فیصلہ کریں کہ بسنت منانی ہے یا ویلنٹائن ڈے


\"\"

گزشتہ چند سالوں سے ویلنٹائن دے کا ہنگامہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس دن گلاب کا ایک ایک پھول بھی بازار میں پانچ سو روپے کی قیمت پاتا ہے۔ میڈیا اس دن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ میڈیا تو کمرشل ہے اور اسے کوئی نہ کوئی خاص دن چاہیے ہوتا ہے جس پر وہ تفریحی پروگرام بنا کر لوگوں کو اپنی سکرین سے چپکا سکے اور اشتہاروں سے کمائی کرے۔ بفرض محال پاکستانی میڈیا کو اگر روک بھی دیا گیا (جو کہ ہمارے محدود قانونی علم کے مطابق خصوصی قانون سازی کے بنا ممکن نہیں ہے) تو پھر بھی بھارتی اور مغربی میڈیا تو موجود ہے ہی۔ انٹرنیٹ اور یوٹیوب نے سرحدیں ویسے ہی بے معنی کر دی ہیں اور کسی نظریے یا پروگرام وغیرہ پر روک ممکن نہیں ہے۔

ویلنٹائن ڈے کے دو پہلووں کو خاص طور پر ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محبت کا دن ہے۔ آپ اسے اپنی شریک حیات کے ساتھ بھی منا سکتے ہیں اور کوئی آپ کو مجبور نہیں کر رہا ہے کہ اسے ہمسائی کے ساتھ ہی منایا جائے اور اس لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اتنی زیادہ جنسی گھٹن ہے کہ لوگوں کو ہمسائی ہی دکھائی دیتی ہے اور قانون کے نفاذ میں کمزوری کے باعث اس دن خواتین کے ساتھ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں۔

\"\"

تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ مذہبی تہواروں میں نوجوانوں کو اپنا جنون نکالنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ اس کی کمی وہ پھر چودہ اگست وغیرہ کو ہلڑبازی کر کے پوری کرنے کی کوشش کر کے کیا کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے مسلم ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں کے مقامی تہواروں کو خوب جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ حتی کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی مقامی میلے ٹھیلے ہوتے ہیں جن میں بادشاہ تک حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا ہمارے ہاں یہ میلے ممکن نہیں ہیں؟ کیا بسنت، بیساکھِی اور لوہڑی جیسے صدیوں سے مقامی سطح پر منائے جانے والے اور اب معدوم ہوتے ہوئے تہوار سرکاری سطح پر منائے جا سکتے ہیں؟

یادش بخیر، چند برس قبل لاہور بلکہ پورے پاکستان کا اہم ترین غیر مذہبی تہوار بسنت ہوا کرتا تھا۔ دنیا بھر سے لوگ فروری کے مہینے میں لاہور کا رخ کیا کرتے تھے۔ میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹر نے اسے کمرشلائز بھی کر دیا تھا اور ان کے خوب پیسے بھی اس تہوار میں بن جاتے تھے۔

لیکن بسنت پر دھاتی اور کیمیکل ڈور کے استعمال کے بعد جب لوگوں اور بچوں کے گلے کٹنے لگے تو حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی بھی حکومتی نااہلی کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ اب لاہور شہر میں تو بسنت پر پابندی ہے، مگر گرد و نواح کے شہروں میں قانون توڑتے ہوئے بسنت منائی جاتی دکھائی دیتی ہے اور حکومت بے بسی سے کھڑی تماشا دیکھتی ہے۔

\"\"

مگر سوال تو یہ ہے کہ پابندی لگائی ہی کیوں جائے؟ کیا حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ بازار میں بکنے والے سودے پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے؟ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ پتنگ سازی کو ایک باقاعدہ صنعت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے منظور شدہ فیکٹریوں میں حکومتی معیار کے مطابق انسانی جانوں کے لئے محفوظ ڈور تیار کی جائے اور بازار میں صرف وہی فروخت کی جائے؟ جو دکاندار بھی غیر منظور شدہ ڈور کی تیاری یا فروخت میں ملوث ہو، اسے سخت سزا دی جائے اور یوں انسانی جان کے لئے محفوظ ڈور کے ذریعے یہ اہم ترین مقامی تہوار منایا جائے۔ حکومتی نااہلی کی سزا عوام کو مت دی جائے۔

فروری میں بسنت عین انہی دنوں ہوا کرتی تھی جن دنوں اب ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا ہے۔ اگر ہم نے غیر ملکی ویلنٹائن ڈے سے بچنا ہے تو پھر ہمیں اپنا مقامی میلہ بسنت منانا ہو گا۔ اسی طرح اب سکولوں اور کالجوں میں ہیلووین ڈے بھی منایا جانے لگا ہے۔ حالانکہ ہمارا مقامی پنجابی تہوار لوہڑی تو مزاج میں بہت حد تک ہیلووین جیسا ہی ہے اور بہ آسانی اس کی ترویج کر کے ہیلووین کو دور دھکیلا جا سکتا ہے۔

اگر ہم مقامی تہوار اور میلے ٹھیلے ترک کر دیں گے تو پھر ویلنٹائن ڈے، ہیلووین اور کرسمس وغیرہ خود بخود ان کی جگہ لے لیں گے۔ عوام تفریح چاہتے ہیں اور اگر ان کو مقامی ثقافت میں کچھ نہیں ملے گا تو وہ تفریح کے لئے غیر ملکی ثقافت اپنائیں گے۔

اب ہمارے لوگوں اور حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ بسنت منانی ہے یا ویلنٹائن ڈے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments