برصغیر تباہی کے دہانے پر ہے!


\"\"مقبوضہ کشمیر میں 8 افراد کی ہلاکت سے ایک بار واضح ہوگئی ہے کہ بھارت نے کشمیری عوام کی مرضی و منشا کے بغیر اس علاقے پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ وہ بے پناہ فوجی قوت کے ذریعے وادی کے عوام کی آواز کو دبانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے لیکن اس میں مسلسل ناکام ہے۔ گو کہ بھارت میں بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے معقول آوازیں بلند ہوتی ہیں اور ملک کی بھلائی اور اپنے فیصلے خود کرنے کے بنیادی انسانی حق کے علمبردار اس حوالے سے اپنے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنے اور ملک کے وسیع تر مفاد اور بھلائی میں فیصلے کرنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن مقبول عوامی نعروں اور جذبات کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والی پارٹی جو اس وقت بھارت میں بھی حکمران ہے، انتہا پسندانہ نعروں کو ہی مسئلہ کا حل قرار دے رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک رویہ ہے۔ بھارت کے موجودہ حکمرانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی لحاظ سے تنہا کرکے اور سرحدوں پر فوجی دباؤ میں اضافہ کے ذریعے، اس قدر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے لئے آواز بلند کرنا بند کر دے۔ اس سطحی اور ناقابل عمل طرز سیاست کا شاخسانہ ہے کہ نریندر مودی اور ان کے ہم خیال سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کو اپنے مسائل میں الجھا دیا جائے اور اسے مسلسل بھارت کی طرف سے حملہ کے خطرہ سے نمٹنے کی تیاری کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو پاکستان بالآخر کشمیر کے سوال پر بھارتی موقف کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ اس طرح بھارت کشمیریوں کو تنہا کرنے کے مقصد میں کامیاب ہو سکے گا اور پھر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے سامنے بھارتی سرکار کے ساتھ کوئی ہتک آمیز سیاسی معاہدہ کرنے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

نریندر مودی کے دور حکومت میں اس پالیسی پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی نہ کسی سانحہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا گیا ہے۔ حالانکہ بھارت ایک بڑا ، بااثر اور طاقتور ملک ہے۔ اس کے پاس ماہر سفارتکاروں اور کہنہ مشق سیاسی رہنماؤں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی بات چیت میں پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے بھارتی مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے باوجود بھارت مذاکرات سے انکار کرتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ اگر اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بھارت کے موجودہ انتہا پسند رہنماؤں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ اپنے حجم ، دنیا میں بڑھتے ہوئے رسوخ ، بے پناہ فوجی طاقت اور نفرت انگیز ماحول کے ذریعے پاکستان کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اڑھائی برس کی مسلسل کاوش کے باوجود مودی سرکار یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن وہ ابھی تک اس طرز عمل سے گریز کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر، علاقے میں امن ، فوجی مقابلہ بازی کی صورتحال کے خاتمہ اور پیچیدہ باہمی امور کو طے کرنے کے حوالے سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا موقف انصاف پر مبنی ہے اور بھارت کو یقین ہے کہ مذاکرات میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ یا اپنی سخت پوزیشن میں غیر معمولی نرمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ اس لئے اس آپشن کو مسلسل مسترد کیا جا رہا ہے۔ بھارت پاکستان کو عاجز کرنے کےلئے تواتر سے اس کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ دنیا گو کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابی جنگ کے ثمرات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اس ملک کے شہریوں کی قربانیوں سے بھی آگاہ ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی سیاستدان اور سفارت کار ہر موقع پر، دنیا کے ہر فورم اور دارالحکومت میں ایک ہی راگ الاپتے ہیں۔ اس سے اگرچہ وہ پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوئے لیکن پاکستان کی سفارتی مشکلات میں اضافہ کا سبب ضرور بن رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی اور حکومت کی غیر واضح حکمت عملی کی وجہ سے مسائل حل کرنے کےلئے کوئی ڈرامائی اور غیر روایتی اقدامات بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔

بھارت نے گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ خود مسائل اور مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود افغانستان کو مختلف منصوبوں کےلئے کروڑوں ڈالر فراہم کئے ہیں، اس طرح وہ افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے مملکت پاکستان کے باغی عناصر کے ساتھ ساز باز کرکے بلوچستان اور دیگر علاقوں میں پاکستان کیلئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی یہ کارروائیاں چونکہ صرف پاکستان کے خلاف ہیں اور وہ ان مقاصد کےلئے بعض ناراض قوم پرست عناصر یا پہلے سے جنگ میں مصروف عسکری گروہوں کو استعمال کر رہا ہے، اس لئے اس صورتحال سے آگاہ ہونے کے باوجود پاکستان کوئی ایسے شواہد سامنے لانے میں ناکام ہے جن کی بنیاد پر دنیا پر یہ واضح کیا جا سکے کہ بھارت دہشت گردی کی سرپرستی کا مرتکب ہے۔ بھارت کے ساتھ وابستہ مفادات کی وجہ سے بیشتر مغربی ممالک اس حوالے سےے خاموش رہنے اور یہ روایتی مشورہ دینے پر اکتفا کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے۔

پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے حال ہی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کے ساتھ تمام مسائل کی جڑ قرار دیا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ بھارتی حکام اس سے آگاہ نہ ہوں یا دنیا کو پتہ نہ ہو کہ اگر برصغیر میں امن بحال کرانا مقصود ہے تو کشمیر ایجنڈے پر سب سے پہلے لکھا جائے گا۔ اس کے باوجود بھارت کے ساتھ وابستہ وقتی اقتصادی مفادات اور چین کے خلاف اسے امریکہ کے مفادات کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانے کی پرجوش خواہش کی وجہ سے یہ فراموش کرنے کی بھیانک غلطی کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت بنیادی طور پر غریب ترقی پذیر ممالک ہیں۔ ان کی آبادیوں کا بڑا حصہ خط غربت سے نیچے زندگی صرف کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ کشمیر میں تصادم اور احتجاج کی صورتحال ، بھارتی حکمرانوں کا متکبرانہ رویہ، سرحدوں پر جارحیت کا ماحول اور ووٹروں کو جوش دلانے کےلئے احمقانہ نعروں کا طریقہ، ایک ایسی فضا پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جس میں کوئی بھی بڑا تصادم رونما ہو سکتا ہے۔ اس تصادم میں بھارت کا عسکری لحاظ سے پلڑا بھاری ہے، اس لئے پاکستان کا جوہری ہتھیاروں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ بھارت کی کولڈ اسٹارٹ حکمت عملی اور اس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے موبائل جوہری ہتھیاروں پر انحصار کے طرز عمل کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بھارت گوادر بندرگاہ کی تعمیر، سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد سے بدحواس ہو کر اور چین کے خلاف امریکی محاذ آرائی کی خواہش کی تکمیل کےلئے بحر ہند میں بحری عسکری قوت میں اضافہ، میزائل سسٹم کی تنصیب اور نیوکلیئر آبدوزوں کی تعیناتی سے صورتحال کو مزید اشتعال انگیز بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے اس حکمت عملی کو خطرناک قرار دیا ہے۔ پاکستان اس چیلنج کے مقابلہ کےلئے تیاری کرنے پر مجبور ہوگا۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کے اندیشے میں بھی اضافہ ہوگا۔ دنیا فی الوقت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ حالات صرف علاقائی مسئلہ ہیں اور اس سے پاکستان ہی متاثر ہوگا۔ یہ تفہیم ابھی اظہار کی صورت اختیار نہیں کر رہی کہ برصغیر کے ان دو ملکوں میں تصادم ۔۔۔۔۔ الف) صرف علاقائی تباہی کا سبب نہیں بنے گا اور نہ ہی اس کا اثر صرف بھارت اور پاکستان پر ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ ب) ایسا تصادم جوہری طاقت کے استعمال میں بدلنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں یہ جنگ پوری دنیا کےلئے خوفناک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے۔

دنیا کی عدم توجہی اوربھارت کے انتہا پسندانہ سیاسی رجحانات کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کی غیر معمولی اور خطرناک صورتحال موجود رہتی ہے۔ داخلی سیاسی ضرورتوں کے سبب بھارتی لیڈر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال گولہ باری کا سلسلہ بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اسی لئے گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے متنبہ کیا تھا کہ ایسی صورت میں اندازے کی معمولی غلطی خوفناک جنگ میں بدل سکتی ہے۔ بھارت اس کے علاوہ پاکستانی علاقے میں سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا پرفریب دعویٰ دہرا کر ایسا ماحول پیدا کر رہا ہے جس میں دلیل اور عقلی طرز عمل کی بجائے جذبات اور نعرے بازی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انتہا پسندانہ بھارتی طرز عمل پاکستان میں بھی ایسی ہی قوتوں کےلئے توانائی کا باعث بنتا ہے۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے گروہوں کو عوامی مقبولیت نصیب ہوتی ہے اور یہ دلائل سامنے آنے لگتے ہیں کہ بھارت جس قسم کی جنگجویانہ رویہ کا مظاہرہ کرتا ہے، اس میں شاید ایسے گروہوں کی موجودگی پاکستان کے تحفظ کےلئے ضروری ہے۔ لوگوں کی اکثریت انتہا پسندی کو قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگتی ہے۔ اس طرح دشمنی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ یہی حالات پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات کو مفاہمت اور زیرکی سے حل کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسند رویوں اور امن کی بجائے جنگ کے نعروں کو مسترد کرنے کا رویہ مستحکم ہوا ہے۔ متعدد حلقے حکومت کی طرف سے ماضی میں اختیار کی گئی پالیسیوں کو غلط قرار دے کر ان سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تاہم متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرنے کی خواہاں آوازیں، بھارت کے جارحانہ طرز عمل اور کشمیر میں مظالم کی صورت میں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔

 بھارتی لیڈروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ انتہا پسندی کو فروغ دے کر اور جنگی جنون کا مظاہرہ کرکے آگ سے کھیل رہے ہیں۔ یہ راستہ اس علاقے سے غربت اور محرومی ختم کرنے کے خواب کا شیرازہ بکھیرتا ہے۔ بھارت اگر پاکستان کو دباؤ میں لانے اور فوجی قوت سے دبانے کی کوشش کرے گا تو پاکستان میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا رجحان فروغ پائے گا۔ ایسی صورت میں پاکستانی لیڈر بھی تادیر مذاکرات اور امن کی بات کو سیاسی متبادل کے طور پر پیش کرنے کے اہل نہیں رہیں گے۔ جنگ کے خطرہ کو ٹالنے اور امن و خوشحالی کا راستہ ہموار کرنے کےلئے دونوں ملکوں کو انتہا پسندانہ نعرے ترک کرکے ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے طریقے تلاش کرنا پڑیں گے۔ تب ہی دونوں ملکوں کے عوام اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں گے اور اس خطے سے غربت کا خاتمہ بھی ہو سکے گا۔ بھارت نے اپنا موجودہ رویہ ترک نہ کیا تو اسے پاکستان سے بھی کسی بہتر طرز عمل کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ نئی دہلی کو جاننا ہ گا کہ پاکستان کے بارے میں اس کی حکمت عملی ناکام ہے۔ اس کے ردعمل میں پاکستان بھی ناکام تر پالیسی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ دھونس اور دباؤ سے یہ صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ ہتھکنڈے افسوسناک تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments