غیرت مند نہیں مثالی مرد کی اشد ضرورت


(سکنرر خان)

\"\"

عورت سے مرد کی غیرت نتھی ہے۔ یہ جملہ بچپن سے سن رہے ہیں۔ اور اس غیرت میں پاگل ہو کر بے غیرت اور بے ضمیر مرد کس طرح غیرت کے غیر انسانی نظریے کا تحفظ کرتے ہیں۔ مگر اس\’نظریہ غیرت\’ کی ہولناکی پر کوئی ذی شعور مرد سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ مگر چونکہ میں سوچ رکھتا ہوں اور ایسے ماحول میں پلا ہوں جہاں میری زندگی میں میری ماں اور بہنوں کا انتہائی مثبت کردار رہا ہے۔ تو ان کے تحفظ کے لئے میرا فرض بنتا ہے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر مرد ذات کو کچھ صلاح دوں۔

 سب سے پہلے میری ناتواں رائے میں غیرت کا لفظ اردو لغت میں سے نکال دینا چاہئے یا کم ازکم غیر پسندیدہ، متروک اور عامیانہ الفاظ کی فہرست میں شامل ہو تا کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کرنے پہ فخر کی بجائے موجودہ دور کی جہالت میں نہ پیدا ہونے پر متشکر ہوں۔ لغت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ روز مرہ طرز بیان اور طرز کلام میں بھی تصرف و موافقت کی ضروت ہے۔ مثلاً \’غیرت مند مرد\’ کا بدل \’مثالی مرد\’ سے کر دینا چاہئے۔ مزید صلاح اور اصلاح میرے بقیہ مضمون میں ہیں۔

میں ایک مرد ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں اپنی بہنوں کی تعلیم کا ذمہ دار ہوں اور تعلیمی امور میں جہاں اور جس وقت بھی میری معاونت درکار ہو میں ان کو فراہم کرتا ہوں اور ان کی قابلیت میرے لیے باعث رشک ہے۔

میں اپنی بیٹی کی جائیداد اس کی پیدائش پر ملکی اور شرعی قانون (سن بلوغت) کے مطابق اس کے نام کر دوں گا۔ جیسا کہ میرے والد صاحب نے میری بہنوں کی پیدائش پر کیا۔

میں اپنی والدہ محترمہ، بہنوں اور بیوی کے نوکری کرنے کو نہ صرف سراہتا ہوں بلکہ ان کی قدر کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں کہ وہ میری مدر گار ہیں۔

میرے گھر میں مرد و خواتین کے حقوق و فرائض کی تقسیم ان کی جنس نہیں ان کی علمی اور جسمانی قابلیت متعین کرتی ہے۔

میری ایک بہن جو زیادہ نہ پڑھ سکیں اور دوسری پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ دونوں کی شادی میں انکی رائے حتمی تصور کی گئی۔

میری والدہ، بہنیں اور بیوی وہ لباس پہنتی ہیں جس میں وہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کی گھریلو اور نوکری کی ذمہ داریاں سخت اور محتلف ہیں اور میں بھی ان کے آرام میں اطمینان محسوس کرتا ہوں۔

میرے گھر کی تمام خواتین بہت بااعتماد ہیں۔ انہیں اپنے دفتر، سکول، کالج یا یونورسٹی آنے جانے کے لئے میری یا والد صاحب کی مدد درکار نہیں ہے۔

میرے گھر میں فرسودہ روایات اور خیالات کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ زندگی کے جئیے گئے بہت سے سال نہیں ان کی کوالٹی اہم ہونی چاہئیے۔ انسان مر جاتے ہیں خیالات و نظریات زندہ رہتے ہیں اور زندہ رہنے والی چیز مثالی ہونی چاہئیے۔

مندرجہ بالا کاؤنٹر صلاحیں اور خیالات ایک ویکسنیشن کی حیثیت ہیں جو ہمارے بیمار معاشرے کو صحت اور شفاء دے سکتے ہیں۔

آئیں میرا ساتھ دیں۔ غیرت مند نہیں مثالی مرد بنیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments