محمود اچکزئی سے محبت اور اعداد و شمار میں ڈنڈی مارنا


 \"\"محمود خان اچکزئی صاحب پر لکھے گئے کالم کا جواب جناب حبیب وردگ صاحب نے دیا ہے۔ مدیر ’ہم سب‘ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے وضاحتی نوٹ میں لکھ دیا کہ کیا کیا حذف کرنا پڑا۔ ادارتی کتر بیونت کے باوجود جناب وردگ صاحب فرماتے ہیں کہ میری اور سلیم صافی کی روزی روٹی لفافوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم لفافے لے کر کسی پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔کسی کو خوش کرنے کے لئے اپنا قلم استعمال کرتے ہیں۔ نقد لفافے، بوٹ پالش اوٹ پٹانگ حرکتیں وغیرہ جیسے الفاظ فراخ دلی سے استعمال کئے ہیں۔یہ عرض پہلے بھی تواتر سے کرتے رہے ہیں اور ایک بار پھر عرض ہے کہ اخبار کا صفحہ قاری کی امانت ہے۔ یہ امانت اپنی ذات کی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ وردگ صاحب نے میری ذات کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے یہ ان کا حسن ظن ہے۔اپنی ذات کے وضاحت کی ضرورت نہ پہلے کبھی پڑی ہے اور نہ اب وضاحت کی کوئی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
ایک بات کی جانب البتہ مدیر ”مدیر ہم سب‘ ‘ کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ صاحب مضمون نے کالم میں دو لفظ ” سرگل خان اور بندوق لالا“ استعمال کئے ہیں۔ فرماتے ہیں، ” ۔ میرے بھائی ظفراللہ خان اور سلیم صافی صاحب کو تو نقد فائدے اور لفافے ملتے ہیں لیکن سر گل خان کو اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے اور عوام سے مایوس ہو کر ”بندوق لالا“ کے کندھے پر بیٹھ کر اسمبلی جانا چاہتا ہے۔ سر گل کے لیے عرض ہے کہ تم کچھ کرو یا نا کرو تمھاری بہادری کا سب کو پتہ ہے جب یارلوگوں کو پشتون لیڈرشپ کے خون کی ضرورت ہو گی تمھیں موقع ضرور دیا جائے گا“۔ مدیر ہم سب کے علم میں غالباََ نہیں ہو گا کہ اس تضحیک آمیز خطاب ’سرگل خان‘ (سرخ پھول خان) سے یہاں صاحب مضمون کی مراد اے این پی کی لیڈرشپ ہے جو ان کے سرخ جھنڈے کی مناسبت سے اختیار کیا گیا ہے اور ’بندوق لالا‘ سے مراد فاٹا کے لوگ ہیں۔ اس سوچ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ پشتونوں کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کے احباب فرماتے ہیں کہ جب کسی کو پشتونوں کے خون کی ضرورت ہو گی تو یہ لوگ موقع اے این پی کو موقع دیں گے۔ اس کا جواب تو اے این پی کے کارکن ہی دے سکتے ہیں مگر احباب کو بھی یاد ہو گا اور ہمیں بھی یاد ہے کہ جب ظلم خون کے درپے ہو ا تو میاں افتخار کے اکلوتے بیٹے کا خون بہا۔ بشیر بلور خون میں نہایا۔ بوڑھے افضل خان نے سوات چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یادش بخیر بابڑہ کی سینکڑوں لاشیں بھی ہمیں یاد ہیں اور لیاقت باغ کی لاشیں بھی۔ مشکل یہ ہے کہ نہ یہ حکایت لذیذ ہے اور نہ اس کا ذکر خوش کن۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس جواب الجواب کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ الزامات اور لاحاصل جوش خطابت کا جواب بے معنی ہوتا ہے۔ تاہم چونکہ صاحب مضمون نے صرف مردم شماری پر روشنی ڈالی اور فرمایا ہے کہ میں نے حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کیا اس لئے مردم شماری پر ایک نظر پھر ڈال لیتے ہیں۔ پچھلے مضمون میں بھی عرض کیا تھا کہ پوری تفصیل ممکن نہیں اس لئے تین چار اضلاع کا تقابل پیش خدمت ہے۔ اب چونکہ صاحب مضمون نے فرمایا ہے کہ یہ حقائق اس لئے بے معنی ہیں کہ 1981 کی مردم شماری کے بعد قلعہ سیف اللہ اور ژوب الگ اضلاع میں تقسیم ہوئے تھے اور لورالائی، بارکھان اور موسی خیل الگ اضلاع میں تقسیم ہوئے تھے اس لئے ان کا انفرادی تناسب باقی اضلاع سے کم ہے۔صاحب مضمون فرماتے ہیں کہ میں نے کسی بددیانتی کی بنیاد پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اس لئے اعداد و شمار پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجیے۔
پچھلے کالم میں جب میں 1981کے قلعہ سیف اللہ کی آبادی کی بات کرتا ہوں تو یاد رہے کہ اس میں ژوب اور قلعہ سیف اللہ کی کل آبادی شامل نہیں کرتاہے بلکہ صرف اس قلعہ سیف اللہ کی آبادی کی بات کرتا ہوں جو 1981 کی مردم شماری میں تحصیل یا سب تحصیل تھی اور 1998 کی مردم شماری میں ضلع بنا تھا۔ میں نے1981 میں ژوب کی آبادی 213285 بتائی۔ اس میں قلعہ سیف اللہ کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ ژوب تحصیل 104241، سمبازہ سب تحصیل 11024، شیرانی سب تحصیل 78625، قمر الدین کاریز تحصیل 8649، اور اشوت سب تحصیل 10746 کی آبادی شامل تھی جو کل ملا کر 213285 بنتی ہے۔ اب بتایئے کہ اس میں قلعہ سیف اللہ کا کونسا حصہ شامل کیا گیا ہے؟ اسی طرح جب میں 1981 میں قلعہ سیف اللہ کی آبادی 148362 بتاتا ہوں تو اس کی تفصیل یوں ہے کہ قلعہ سیف اللہ تحصیل 85664، بادینی سب تحصیل 9935، مسلم باغ تحصیل 37688 ، اور لوئی بند سب تحصیل 15075 شامل ہیں ۔ جو کل ملا کر148362 بنتی ہے۔ اب بتایئے کہ اس میں ژوب کا کونسا علاقہ شامل کیا گیا ہے؟ یہی صورت حال لورلائی کی ہے کہ اس میں 1981کی مردم شماری میں بارکھان اور موسی خیل کو شامل نہیں کیا گیا۔
عرض مدعا یہ ہے کہ اپنی غلطی پر پشیمانی کی بجائے حساب کتاب کے سادہ کلیات کو غلط بیان کرنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔ ایک طرف تو یہ گمراہ کن دعوی ہے کہ بلوچ سردار اپنی بھیڑ بکریوں کو بھی انسانوں میں شمار کرواتے ہیں دوسری طرف عمل یہ ہے کہ مردم شماری کا عملہ جب انسان شمار کرنے آتے ہیں تو ان کو دھونس دھمکی سے بھگا دیا جاتا تھا۔ وردگ صاحب کو غالباََ مردم شماری کے اعداد وشمار معلوم نہیں ہیں اس لئے وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں وگرنہ ان کو معلوم ہوتا کہ 1998 کی مردم شماری میں ان کی جماعت نے پشتون آبادی کے ساتھ کیا کیا تھا تو یہ اس موضوع پر اظہار خیال سے باز ہی رہتے۔
1981 سے 1898کی مردم شماری کا تقابل اگر بلوچ پشتون اضلاع کی بنیاد پر صرف چند اضلاع کا ہی کیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بلوچ اضلاع میں آبادی میں اضافے کا تناسب 1981 کے مقابلے میں 1998 میں یوں رہا۔چاغی 63713 سے 104534، اضافہ 64 فیصد۔ نوشکی 56742 سے 98030، اضافہ 72 فیصد۔ بارکھان 61686 سے 103545، اضافہ67 فیصد۔ ڈیرہ بگٹی 103821 سے 181310، اضافہ 74 فیصد۔ جعفرآباد 265342 سے 432817، اضافہ 63 فیصد۔نصیرآباد 129112 سے245894، اضافہ 90 فیصد۔ جھل مگسی 68092 سے 109941، اضافہ 61 فیصد ۔لسبیلہ 188139 سے 312695، اضافہ 66 فیصد۔ خاران 128040 سے 206909، اضافہ61 فیصد۔ گوادر 112385 سے 185498، اضافہ 65 فیصد۔ ان دس اضلاع میں 1981 سے 1898تک آبادی میں مجموعی اضافے کی شرح 68فیصد رہی ہے۔
اس کے برخلاف پشتون اضلاع میں آبادی میں اضافے کا تناسب یوں ہے۔ پشین 208007 سے بڑھ کر376728، اضافہ81 فیصد۔لورالائی 204055 سے بڑھ کر 250147، اضافہ 22فیصد۔قلعہ سیف اللہ 148362 سے بڑھ کر193553، اضافہ30 فیصد۔ژوب 213285 سے بڑھ کر 275142،اضافہ29 فیصد۔ زیارت 63179 سے بڑھ کر 80748، اضافہ27 فیصد۔ ان پانچ اضلاع میں آبادی میں مجموعی اضافے کی شرح 37فیصد رہی ہے۔چونکہ ہمارا دعوی ہے کہ قلعہ عبداللہ محمود خان اچکزئی صاحب کا آبائی ضلع ہے اس لئے بائیکاٹ کے باوجود اس کی آبادی بہت زیادہ بڑھا کر لکھوائی گئی ہے جو 170590 سے بڑھ کر 360724 ہوئی جو 111 اضافہ بنتا ہے اور 1998 کی مردم شماری میں پورے پاکستان کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ ہے۔ مگر وردگ صاحب اور احباب کے دل کی خاطر ہم قلعہ عبداللہ کو مجموعی تناسب کے اضافے میں شامل کرتے ہیں تب بھی ان چھ اضلاع کی مجموعی آبادی میں اضافے کی شرح 50فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی صاحب نظر 1998 ءکی مردم شماری کے بائیکاٹ کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرنا چاہتا ہے تو ان سے یہی عرض ہے کہ شیفتہ نے لکھا تھا، اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔

نوٹ۔ آبادی کے تمام اعداد و شمار پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس حکومت پاکستان کے ریکارڈسے لئے گئے ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments