عصمت چغتائی ۔۔۔ آج اور کل


\"\"حال ہی میں مجھے عصمت چغتائی کو پھر سے پڑھنے کا موقع ملا، تو ان کی تحریروں کے کچھ نئے پرت کھلے؛ مختلف پہلو مجھ پر آشکار ہوئے۔ ماضی کی گم گشتہ رسم و رواج سے آگاہی حاصل ہوئی، تو احساس ہوا کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے؛ وقت آگے جا چکا ہے، مگر ہم لوگ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ نہ جانے کہاں کھڑے ہیں۔
عصمت چغتائی بلاشبہ ایسی اہم ادیب ہیں، جن کی بہادر، انوکھی، غیر معمولی تحریروں نے انھیں ایک غیر معمولی مقام عطا کیا۔ وہ مسلسل ایک باوقار حیثیت میں اپنے پیڈسٹل پر کھڑی رہیں اور ان کی حیثیت کو کوئی چیلنج نہ کر سکا۔ آج اتنے عرصے بعد بھی ہم بیسویں صدی کی اس روشن خیال، ترقی پسند، جرات مند ادیب کے افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عصمت چغتائی کی کتابیں کبھی آوٹ آف پرنٹ نہیں ہوتیں۔
وہ منٹو کی طرح سو سائٹی کے ڈھکوسلوں اور منافقتوں کا پر دہ چاک کر کے، اس کا اصل اور مکروہ چہرہ سامنے لاتی رہیں۔ مفاہمت اور مصلحت، اس بے خوف ادیب کا مسلک نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ادیبوں اور دانش وروں کا رجحان مارکسزم اور ریئل ازم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سگمنڈ فرائیڈ کی تھیوریوں پر سر دھنا جا رہا تھا۔ ڈی ایچ لارنس کی روش پر چلتے، ممنوع باتوں کو کھل کر کہہ دینے کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ انکشافات کے ڈھیر لگائے جا رہے تھے۔
ایسے میں عصمت بھی اپنے ہم عصروں کی طرح قلم سونت کر میدان میں اتر آئیں اورکرداروں کی چیر پھاڑ کرنے، کاری زخم لگانے کا عمل شروع کر دیا۔ غیر روایتی اور نئے انداز کی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ بہشتی زیور کی لکڑی کی بنی عورتوں، اکبری اور اصغری جیسے بے جان مورتوں کے پھوسڑے اُڑا کر رکھ دیئے۔
سب ٹھٹھکے، سب چونکے، بگل بجا اور ایک نئے طرز کے ادب کا آغاز ہو گیا۔ بیدی، منٹو کی طرح عصمت بھی مقبول ہوتی چلی گئیں۔
اب اس دور میں جو افسانے لکھے جانے لگے ان میں طلسم ہوش رُبا جیسی کیفیت غائب ہو چکی تھی۔ غیر معمولی، غیر فطری واقعات اور مافوق الفطرت عناصر کی طاقتوں کے بیان سے قاری کو متوجہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب انسان کو اپنے جیسی زندگی کی کہانیوں سے دل چسپی تھی۔ دکھ سکھ، حسرتوں، ارمانوں، خوابوں اور آرزؤں کو جاننے کا تجسس تھا۔ سفاک حقیقت نگاری اپیل کرنے لگی تھی۔
عصمت نے پہلی بار باہر کی سچائیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی اندرونی کیفیات، نفسیات اور کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بہت کام یاب رہیں۔ ان کا فنِ تحریر، زندگی سے شروع ہو کر ہمارے اندر کا مشاہدہ کرتے ہوئے نکھرتا ہے، تو قیمتی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
ان کے کردار مسلسل حرکت اور عمل کے ذریعے اپنے پر پرزے نکالتے اور پرواز کی خواہش کرتے ہیں۔ وہ ساکت و جامد نہیں رہتے، بل کہ ان کا فطری ارتقا ہو تا رہتا ہے۔ یہ کردار اپنے سماج، تہذیب اور ماحول کے نمایندے تو ہوتے ہیں، مگر اپنے حال سے مطمئن نہیں رہتے؛ بے چین، بے زار اور شاکی رہتے ہیں۔ کہانی چلتی رہتی ہے۔\"\"
عصمت چغتائی نے زیادہ تر اٹھارویں اور انیسویں صدی کی پردہ نشیں مسلم عورت کو مو ضوع بنایا۔ یہ وہ عورت تھی جس کی زندگی پابندی اور گھٹن سے عبارت تھی۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہ تھی۔ عصمت نے بتایا کہ ہر عورت ایک مکمل انسان ہے کوئی چابی کی گڑیا نہیں کہ چابی گھما دو، تو وہ اٹھ کر حرکت کرنے لگے؛ ورنہ بے جان بے سدھ ایک کونے میں پڑی سسکتی رہے۔
عورت کی ایک Free Will ہوتی ہے۔ ایک ذاتی خواہش، آرزو، منشا، عقل، فہم اور فیصلہ کرنے کی قوت ہے۔ اسے محکوم، محصور، محدود اور محروم رکھنے سے، اس کے اندر کا انسان کبھی مرتا نہیں بل کہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ خوشیوں بھری زندگی کی تمنا کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ عصمت نئے نئے موضوعات پر ایک سے ایک چونکا دینے والی کہانی لکھتی چلی گئیں اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ، ہر اعتراض کو ٹھوکر مارنا پسند کیا۔ ان کا افسانہ لحاف شائع ہوا، تو چاروں طرف کھلبلی مچ گئی۔
مرد کی ہم جنس سے رغبت تو بیش تر معاشروں میں قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے، مگر عورت کے لیے ایسا سوچنا بھی ناممکن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ denial بھی یقیناً مردوں ہی کا پیدا کردہ ہے، جو یہ تصور کرتے ہیں کہ جنسی تسکین پر تو صرف مردوں کا حق ہے۔ اس تعلق میں عورت مفعول سے زیادہ قطعاً اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے لیے مرد کی رٖضا اور مسرت ہی کافی ہوتی ہے۔
عصمت نے بتایا کہ یہ ایک خود غرضی کی بات اور محض مفروضہ ہے۔ حقیقت سے اس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی بہت سی غلط فہمیوں اور myths کی بنا پر بہت سی عورتیں جسمانی تعلق سے بے زاری کا اظہار کرتی ہیں، جسے ان کی نیک پرونیئت اور پاک بازی سمجھ کر خوشی خوشی قبول کر لیا جاتا ہے۔ عورت کو جب اپنا حصہ نہیں ملتا، تو وہ خاموشی سے اپنے حق سے دست بردار ہو جاتی ہے اور مورکھ مرد کو پتا بھی نہیں چلنے دیتی۔ مگر اس کے اندر انتقام کا خاموش طوفان سر اٹھانے لگتا ہے۔
’’لحاف‘‘ جیسے افسانے پر عصمت چغتائی کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ حالاں کہ یہ کچھ ایسا نیا موضوع بھی نہ تھا۔ حسن عسکری نے بھی اپنے افسانے ’چائے کی پیالی‘ میں اشاروں کنایوں میں ایسی بات کی تھی۔ مگر عورت کی تحریر تھی، اس لیے سبھی لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ گئے اور باز پرس شروع کر دی۔ مگر عصمت اپنے افسانے کا تحفظ کرنا خوب جانتی تھیں، سو وہ ڈٹ گئیں اور بہادری کی ایک مثال قائم کر دی۔
میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ جب عصمت کو عدالت کے سمن بھیجے گئے، تو ان کے شوہر شاہد لطیف گھبرا گئے۔ بولے:\"\"
’’معافی مانگو ورنہ جیل چلی جاو گی۔‘‘
عصمت نے جواب دیا: ’’معافی تومیں کبھی نہ مانگوں گی۔ اچھا ہے مجھے جیل بھیج دیں، میں تو ہمیشہ سے جیل جانا چاہتی تھی تاکہ وہاں جاوں اور عجیب و غریب کہانیاں تلاش کروں۔‘‘

آپ ہی بتایئے کیا بر صغیرمیں اس وقت ایسی کوئی عورت ہو سکتی تھی، جو ایسے افکار اور اپنے آدرشوں پر قائم رہے اور ان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔
عصمت کے دور کو بیتے لگ بھگ اَسی بر س ہونے کو آئے ہیں مگر صورت احوال یہ ہے، کہ آج پاکستان کے اردو ادب میں سب سے زیادہ مقبول، بیسٹ سیلر کتابوں کی مصنفات عصمت سے بہت پیچھے اور پرے پرے دکھائی دیتی ہیں۔
وہ عورت کو حسبِ سابق پردے کے پیچھے، جوتی کے نیچے، گھر کے اندر رہنے کا سبق دیتی ہیں۔ا نھیں وہ محض کچن اور بستر ہی میں اچھی لگتی ہے۔ یہ بڑی لکھنے والیاں مرد کی مرضی کو رضائے الٰہی جان کر زندگی بسر کرنے کا بھاشن دیتے نہیں تھکتیں۔ عصمت چغتائی اور ان کے ہم عصر ترقی پسندوں کی چلائی ہوئی گاڑی اب بڑے ٹھسے سے الٹا چلنا شروع ہو گئی ہے۔ نقاب اُلٹنے کے بعد نقاب ڈالنے کا زمانہ آچکا ہے۔ قبائلی ثقافت کی پرانی روایات والا اسلام، گھوڑوں پر دوڑتا صرف عورت ہی کو روندتا بھا گتا چلا آرہا ہے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا، کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔
مجھے اس ضمن میں محترمہ بانو قدسیہ اور عمیرہ احمد جیسی قابل، فاضل، ذہین، فطین، لکھنے والیوں کے نام لینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا۔ وہ عورت کو پھر سے اسی سانچے میں ڈھل جانے کی تلقین کرتیں، اسے اندھی کھائیوں میں دھکیل رہی ہیں، جہاں سے اسے نکالنے میں عصمت، بیدی، منٹو جیسے لکھاریوں نے قلم سے جہاد کیا اور کشٹ کاٹے، لعنت ملامت سنی۔ یہ کیا سب بے سود چلا جائے گا؟ کیا عورت کبھی اپنا صحیح اور جائز مقام نہ پہچان سکے گی اور حاصل نہ کر سکے گی؟
عصمت چغتائی محترمہ رشید جہاں کی طرح کوئی پولیٹیکل ایکٹیوسٹ یا Unionist نہیں تھیں۔ انھوں نے گھر کی دنیا، مشترکہ خاندانی نظام، گھریلو سیاستوں کو موضوع بنایا اور اس میں سے کہانیاں بن بن کر لائیں۔ ان کے زمانے میں یو پی کے مسلم ہندو گھرانے بڑی بڑی خاندانی حویلیوں میں رہا کرتے تھے، مشترکہ خاندانی نظام بہت مضبوط اور بااثر تھا۔ گھر میں اہل خانہ کے علاوہ کئی قسم کے رشتہ دار، قرابت دار نوکر چاکر بھی سکونت پذیر تھے۔ مسلم گھرانوں میں خدمت گاروں کے ساتھ ساتھ، نسل در نسل پیدا ہونے، زندگی بتانے اور وہیں جان، جانِ آفریں کے سپر د کر دینے والی باندیاں بھی، اہل خانہ کی طرح رہا کرتی تھیں۔ عصمت کے افسانوں میں جا بجا اسی طرزِ معاشرت اور رہن سہن کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔\"\"
اس دور کا نقشہ کھینچتے ہوئے وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ رواج کے مطابق خاندان کے نئے نئے جوان ہونے والے فرزندِ ارجمند کو ایک عدد باندی بغرضِ خدمت عنایت کر دی جاتی۔ گھر کی سبھی باندیاں سیوا داری کی اس خصوصی مراعت کی خواہش مند رہتیں اور پھر بالآخر قرعہ ایک کے نام نکل آتا۔ باندی کو حکم دیا جاتا کہ وہ حضرت کے آرام اور سکون کا خاص خیال رکھے۔ حسبِ ہدایت باندی شام ہوتے ہی بن سنور کر، خوش بو، مسّی، سرمہ لگائے چھن چھن پائل چھنکاتی خاندان کے چشم و چراغ کے کمرے میں داخل ہو جاتی اور پاوں دبانے لگتی۔ کبھی کبھار یوں بھی ہوتا کہ حضرت کچھ گھبرا جاتے، اوں آں کرنے لگتے تو خاندان کی بڑی بوڑھیاں انھیں سمجھانے بجھانے بیٹھ جاتیں۔ کہتیں کہ ’’بیٹا! باندی کو ٹھکرانا، کفرانِ نعمت ہوتا ہے۔ یہ شعائرِ اسلام کے منافی گرداننا ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ ہم بھلا کوئی کافر ہیں کہ ایسا کریں۔‘‘ حضرت سمجھ جاتے اور پاوں دبوانے کا لذیذ سلسلہ کام یابی سے چلنے لگتا۔ جانے ان جانے میں شباب کی منزلیں طے ہونے لگتیں۔
ایک روز ایسا ہوتا ہے کہ باندی کی طبیعت نا ساز ہو جاتی۔ اسے الٹیاں لگتیں تو بڑی بوڑھیاں پھر سر جوڑ کر بیٹھتیں اور طے یہ پاتا کہ باندی کو تا فراغت گاوں بھجوا دیا جائے۔ ایسے میں یوں بھی ہوتا کہ حضرت کو باندی سے انس ہو جاتا تو وہ پھر اوں آں کرنے لگتے۔ تڑپتے مچلتے، تو اہلِ خانہ ایک شریف، خاندانی، باکرہ لڑکی ڈھونڈ کر ان کی شادی کروا دیتے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ مسئلہ حل ہو جاتا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پھر ہم کس منہ سے مغربی معاشروں اور اقدار کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ ان پر بے راہ روی کے الزامات دھرتے ہیں؟ مجھے حال ہی میں پڑھی ہوئی ایک خبر یاد آرہی ہے، جس میں کویت کی ایک با پردہ جج خاتون نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ قانون کے تحت مردوں کو جنسی غلام یعنی Sex Slave رکھنے کی اجازت دی جائے، اس طرح ان کا معصوم مرد نہ گھر سے باہر جائے گا اور نہ ہی گناہ کا مرتکب ہو گا۔
بے چارے بھولے بھالے مردوں کو شریف رکھنے کا یہ طریقہ سن کر دل میں خیال آتا ہے کہ پوچھوں ۔۔۔ بہنو اور بھائیو! یہ سب تواضع صرف مردوں کے لیے ہی کیوں؟ کیا اسلام صرف مردوں کے لیے ہی آیا تھا؟ عورتیں بھی تو صدیوں سے مسلمان ہوئی بیٹھی ہیں۔ انھوں نے کون سا ایسا جرم کیا ہے، جس کی سزا کے طور پر نہ انھیں زمین پر کچھ ملنے کے امکانات ہوں اور نہ ہی آسمانوں پر پہنچنے کے بعد کوئی خوشی عنایت ہو۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف اور برابری ہے؟
معاف کیجئے اگر آپ کو میری یہ باتیں عجیب اور بے تکی لگ رہی ہیں تو بتائے دیتی ہوں کہ اس میں میر ا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب عصمت چغتائی کو تازہ تازہ پھر سے پڑھنے کا نتیجہ ہے۔ مجھ جیسے نا پختہ دماغوں پر عصمت چغتائی جیسی قلم کاروں کی کرامات کا بہت جلد اثر ہوتا ہے۔ اب اگر میں بھٹک کر ایسی ویسی باتیں کر رہی ہوں تو یہ تو طے ہو گیا کہ عصمت ہو گئیں کام یاب ۔۔۔ مگر میری ناقص رائے میں عصمت کی سوچ اور منطق کو بہت آگے تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ یہی ایمان داری کی بات ہے۔
خدا لگتی کہوں تو مجھے عصمت کی ہر تحریر لاجواب غیر معمولی اور قابل ستائش محسوس نہیں ہوتی۔ کہیں کہیں مجھے ان کی کردار نگاری متا ثر نہ کر سکی ۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پطرس بخاری، عصمت کی تمثیل نگاری کے قائل نہیں ہو سکے تھے۔ انھیں ڈراموں کے کلائمکس بے اثر لگتے تھے۔
سن لیجیے کہ حال ہی میں، میں نے جب ان کا ناول ’’ضدی‘‘ دوبارہ پڑھا تو محسوس ہو اکہ ہیرو یورن ضدی تو ہر گز نہیں تھا ۔ کم زور، بے اختیار، پھسپھسی شخصیت کا مالک ایک عام سا نوجوان تھا۔ گھر کی حاکم عورتوں کے سامنے اس کی ایک نہ چلتی تھی۔ تمام عمر اپنی خادمہ آشا سے پریم کرتا رہا، مگر اسے اپنانے کی ہمت پیدا نہ ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے دُور، گھٹ گھٹ کر زندگی بتا دی اور بے مراد رہ گئے۔ ایسے ہیرو سے ہم دردی تو پیدا نہیں ہو سکتی، بس کوفت ہو سکتی ہے۔
میں سمجھ سکتی ہوں، یقیناً اُس زمانے کے دستور کے مطابق بچے اپنے ماں باپ کے آگے اتنے ہی بے بس ہوا کرتے ہوں گے۔ گھر کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں اُسی کی چلتی ہو گی، جس کے پاس دھن اور اختیارات ہوتے ہوں گے۔ بہر حال اُس دور میں مردوں پر بھی کچھ پابندیاں تو ضرور رہتی ہوں گی ۔۔۔عصمت نے اُن واقعات کا قریب سے مطا لعہ کیا اور اُنھیں تحریر میں لائیں۔
عصمت چغتائی کی ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ بہت مشہور اور مقبول کتاب ہے۔ مجھے کچھ ادھوری سی لگی۔ ایسا لگا وہ یہاں کچھ ڈنڈی مار گئی ہیں۔ کتاب میں آپ بیتی کم اور ہڈبیتی زیادہ تھی۔ یہاں لکیر بس اتنی ہی ٹیڑھی تھی جتنی کشور ناہید، اپنی کتاب، ’’بری عورت کی کتھا‘‘ میں بری تھیں ۔۔۔ یعنی کوئی خاص نہیں۔ شاید مجھے کچھ زیادہ کی توقع تھی۔ شاید میں’’یادوں کی برات‘‘ جیسے پٹاخوں کی منتظر تھی، مگر عصمت احتیاط برت گئیں اور اپنے تعلیمی کیرئیر اور بچپن کی معصوم باتیں سنا کر فارغ ہو گئیں۔
میں بہر حال ایک مصنف کو یہ رعایت دینے پر تیار ہوں، کہ وہ جہاں تک سمجھے قاری کو ساتھ لے کر چلے اور جہاں چاہے، کسی اونچی فصیل سے نیچے دھکا دے کر ہاتھ جھاڑ لے۔ ٹھیک ہی تو کیا عصمت نے۔ برصغیر کے تنگ نظر معاشرے میں کوئی عورت اپنی سچی باتیں لکھ کر سنگ باری کا خطرہ کیوں مول لے؟
میں سوچتی ہوں ایک ہی دور میں لکھنے والے آخر ایک دوسرے سے اتنا مختلف کیوں اور کیسے لکھتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ انسان ہے ہی مختلف اور عجیب وغریب۔ جہاں منٹو اور عصمت چغتائی نام نہاد سوسائٹی کی غلاظتیں، کراہتیں، خباثتیں دیکھ کر کڑھتے اور لکھتے تھے۔ وہیں قراۃ العین حیدر، جنھیں عصمت بوم بوم ڈارلنگ کہتی تھیں، اپر کلاس کے لائف اسٹائل کی منظر کشی کرتیں، تاریخ اور تہذیب کے بند دریچے کھول کر ہمیں ہمارے ماضی کی سیر کروانے بہت پیچھے تک لے جاتی تھیں۔
اسی لمحے کرشن چندر کچرے کے ڈھیروں میں سے معاشرتی کہانیاں کشید کرتے کاغذ کالے کر رہے تھے۔ ایک ہمارے من مندر کے دیوتا، ممتاز مفتی جی تھے، جن کے یہاں جھکی جھکی نگاہیں، کالے نقاب سے باہر جھانکتی ایک آوارہ لٹ، سفید پاوں، خاموش طبع آپا تھیں اور بالیاں، پیر بابوں کی کرامات، انھیں کہانیاں لکھنے پر اکسا رہی تھیں۔ یہ سب آسمانِ ادب پر مختلف انداز اور رنگوں کی پتنگیں اُڑا رہے تھے اور آسمان سج رہا تھا۔ سب کا انداز ایک دوسرے سے جدا تھا۔ ایک طرفہ تماشا تھا، تحریروں میں زندگی کی تصویریں تھیں۔ زندگی کے رنگ اور انوکھے ڈھنگ تھے۔ سب اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔
اہم با ت بہر حال یہ ہے کہ جو ادب سوچ اور تحریک پیدا کرتا ہے، وہی زندہ اور تابندہ رہتا ہے۔ آنے والے افراد کے لیے راہ استوار کرتا ہے۔ عصمت کو ایک بار پھر سے پڑھتے ہوئے میرے منہ سے ’’واہ‘‘ اور پھر ’’آہ‘‘ نکلی۔ دل میں حسرت پیدا ہوئی ۔۔۔ کاش! ہم بھی، جو آج کے ادیب ہیں، مٹھی بھر ہی سہی، کچھ جرات، کچھ دیانت داری، دلیری اور سچائی کے ساتھ معاشرے کے رِستے ہوتے ناسوروں سے پردہ اٹھا کر حقیقتیں بیان کر سکیں اچھا لکھ سکیں۔ مصلحتوں سے کام نہ چلائیں، منافقت سے گریز سیکھیں۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہو رہا ہے، کہ عصمت چغتائی، منٹو، بیدی، غلام عباس کے مقابلے میں ہم آج کے لکھنے والے تو محض کونے کھدروں میں دُبکے ہوئے ڈرپوک چوہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments