عورت دشمنوں سے حقوق کی بھیک نہیں چاہیے


خاموش ہو جا انور کی ماں بس کر دے، تیری بک بک سے میرے سر میں درد ہو گیا ہے۔ کیا کرنا ہے منی کو پڑھا کر؟ پانچ پوری کر لی ناں۔
اب بتا ذرا کیا فائدہ پیسے برباد کرنے کا؟ یہ پیسے اس کے جہیز کے لئے جوڑ، سلائی کڑھائی سکھا، کھانا پکانا سکھا، سوجی کا حلوہ آ گیا بنانا اس کو؟ دیکھ میں باپ ہوں اس کا، یہ میری بھی بیٹی ہے، میں تو کہوں، جلدی سے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈ اور ہاتھ پیلے کر دے منی کے۔ فرض بھی ادا ہو جائے گا اور بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا!

دیکھو بابا، تم میرے دوست ہو، تمہاری اور میری عزت سانجھی ہے۔ میں نے اپنی۔۔۔ اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے، تمھاری بہن کو حاکم خان کے ساتھ کنک کے کھیت میں بیٹھا دیکھا ہے۔ میں کیوں جھوٹ بولوں گا تم سے؟ سنو تم اس کو، آج رات قتل کر دو۔ بابا عزت اور احترام والے آدمی ہو۔ آج تو میں نے دیکھا، کل اگر گاؤں میں سے کسی اور نے دیکھ لیا تو کیا بنے گا؟ غیرت اور عزت ہی سب کچھ ہوتی انسان کی۔ یہاں ہی سارا قصہ ختم کر دو۔ اللہ سائیں بھی خوش ہو گا، کہ ایک حرام کام کو ہونے سے روک دیا تم نے، بابا میں کوئی دشمن تو نہیں ہوں تمھارا!  دوست ہوں دوست۔ بات کو سمجھو۔

میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، ہاں! لڑکے سالے پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ پتہ نہیں لڑکیاں کیسے اتنا پڑھ لیتی ہیں؟ ویسے آپس کی بات ہے کہ یہ ہے غلط!  وہ کیسے؟ دیکھو بھائی پانچ سال لڑکی نے پڑھا اور پھر اس کی شادی ہو گئی۔ تو تعلیم تو بیکار گئی نا۔ اب شوہر کہاں ملازمت اور پریکٹس کرنے دیتا ہے۔۔ ہمم! بات تو یہ صحیح ہے، مگر یہ بتاؤ کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی لڑکی کی شادی ہو گئی۔ اس میں لڑکی کا قصور ہے یا معاشرے کے ہاتھوں مجبور والدین کا؟ شوہر ملازمت نہ کرنے دے تو وہ شوہر کی تنگ نظری اور جہالت ہے یا عورت کی غلطی؟ تعلیم کے بیکار جانے کا ذمہ دار فرسودہ نظام اور متعفن معاشرہ ہے یا عورت؟ ارے بھائی ایک تو تم بحث بہت کرتے ہو۔ بس جب میں نے کہہ دیا کہ غلط ہے تو ہے غلط ہی۔ زیادہ فلسفی مت بنو۔

ادا سائیں! دھی رانی کی شادی قرآن سے کرا دیں، گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے گی۔ چھورا سائیں ایک ہی تو بیٹا ہے آپ کا۔  بابا! اس کی خوشیاں دیکھیں، اس کا مستقبل دیکھیں، اب خاندان میں دھی رانی کے میل کا، کوئی گھوٹ تو ہے نہیں۔ رشتہ باہر کہیں گیا تو جائیداد میں حصہ دینا پڑے گا۔ بٹوارا ہو جائے گا جاگیر کا، سمجھو نا سائیں! سمجھو، عزت اور جاگیر دونوں بچاؤ نا سائیں۔ ڈاڈھی سیانی گل ہے ادا۔

خراب چلغوزہ، چھلا ہوا چلغوزہ، چھلکے والا چلغوزہ، دو دو چلغوزے، میٹھی ٹافی، چھلکے کے اندر کیلا، رس ملائی، چیتی، ہرنی، پٹولا، چکنی، بچی، غلط فرینڈ، ہائے کیا عورت ہے!! افف بس نہ پوچھو۔ نمبر مل جائے پھر بے شک مر ہی جاؤں، ایک دفعہ دیکھ لوں دوپٹے کے بغیر، افف جینز!! ہائے ہائے کوئی ای میل، فیس بک پر ہے؟ تصویر نکلوا دے یار!

ہاں بابا وہ صلح کے لئے تیار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ \”دو بچیوں کا نکاح کر دو ہمارے بھائی کے ساتھ اور چچا کے ساتھ، ہم قتل معاف کر دیں گے\”۔ تو بیٹا، دو بیٹیاں تو ہیں مگر وہ تو بالغ بھی نہیں۔ وہ تو ان کی پوتیوں کی عمر کی ہیں۔ بابا دوسرا کوئی چارہ نہیں!  لالا کو جیل سے نکالنا اور بچانا ہے تو رشتہ دینا پڑے گا۔ بابا آپ ولی ہو، آپ نکاح میں دے سکتے ہو۔ بابا سوچو۔ بات کو سمجھو نا۔ لالا کی زندگی کا سوال ہے۔ بابا نکاح کر رہے ہیں گوئی گناہ تو نہیں۔ بات کو سمجھو۔

ہائے طلاق ہو گئی! شادی سے پہلے کرتوت ہی ایسے تھے۔ لڑکوں کے ساتھ پڑھتی تھی، وہاں یونیورسٹی میں۔ ارے مر جانا چاہئے مگر شوہر کا گھر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اچھا خاصا گھر تھا۔ کھانے پینے کی کمی نہیں تھی، عیش کر رہی تھی مگر الٹا دماغ۔ طلاق لے لی۔ ہر عورت یہاں پٹ کر رہتی ہے۔ گھر نہیں اجاڑنا چاہئے۔

طلاق کا جشن؟ ہائے بھائی کیا ہوا تمھیں کیوں اچھو لگ گیا۔ ابے ابلیس یہ کیا بک رہا عورت نے طلاق کا جشن منایا۔ خدایا یہ کیسا دور آ گیا۔ ایسی چھنال سے تو شیطان بھی پناہ مانگے۔

پدر شاہی نظام اور اسکا زیر تسلط معاشرہ عورت کو تذلیل کا نشانہ بنانے کا، اسے جنس سمجھنے کا، قربان کرنے کا، الزام دینے کا، اس کی خوشی کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ فیشن بدلتا ہے، ذہنیت اور نظریات جوں کی توں موجود رہتی۔ اوپر بیان کی گئی کچھ تلخ حقیقیں اور سچائیاں جنہیں ہم لوگ عام قصے کہانیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تو روز مرہ کی باتیں ہیں نئی بات جو نقارخانے کی زینت ہے وہ یہ کہ آج کل اس کو یہ جتلایا جا رہا یے کہ مارک زگر برگ، بل گیٹس، اور دیگر ارب پتی حضرات سب مرد ہیں، تو عورت کی تعلیم کا کیا فائدہ؟ دوسرے ایک عورت نے کسی ریستوران میں ایک کیک کاٹ کر کچھ تصویریں سوشل میڈیا پر جاری کیں جن میں کیک پر  طلاق (Divorce)   کا لفظ ثبت تھا۔ بس پھر کیا تھا کہ خوش گپیوں اور قہقوں کا بازار ایک مرتبہ پھر سے گرم ہو گیا، طنز و تشنیع کے تیر چلاتے کچھ افراد نے اس کے طلاق یافتہ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتے ہوئے ہوس کا ٹھہوکا دیا، تو کچھ نے ٹھنڈی آہیں بھریں۔ کچھ نے فتوؤں سے وار کئے تو کچھ نے اس کے کردار کے بارے دانشوری جھاڑی، غرض یہ کہ ماحول بنا رہا اور عورت تذلیل، الزام تراشیوں، اور ہوس کا نشانہ بنی رہی۔ دوسری جانب زکر برگ اور بل گیٹس کی مثال نے عورت کو ایک مرتبہ پھر سے یقین دہانی کرائی گئی کہ \”بی بی تمہاری اوقات کیا؟ معیشت اور دھن تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بڑی آئی برابری کرنے\”۔ قابل ترس ہونے کے ساتھ ساتھ قابل رحم  ہیں ایسے لوگ جو ایسے نظریات رکھتے ہیں۔ ان کی جہالت، تنگ نظری، فرسودگی، اور تعصب پر مزید لفظ ضائع نہ کروں گی اور نہ ہی فریاد کروں گی کہ \”عورت کو آزاد رہنے دیں، اسے اس کی زندگی جینے دیں، خوشیاں منانے دیں، تحریم و تکریم سے نوازیں، برابری دیں \” کیونکہ یہاں فریادی کی کوئی نہیں سنتا۔ یہ سب عورت کا حق ہے اور عورت اپنا حق چھین کر لے گی۔ فقط اتنا آپ کی سماعتوں میں زہر گھولنے کی جسارت کروں گی کہ اس معاشرے میں کبھی بھی کہیں بھی تعلیم و ترقی، تربیت اور  آزادی کے مواقع جو عورت کو حاصل ہیں اور جو مردوں کو حاصل ہیں کے مابین صرف عادلانہ اور منصفانہ موازنہ کرو۔ جتنے جبر، ظلم، ہوس اور جہالت کا نشانہ عورت بنتی ہے کیا مرد بھی اتنا ہی سہتا ہے؟

رہی بات کہ بل گیٹس ہو، زگر برگ یا بارک اوبامہ، ہر مرد کو پیدا تو عورت ہی کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments