ہم خوش قسمت ہیں یا بد قسمت؟ – مکمل کالم


ہمارے ایک بزرگ دوست تھے، اب بھی حیات ہیں، خدا انہیں دنیا میں ہی جنت نصیب کرے، بڑی مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ خوش قسمتی یا بد قسمتی کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ آپ کے اچھے برے فیصلے ہوتے ہیں جن کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ اگر فیصلے دانشمندی کی بنیاد پر کرو گے تو نتائج خوشگوار نکلیں گے اور اگر فیصلے حماقت پر مبنی ہوں گے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ کوئی بھی شخص زندگی میں کسی ایک فیصلے کی وجہ سے کامیاب یا نامراد نہیں ہوتا، یہ فیصلوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو کسی کو ظفر مند اور کسی کو ناکامران بناتا ہے۔

کامیاب لوگ بھی زندگی میں غلط فیصلے کرتے ہیں اور ناکام لوگ بھی کوئی نہ کوئی درست فیصلہ کرتے ہیں، مگر کسی بھی شخص کی ناکامی یا کامیابی ایک فیصلے پر نہیں ٹکی ہوتی۔ زندگی کے ہر مرحلے پر کوئی نہ کوئی موڑ ایسا ضرور آتا ہے جب آپ کو اپنا اختیار استعمال کر کے راہ منتخب کرنی پڑتی ہے، ہو سکتا ہے نادانستہ طور پر آپ غلط راہ کا انتخاب کر لیں مگر کوئی بات نہیں ایسی ایک آدھ غلطی کی گنجایش ہوتی ہے بشرطیکہ آدمی اس غلطی کا ادراک کرے اور اگلی مرتبہ درست فیصلہ کرے۔ لیکن اگر آپ کسی شاہراہ پر گاڑی چلاتے ہوئے مسلسل غلط راستوں کا انتخاب کرتے رہیں گے تو منزل پر پہنچنا تو دور کی بات، ہو سکتا ہے کہ راستے میں حادثہ کروا کے ٹانگ تڑوا بیٹھیں اور پھر بد قسمتی کا رونا روئیں!

میں ان بزرگوار کی باتوں سے اتفاق تو کرتا ہوں مگر بہرحال مقدر کا بھی قائل ہوں، اس دنیا میں ایسے ایسے لوگوں کے بھاگ جاگتے ہیں جو سارا سارا دن سوئے رہتے ہیں اور ایسے ایسے انسان یہاں خوار ہوئے پھرتے ہیں جو محنتی بھی ہیں اور دیانت دار بھی، حالانکہ فی زمانہ یہ دونوں خصوصیات ایک ساتھ ملنی مشکل ہیں۔ خیر، یہ ایک علیحدہ بحث ہے اور میرا اس بحث کو چھیڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میرا مدعا کچھ اور ہے۔

انسانوں کی طرح قوموں کے پاس بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ درست فیصلے کریں یا پھر جذباتیت کی رو میں بہہ کر حماقت آمیز فیصلوں کا انبار لگاتے رہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں میں تو خیر عوام کا اختیار زیادہ تر سلب ہی کیا جاتا رہا ہے، لیکن بہرحال جو بھی اختیار عوام کے نام پر آج تک استعمال کیا گیا ہے اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کچھ سوالات البتہ خود سے پوچھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا، بزرگوں سے سنا ہے کہ مزاحمت تو دور کی بات ملک کے طول و عرض میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی تھی، کامل گیارہ برس تک عالی مرتبت ایوب خان اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے، ’زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے‘ مگر خیال رہے کہ رخصت ہوتے وقت آنجناب ملک توڑنے کی بنیاد رکھ گئے۔

آج اگر کسی بین الاقوامی آڈٹ فرم کو کہا جائے کہ وہ ان گیارہ برسوں میں ملک کو پہنچنے والا نقصانات کا تخمینہ ڈالروں کی شکل میں لگائے تو آپ کے خیال میں یہ رقم کتنے ارب ڈالر بنے گی؟ اسی سوال کو دوسرے انداز میں ڈھال کر دیکھتے ہیں۔ اگر آج کی تاریخ میں پوچھا جائے کہ ”آپ ایوب خان یا فاطمہ جناح میں سے کس کو ووٹ دیں گے“ یا ”کیا آپ ایوب خان کی ان اقتصادی پالیسیوں کی حمایت کریں گے جو بعد ازاں ملک ٹوٹنے کا باعث بنیں“ ، تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟ یہ فیصلہ یا انتخاب ہی ملک کی خوش قسمتی یا بد بختی کا تعین کرے گا۔

اسی طرح تاریخ کا پہیہ گھما کر اگر آج پوچھا جائے کہ کیا ہم شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات مان کر اسے وفاق پاکستان میں شامل رکھنے پر ترجیح دیں گے یا مشرقی پاکستان پر چڑھائی کرنے کی راہ منتخب کر کے ملک تڑوا بیٹھیں گے تو ہمارا جواب واضح ہوگا کہ آج ہم شیخ مجیب کے چھے نکات مان کر ملک بچا لیں گے، یاد رہے کہ وہ چھے نکات پر مذاکرات کے لیے تیار تھا اور اس سے دفاع اور کرنسی کے معاملات پر رعایت لی جا سکتی تھی۔ اسی سوال کو دوسرے انداز میں دیکھتے ہیں۔ اگر جنرل یحییٰ خان کے مختصر دور کا تجزیہ سود و زیاں (Cost۔ Benefit analysis) کیا جائے تو ان فیصلوں کا ہرجانہ کتنے ارب ڈالر ہوگا جو اس مرد آہن نے 1969 سے 1971 درمیان کیے، نیز کیا بڑے سے بڑا جرمانہ بھی ملک توڑنے کے جرم کی تلافی کر سکتا ہے؟

دس روز پہلے 5 جولائی گزرا۔ تیسرے مارشل لا کی سالگرہ۔ اس مرد زرہ پوش نے بھی حسب روایت قوم کی تقدیر کے فیصلے کیے۔ لکھ لکھ کر قلم گھس چکا ہے سو دہرانے کا فائدہ نہیں۔ آج اگر عوام سے پوچھا جائے کہ وہی جنرل ضیا الحق صاحب ایک مرتبہ پھر ملک میں نظام مصطفی برپا کرنا چاہتے ہیں، ویسے ہی ایک مقبول لیڈر کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں، اسی طرح ہمسایہ ملک میں جہاد کے لیے نوجوان نسل کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، کلاشنکوف اور ہیروئن سے ہماری تربیت کرنا چاہتے ہیں، فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور ملک کی سب سے پاپولر جماعت کے کارکنوں کو کوڑے لگا کر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو کیا آج کوئی با شعور شخص ان کی حمایت کرے گا؟

ظاہر ہے کہ آپ کا چونکہ جمہوریت پسند اور بالغ نظر ہیں تو آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ مگر یہ جواب آج کی تاریخ میں دینا آسان ہے، آج ہمیں تاریخ کو ریوائنڈ کر کے دیکھنے کی سہولت موجود ہے، آج ہم ان فیصلوں پر اطمینان سے تبرا بھیج سکتے ہیں۔ لیکن 1977 سے 1988 تک جب یہ تمام فیصلے لیے جا رہے تھے اس وقت قوم کے ایک بڑے طبقے کو اس کی سنگینی کا ادراک نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ملک کے ایک بڑے طبقے کے دیدے پٹم ہیں اور انہیں اپنے بارے میں یقین ہے کہ وہ ملک سے محبت کا تقاضا نبھاتے ہوئے کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔

فرض کریں کہ دنیا میں ایک ایسی عالمی عدالت انصاف وجود میں آ جائے جہاں کسی بھی ملک کے عوام اپنے حکمرانوں کے دور حکومت کی پڑتال کر وا سکتے ہوں تو ایسی صورت میں 1977 سے 1988 کے دور کی پڑتال کا کیا نتیجہ نکلے گا اور ایسی عدالت ضیا الحق کو ملک و قوم کا نقصان پہنچانے پر کتنے ارب ڈالر کا جرمانہ کرے گی، ہے کوئی کیلکولیٹر جو اس کا حساب نکال سکے؟ جی ہاں، اب یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ ان مثالوں میں جمہوری ادوار کیوں گول کر دیے، کیا جمہوری حکمران دودھ کے دھلے تھے؟ بالکل نہیں۔ جمہوری حکمران بیچارے جیسے بھی لنجے تھے، ان کا بولو رام تو عوام انتخابات میں ہی کردیتے ہیں، مسئلہ تو ان کا ہے جنہیں گھر بھیجنے کو کوئی طریقہ ہی آئین میں درج نہیں۔

آج ہم جہاں کھڑے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں وہاں ایک دن میں نہیں پہنچے، یہ ان فیصلوں کا نتیجہ ہے جو گزشتہ تہتر برسوں میں ہمارے حکمرانوں نے کیے، عوام نے جن کی مزاحمت نہیں کی اور غلط راستوں کا انتخاب کر کے خود کو منزل سے دور کر لیا۔ قومیں اور انسان غلطیاں کرتے ہیں مگر غلطیوں سے سیکھ کر اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں۔ کوئی بھی قوم منحوس یا خوش بخت نہیں ہوتی، قوموں کے فیصلے انہیں ترقی یا تنزلی کی راہ پر ڈالتے ہیں۔

جس طرح ایک انسان عقل و دانش کی بنیاد پر درست فیصلوں کے تسلسل کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش قسمتی لا سکتا ہے (چاہے اس کے ہاتھ میں خوش بختی کی لکیر ہی نہ ہو) بالکل اسی طرح قومیں بھی اجتماعی دانش کو بروئے کار لا کر اپنا مقدر بدل سکتی ہیں۔ یہ اجتماعی دانش جمہوریت سے ہی کشید کی جا سکتی ہے، کوئی دوسرا طریقہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا، آج اگر اس اجتماعی دانش پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے تو اس سے بڑی کرپشن کوئی نہیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کرپشن کی یہ قسم گوارا کرنی ہے یا اپنے مقدر کو کوستے رہنا ہے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments