کر پائیں گے۔ حناؤں کے لال رنگ ان کی آنکھوں میں اتر کر صرف اس دنیا کی وحشت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ یہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ بیٹی جیسی نازک اور حسیں مہربانی کو یہ مٹی کی نذر کر دیں گے۔ 1400 سال پہلے کچھ لوگ زندہ دفناتے تھے۔ یہ لوگ زندگی بھر روز مار کر، روز زندہ کر کے پھر سے ماریں گے۔ یہ زمین کے باطل خدا بڑے ظالم ہیں۔ ان سے بیٹیوں کو محفوظ رکھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments