میرے گھر کا پتا (عزیز فیصل)۔


یہ ان دنوں کا ذکر ہے، جب میں راول پنڈی شہر کے سید پور روڈ پر رہتا تھا۔
ایک بے تکلف دوست نے پہلی بار میرے گھر آنا تھا۔ چوں کہ وہ میرے محلے کی طرف کبھی نہیں آیا تھا سو اس نے مجھ سے گھر کا پتا پوچھا۔ انوکھے سوال جواب کی بدولت بہت دل چسپ صورت احوال پیدا ہو گئی۔ اس سچے واقعے کی مکالماتی تفصیل ملاحظہ کیجیے:

دوست: اپنے گھر تک پہنچنےکا راستہ سمجھانا۔
میں: یار سید پور روڈ پر واقع نیشنل بینک کے ساتھ والی گلی میں داخل ہو جانا۔
دوست: کیا وہاں صرف ایک ہی نیشنل بینک ہو گا؟
میں: بھائی، میری معلومات کے مطابق کسی بھی بینک کی جڑواں برانچیں پورے پاکستان میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ لہٰذا یہاں بھی نیشنل بینک کی اکلوتی برانچ ہے۔ بے فکر رہو۔
دوست: اچھا اچھا! پھر کیا کروں، آگے بتاو!؟
میں: گلی میں داخل ہوتے ہی تمھارے بائیں جانب بند گلیاں شروع ہو جائیں گی۔
دوست: دائیں جانب گلیاں ہوں گی ہی نہیں؟
میں: (ترش لہجے میں) جی نہیں
دوست: یہ بتاو ان گلیوں کا سائز کیا ہو گا؟ مطلب لمبائی چوڑائی کتنے فٹ ہوگی؟
میں: بھائی، ان گلیوں کی پیمائش تو میں نے کبھی نہیں کی۔ بس یوں سمجھو تمھارے سائز کے سات آٹھ بندے اس میں آسانی سے گھس جائیں گے۔
دوست: کیا یہ گلیاں برابر سائز کی ہوں گی؟
میں: (جھلا کر) جی جی جی۔
دوست: ناراض نہ ہو یار ۔۔۔ آگے بتاو۔
میں: تم اس طرح کرنا کہ بائیں ہاتھ والی گلی نمبر چار پر پہنچ جانا۔
دوست: گلی نمبر چار؟ کوئی گلی نمبر مسنگ تو نہیں ہو گی؟
میں: کیا مطلب؟
دوست: (میرا غصہ بھانپتے ہوئے) یارا غصہ بری بلا ہے۔ میرا مطلب اس چوتھی گلی کی کوئی نشانی ہی بتا دو؟
میں: بھائی چوتھی گلی وہ واحد گلی ہے کہ جس کے سرے پر بجلی کا بڑا ٹرانسفارمر نصب ہے۔
دوست: تو کیا اس گلی کے آگے پیچھے والی گلیوں پر فون کے کھنبے یا کیبل والی تاریں بھی ہوں گی؟
میں: یار تمھیں اس سے مطلب؟ بس چوتھی گلی ۔۔۔ ٹرانسفارمر والی۔ نیشنل بینک سے دو تین منٹ کی واک پہ ہو گی۔ وہیں پہنچ جانا۔
دوست: اچھا یہ بتاو کہ ٹرانسفارمر کا رنگ کیا ہو گا؟
میں: شرارتی الو ۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے؟ رنگ؟ ٹرانسفارمر کا؟
دوست: ہاں ناں ۔۔۔ اس کا رنگ کیا ہو گا۔
میں: (مُکا لہراتے ہوئے) یار ٹرانسفارمر کا رنگ بجلی جیسا ہو گا ۔۔۔ اب سمجھے؟
دوست: سمجھ گیا بھائی ۔۔۔ اس کے بعد کہاں جاوں گا میں؟
میں: اس چوتھی گلی ہی میں بائیں جانب مڑ جانا۔
دوست: او کے، پھر؟
میں: اس گلی میں آٹھ دس گھر ہوں گے اور ان میں میرا گھر وہ ہو گا کہ جس کے گیٹ کا رنگ کالا ہے۔
دوست: کسی اور نے تو گیٹ کا رنگ کالا نہیں کرایا؟
میں: (بہت جھلا کر) ابھی ایک گھنٹا پہلے تک تو ایسا نہیں ہوا تھا، اس کے بعد کسی خبیث نے اپنے گھر کے گیٹ کو کالا رنگ دیا ہو، تو اس کا مجھے علم نہیں۔
دوست: کیا تمھارا گھر سنگل اسٹوری ہے؟
میں: نہیں یار ڈبل اسٹوری ہے، میں اوپر والے پورشن میں رہتا ہوں۔ اور ہاں گیٹ پر پہنچ کر تم دائیں ہاتھ والی بیل بجا دینا، کیوں کہ بائیں ہاتھ والی بیل نچلے پورشن کی ہے۔
دوست: کیا دائیں ہاتھ کی بیل کے ساتھ، اوپر کی طرف اشارہ کرتا۔ تیر کا نشان بنا ہوگا؟
میں: نہیں ۔۔۔۔ بالکل نہیں۔
دوست: (سخت بگڑ کر) پھر مجھے کیسے پتا چلے گا کہ کون سی بیل تمھارے گھر کی ہے اور کون سی نچلے پورشن کی؟
میں: نہیں! تمھیں پتا چل جائے گا۔
دوست: (دانت نکالتے ہوئے) وہ کیسے پیارے؟
میں: (دانت پیستے ہوئے) دائیں ہاتھ والی بیل کے ساتھ تیر کے اوپر والے نشان کی جگہ پر میں خود لٹکا ہوا دکھائی دوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments