اوریا مقبول جان، اپنا تصور جمہوریت درست کریں !


\"\"’’ تعلیم بالغاں ‘‘ پی ٹی وی کا ایک کلاسیکل ڈراما ہے۔ اس کا ایک منظر کسی نے فیس بک پر شیئر کیا۔ اس میں ماسٹر صاحب اپنے بالغ شاگردوں کو جمہوریت کا مطلب سمجھاتے ہوئے ان سے پوچھتے ہیں کہ بابر اور ہمایوں میں کیا تعلق تھا ؟ دوشاگرد کہتے ہیں کہ بابر باپ تھا اور ہمایوں بیٹاجبکہ چار شاگرد دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمایوں باپ تھا اور بابر بیٹا۔ اس پر استاد کہتا ہے کہ جمہوریت کے مطابق ثابت ہوا کہ ہمایوں باپ تھا جبکہ بابر بیٹا۔ پس جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں وہی درست ہے ہوتا ہے جو زیادہ لوگ کہیں، اگرچہ وہ سو فی صدغلط ہی کیوں نہ ہو ! اور جمہوریت کا یہی وہ تصور ہے جو عام طور پر درست سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں محض کثرت رائے کی کی بنا پر خوب ناخوب ، حتیٰ کہ باطل ،حق اورحق باطل ہو جاتا ہے۔ اس غلط تصور کا شکار عام پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے جغادری دانش ور بھی ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ درست نتیجے تک پہنچنے کا انتہائی گمراہ کن طریقہ ہے۔

اوریا مقبول جان کو بجا طور پر جمہوریت کو غیر اسلامی اور غیر انسانی نظام قرار دینے والوں کا فکری سرخیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ جمہوریت میں انصاف کوقانون کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ یوں اکثریت کی آمریت قائم ہو جاتی ہے اور انصاف ، انصاف ہو کر بھی اکثریت کی بے انصافی کا شکار بن جاتا ہے۔ اپنے ایک تاز ہ کالم میں انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے انتخاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ بھی جمہوری نظام کے غلط اور نقصان دہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس مقدمے کے بعداوریا مقبول جان اوران جیسے اکثرو بیشتر انتہا پسند مذہبی رجحانات رکھنے والے اہل علم ’جمہوریت‘ کو بے نقط سناتے، اسے باطل، طاغوت اور کافرانہ نظام قرار دیتے اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اس کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو بھی جمہوریت پر لعن طعن کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ :

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں\"\"

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے!

اسی طرح احادیث اور قرآن کی بعض آیات کو بھی جمہوریت کے خلاف ایک قاطع دلیل سمجھا جاتا ہے، جس میں سر فہرست سورہ انعام کی آیت نمبر 116 ہے :

’’اے نبی ، اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو، جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمھیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ در حقیقت تمھارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے!‘‘

اسی ضمن میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر100 اور سورہ زمر کی آیت 9 بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ان سب آیات کو’ اوریائی دانش‘ جمہوریت کے خلاف سمجھتی ہے۔ کیونکہ ان آیات میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے اکثریت کے فیصلے کو گمراہی قرار دیا ہے۔ جبکہ ایک مشہور حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اسلام جلد ہی اجنبی ہو جائے گا اس لیے اجنبیوں کو مبارک ہو۔

لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیات کا مفہوم صرف یہ ہے کہ کسی نظریے، رائے یا بات کے حقیقت ہونے کے لیے یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کہ اس کو زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ سچی بات کرنے والاصرف ایک ہو اور اس کی مخالفت کرنے والے عظیم اکثریت میں۔ اور اس حوالے سے قرآن نے توحید کی مثال دی اور فرمایا کہ شرک کو کفار کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو مخاطب کرکے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کسی چیز کی سچائی پرکھنے کے لیے یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کہ اسے زیادہ لوگ درست کہتے ہیں، اسی طرح کسی شخص کے سچے یا نیک ہونے کی بھی یہ دلیل نہیں ہو سکتی کہ اس کو زیادہ لوگ درست سمجھتے ہیں اور اس کی ’فین شپ‘ بڑی ہے ، اسی طرح نہ کسی عالم کی رائے ٹھیک ہونے کی یہ دلیل ہے کہ اس کو جمہور علماء کی حمایت حاصل ہے۔ سچائی کا تعلق زیادہ یا کم ہونے سے نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت اور مبنی بر دلیل ہونے سے ہے۔

اب جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس بارے میں یہ تصور بالکل غلط ہے کہ اس نظام میں درست یا غلط کا تعین افراد کی کثرت رائے سے کیا جاتا ہے۔ اگر اوریا مقبول جان کو علم و دانش سے واقعی کوئی تعلق ہے کہ تو جمہوریت کی یہ مختصر ’تعریف‘ ان کے تمام مغالطے درست کر سکتی ہے کہ جمہوری طرز حکومت میں کثرت رائے کے اصول سے ایک ’’قضیے ( جھگڑے )‘ کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل ہم اپنے کلاس روم میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب جمہوری نظام سے پہلے بادشاہت کا نظام ہوا کرتا تھا تو ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہوتا تھا۔ ہزاروں اور لاکھوں کا خون بہنے کے بعد اگلے حکمران کا فیصلہ ہوتا۔ چنانچہ انسان کی ارتقا کرتی عقل نے اسے یہ طریقہ سمجھایا کہ میدانِ جنگ کے بجائے ووٹ کے میدان میں یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون طاقتور ہے تو یہ زیادہ مناسب ہے۔ یوں اس نظام جمہوریت میں خاندانوں (Dynasty ) کی جگہ سیاسی پارٹیوں نے لے لی۔ اس سے انسان کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جمہوری نظام کے ذریعے سے اگر کوئی چرب زبان یا کوئی غلط انسان زیادہ ووٹ لے کر ان پر مسلط بھی ہوجائے تو ان کو اس کی مدت حکمرانی، جو معین ہوتی ہے، کے بعد یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اسے تبدیل کر دیں جبکہ بادشاہت میں سارا کنٹرول قسمت کو حاصل ہوتا ہے اور جمہوری نظام میں سب کچھ ان کے ہاتھ میں۔ اس طرح جمہوریت حیرت انگیز طور پر ایسا پر امن اور کم نقصان دہ نظام ہے ، جس کے ذریعے سے انہیں اپنی غلطی کو ٹھیک کرنے کا طریقہ میسر آجاتا ہے۔ چنانچہ ووٹ کے ذریعے سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بطور حکمران کسے پسند کرتے ہیں، اس سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ نواز شریف زیادہ نیک اور ایمان دار ہیں یا عمران خان ! زرداری کا مذہب کے بارے میں نقطہ نظر زیادہ درست ہے یا الطاف بھائی کا؟ البتہ یہ فیصلہ بہر کیف ہو جاتا ہے کہ فلاں معاشرے کی اکثریت اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں درست فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں۔ اس لیے جو معاشرہ بحیثیت مجموعی جتنا زیادہ با شعور ہو گا، وہ اتنا ہی زیادہ جمہوریت سے فائدہ اٹھائے گا۔ سائنسی بیانیہ کے مطابق جمہوری نظام کی افادیت معاشرے کے اجتماعی شعور سے براہ راست متناسب ہے۔

کارل پوپر ( 1902 150 994)کو فلسفے میں وہی مقام حاصل ہے جو سائنس مین آئن سٹائن کو۔ انھوں نے بہت خوبی سے جمہوریت کی افادیت کو بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق جمہور یت کا خاصا یہ ہے :

Democracy in contrast to dictatorship or tyranny, thus focusing on opportunities for the people to control their leaders and to oust them without the need for a revolution.

یعنی جمہوریت آمریت اور جبر کے نظام کی ضد ہے۔ وہ عوام کو اس کا موقع مہیا کرتی ہے کہ اپنے حکمرانوں کو قابو میں رکھ سکیں اور انھیں انقلاب لانے کی مہم جوئی کے بغیر تبدیل کر سکیں۔

یاد رہے کہ کارل پوپر کا حوالہ صرف اس لیے دیا ہے کہ واضح ہو کہ جمہوریت کا مذکورہ تصور ہرگز ہمارا اپنا نہیں ہے بلکہ اس کا یہی فہم درست اور علمی حلقوں میں متداول ہے۔ اس لیے اوریا مقبول جان اور اینڈ کمپنی سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو گمراہ کرنے کے بجائے اپنے تصورات کو درست کر لیں اور کسی مقدس ڈکٹیٹر شپ کے انتظار کے بجائے جمہوری سسٹم کو جاری رکھنے کی حمایت کریں۔ جمہوری نظام کا تسلسل ہی اس میں بہتری لائے گا ، قحط الرجال کی کیفیت کو کم کرے گا۔ یہ سیاسی طرز حکومت ،قرآنِ مجید کی اس ہدایت کے بھی عین مطابق ہے کہ ان (اہل ایمان )کا نظم حکومت مشورے پر مبنی ہوتا ہے۔ ( سورہ شوریٰ) وطن عزیز کے نا مساعد حالات کے مطابق ا گر اب لوگ اس بنیاد پر فیصلہ کر نے پر مجبورہیں کہ دستیاب قیادت میں کون کم برا ہے تو اس نظام میں تسلسل انھیں یہ موقع بھی ضرور دے گا کہ دستیاب قیادت میں زیادہ اچھا کون ہے! البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جاری نظامِ جمہوریت میں اصلاح کی بلاشبہ بہت گنجایش ہے اور ازحد ضرورت بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments