عورت کا فن اور اس کی عزت


\"\"عورت کو ایم ایف حسین نے ماں کے روپ میں دیکھا، مادھوری سے انہیں دیوانگی کی حد تک عشق تھا لیکن اس میں بھی وہ ماں کی پرچھائیں تلاش کرتے تھے۔ زاہد ڈار کی شاعری میں صرف ایک عورت اور اس کے تمام روپ نظر آتے ہیں۔ عورتیں احمد بشیر کی زندگی میں بھی بہت تھیں، ایک عورت کو انہوں نے چھپن چھری قرار دیا اور باقیوں کو مختلف جگہ پر یاد کرتے رہے۔ فیض صاحب اور احمد فراز کی زندگی میں بھی بہت خواتین آئیں، دیوتاؤں کی مانند بیٹھے رہنا آس پاس خواتین کا ہجوم ہونا یہ سب ہمیں اکثر جگہ لکھا ملتا ہے۔ جوش صاحب کی فتنہ آخر الزماں کسے بھول سکتی ہیں۔ علامہ اقبال اور شبلی ایک ہی زلف کے اسیر ہوئے، وہ ایک نادر روزگار اور یکتائے زمانہ خاتون تھیں۔ تو ہمارے تمام فنکاروں کی زندگی میں کہیں نہ کہیں ہمیں پیار محبت کے معاملات نظر آتے ہیں، اور ہم انہیں دل بھر کے سیلیبریٹ بھی کرتے ہیں۔

لیکن، جب ہم اپنی خواتین شاعروں یا ادیبوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہی آزادی، وہی رومانوی ہالے، وہی دھیما پن، وہی راجہ اندر کی سی خصوصیات، وہی دیوتا گیری، وہی موہنی ادائیں جو ہم مرد فنکاروں کی ذات سے منسوب کرتے ہیں اور واہ واہ کرتے نہیں تھکتے، بلکہ انہیں آئیڈیئلائز کرتے ہیں، وہی سب چیزیں جیسے ہی خواتین کا معاملہ شروع ہوتا ہے، دم توڑ جاتی ہیں۔

\"\"ادب اور فن کو مرد یا عورت کے خانوں میں بے شک نہیں بانٹا جا سکتا۔ امرتا شیر گل یا استاد اللہ بخش کی تصویروں کے رنگ کبھی یہ نہیں
بتائیں گی کہ انہیں مرد نے پینٹ کیا یا کسی عورت نے، وہ تو بس پہچاننے والی نظر ہو گی جو یہ جان لے گی کہ بنانے والا کون تھا۔ اور جب وہ یہ جان لے گی تب بھی اس فن پارے کو اس نظر سے نہیں دیکھا جائے گا کہ یہ ایک عورت کے ہاتھوں سے بنا یا مرد کے ہاتھوں مصور ہوا، وہ تو بس ہو گیا اور وہ بولتا ہے کہ کیا شاندار ہوا۔ لیکن مرد فنکار اور خاتون فنکار کی زندگیاں بہرحال الگ الگ ترازو میں تولی جاتی ہیں، اور اس چیز کے دام بہت مہنگے چکانے پڑتے ہیں، اگر آپ عورت ہیں۔

تو جب ایسے معاملات سامنے آئیں کہ جس میں کسی عورت ماہر فن کی رومانوی داستان کا ذرا سا حصہ نظر آ جائے، ہمارے یہاں اسے تمام عمر کے لیے مجرم قرار دے دیا دیا جاتا ہے۔ فنکار ہونا اور ایک عورت ہونا، برصغیر میں کتنا مشکل ہے یہ جاننے کے لیے دماغ میں ایسے ہی ذرا کوئی بھی نام رینڈملی (randomly) یاد کیجیے اور سوچیے کہ اس خاتون فنکار کو ہمارے لوگوں نے کس سولی پر چڑھائے رکھا۔ عظمت کا مینار بنا مرد جو کچھ بھی کرے گا وہ اس کا حق تصور کیا جائے گا لیکن وہی غلطی اگر کسی عورت سے بھول کر بھی سرزد ہو گئی تو وہ سمجھیے تمام عمر کے لیے مصلوب رہے گی۔

دنیا کہتی رہے کہ فن میں مرد یا عورت کے خانے نہیں بانٹے جا سکتے، ہوتا ہو گا، ہمارے یہاں اول تو کسی خاتون کے لیے یہ یقین دلانا تک \"\"بہت مشکل ہوتا ہے کہ ہاں بھئی میں نے ہی یہ سب کچھ کیا ہے، اور اگر اس کے فن پر یقین کر بھی لیا جائے تب بھی اس کی شاعری یا نثر یا تصویروں میں سے اس کی زندگی کے حالات کشید کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ عورت ہونا اور کمال فن رکھنا یہ دو چیزیں تو بے شک ممکن ہیں لیکن کسی امتیازی رویے کا شکار نہ ہونا، کم از کم اس دھرتی پر ابھی تک یہ ممکن نہیں ہوا۔

امرتا پریتم، عصمت چغتائی، قرة العین حیدر، کشور ناہید، پروین شاکر، سارا شگفتہ، نوشی گیلانی یہ ہمارے ادب کے چند بڑے نام ہیں۔ اٹھائیے ذرا زندگیوں کی داستان اور شروع کیجیے تلاش کرنا، اندازہ ہو جائے گا کہ عورت ہوتے ہوئے ماہر فن ہونا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مفتی صاحب علی پور کا ایلی لکھ دیتے ہیں، احمد بشیر دل بھٹکے گا میں بہت کچھ کہتے ہیں، اس کے باوجود ایک مقدس ہالہ آج بھی ہمارے ذہنوں میں ان سے متعلق قائم رہتا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کا دسواں حصہ یا اس سے بھی کم، کوئی خاتون ادیب یا شاعر کر بیٹھے تو دنیا دیکھتی ہے کہ ان کو تمام عمر کیسی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نظریں بھی جانے دیجیے کہ وہ برداشت کی جا سکتی ہیں رویے تک ایسے ملیں گے کہ مرنے کے بعد بھی نہیں بخشا جائے گا۔\"\"

مسئلہ یہ ہے کہ ہم عورت کو فریج پر چپکے ہوئے سٹیکر سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہم اسے اپنے جیسا جیتا جاگتا وجود نہیں مان سکتے۔ ہم نہیں مان سکتے کہ وہ عین ہماری طرح کی انسان ہے، اس میں صلاحیت ہے، اہلیت ہے، قابلیت ہے۔ ہاں، بالفرض اگر کسی لمحے ہم یہ سب مان لیں تب بھی اسے فریج سے چپکائے رکھنے کے لیے ہم اس کی ذاتی زندگی میں دخل دینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہی زندگی فیض کریں، فراز کریں تو وہ امر ہو جاتے ہیں، اس زندگی کا عشر عشیر کہیں کوئی خاتون کر بیٹھے تو وہ ٹرین کی پٹری ڈھونڈتی نظر آتی ہے اور مرنے کے بعد ظاہر ہے، قصوروار وہی ہوتی ہے، اور آج بارہ فروری ان تمام قصورواروں کا دن ہے۔

یہ فرق آج کا نہیں ہے، سیتا اور دروپدی سے بھی پہلے کا ہے۔ سیتا ماں ہیں، دروپدی کیا ہیں؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments