خورشید ندیم صاحب کی تحریر کے جواب میں – حصہ اول


\"\"ہم سب کے ایک نیم مستقل قاری ہونے کی حیثیت سے کل رات مجھے محترمی خورشید ندیم صاحب کی ایک فکرانگیز تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان \’\’ مذہبی ذہن کا نفسیاتی جائزہ\’\’ تھا۔ یہ تحریر ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کی ایک تحریر کے جواب میں لکھی گئی تھی اور خورشید ندیم صاحب نے متعدد نکات کی صورت میں اپنا موقف بحث کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کی امید کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ۔ ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے تجزیے کی علمیاتی قدر کا اعتراف کرتے ہوئے خورشید ندیم صاحب ان سے بنیادی اختلافات سامنے رکھ کر اپنی تحریر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ مذہب فرد کے عقلی، فکری اور تہذیبی ارتقا میں نہ صرف معاون بلکہ اس کا حقیقی راہنما ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے پیغمبروں سے جانا جائے۔ اگرچہ خورشید ندیم صاحب کی تحریر کا عنوان \’\’ مذہبی ذہن کا نفسیاتی تجزیہ \’\’ تھا تاہم ان کے خیال میں مذہبی نفسیات کی کسی بھی تحلیل سے قبل مندرجہ بالا نتیجہ سامنے رکھا جانا چائیے وگرنہ غلط فہمی کا احتمال باقی رہے گا۔ زیر نظر تحریر خورشید ندیم صاحب کے مضمون کے اختلافی مندرجات کی نسبت سے بحث کو مزید آگے بڑھانے کی نیت سے لکھی گئی۔

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے خورشید ندیم صاحب کا مضمون مذہب اور نفسیات سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اور اپنے پہلے تین نکات میں صاحبِ تحریر نے مذہب اور نفسیات کے باہمی اشتراکات پر روشنی ڈالی ہے۔ بہتر ہوگا کہ مذہب اور نفسیات کے اس تعلق پر چند ابتدائی باتیں کرلی جائیں تاکہ خلط مبحث کا امکان کم رہ جائے۔

ان کے خیال میں مذہب اور نفسیات دونوں مابعدالطبیعی اساس رکھتے ہیں اور فرد کے اخلاقی وجود کی کھوج ان کا مشترکہ مقصد ہے۔ روح، نفس،وجدان وغیرہ کے مباحث ان کے نزدیک اس امر کے گواہ ہیں۔ میں اس باب میں نہایت احترام کے ساتھ ان سے اختلاف رکھتا ہوں اور میرے خیال میں فاضل مصنف نفسیات کا بطور علم جو تصور رکھتے ہیں وہ ایک عرصے سے متروک ہو چکا ہے۔ جدید فلسفے میں ڈیکارٹ ، لائبنیز اور کرسچین وولف کے ہاں نفسیات کا یہی تصور پروان چڑھا جو کانٹ کی بھرپور تنقید کے بعد روبہ زوال ہوا۔ نفسیات کے بطور علم اس تصور کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ انسان کے حسی و ذہنی تجربات و کیفیات کا گوناگوں متنوع مواد چونکہ ہمیں شعوری سطح پر ایک وحدت کی صورت محسوس ہوتا ہے پس انسانی نفس ایک علمیاتی وحدت کا متقاضی ہے جو تمام تجربات و کیفیات سے مقدم ہے اور ایک ناقابل تغیر جوہر کی حیثیت سے مکمل اکائی ہے۔ یہی قبل تجربی نفسی وحدت روح بھی کہلاتی ہے۔ ڈیوڈ ہیوم وہ پہلا فلسفی تھا جس نے نفسی وحدت کے اس غیر تجربی تصور پر بھرپور تنقید کی۔ واضح رہے کہ ہیوم اسی تنقید کی روشنی میں نفسی وحدت کے اخلاقی پہلو یعنی \’\’ ضمیر\’\’ کے تصور کا بھی ابطال کرتا ہے۔ یہ فرد کے اخلاقی وجود کا وہی مرکز ہے جو خورشید ندیم صاحب کےخیال میں نفسیات اور مذہب کا مشترکہ میدان ہے۔ کرسچین وولف نے مابعدالطبیعات کی جو درجہ بندی کی ہے اس کے مطابق عقلی کونیات ، عقلی الہیات کے ساتھ عقلی نفسیات کا یہی درجہ مابعدالطبیعات کا تیسرا رکن قرار پاتا ہے۔ عقلی نفسیات کا یہ تصور جدید فلسفے کی منطقی ضروریات کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ شعور اور مادے کا باہمی تعلق جدید فلسفے کا شاید سب سے بنیادی سوال رہا ہے۔ مابعد الطبیعی فکر نے عقلی نفسیات کی مدد سے شعور اور مادے کو ایک کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ انسانی شعور کی سرگرمی کی بنیاد پر فرد کو ایک نفسی وحدت مانا گیا جس کی ساخت مادی کائنات کے مابعد الطبیعی تصور کے مماثل تھی۔ مادی کائنات کا یہ تصور عقلی کونیات کی مدد سے تشکیل دیا گیا تھا جس میں کائنات کی طبیعی ساخت اور اس کے مادی و فعلی تنوع کو مابعدالطبیعی کلیت کی شکل میں ایک وحدت کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ اگلے درجے پر مندرجہ بالا نفسی و مادی وحدت کو ایک دکھایا جاتا تھا اور پھر اس برتر کل کو مقصد اور معنی کی ضرورت کی خاطر عقلی الہیات سے تقویت دی جاتی تھی۔ اس درجہ پر وجود کی شعوری اور مادی معنویت کو اخلاق و مذہب سمیت کسی دوسرے کلی تصور کی مدد سے مکمل کیا جاتا تھا ۔ یوں انسانی علم کی عمارت کی تکمیل کا دعوی کرتے ہوئے ایک ایسا نظام فکر سامنے آتا تھا جس کے موضوع میں سب کچھ شامل ہوتا تھا۔

تاہم جدیدیت کو چند اور تقاضے بھی درپیش تھے جس کا مداوا محض ذہنی عیاشی نہیں تھا۔ سماج اور علم کا رشتہ مضبوط تر ہو رہا تھا ۔ جدیدیت کا ایک اہم نعرہ فطرت پر انسان کی فتح کا حصول تھا۔ پیداوار کے بدلتے طریقوں اور تنظیم سازی کے نت نئے تجربات نے علم کو آسمان سے اتار کر زمین پر لا کھڑا کیا اور ہر دعوی کو اپنی تصدیق کے لیے عملی جواز پیدا کرنا پڑا۔ جدید تجرباتی سائنس نے ان حالات میں عروج حاصل کیا۔ صنعتی دور اور ٹیکنالوجی سائنسی منہاج کی تصدیق کے عملی جواز کی حیثیت سے ہی سامنے آئےہیں۔ یہ سائنسی منہاج اس قدر مقبول ہوا کہ تمام علوم کو اس کی روشنی میں ترتیب نو سے گزرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں ان علوم کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوا ۔ فلسفہ ان علوم میں سرفہرست ہے۔ موجودہ نفسیات سائنسی منہاج کار پر سامنے آئی ہے اور انسانی نفسی و جذبی کیفیات کا مطالعہ ایک موضوع کے طور پر کرتے اس کا ایسا کوئی مقصد نہیں جیسا کہ جدید فلسفے کی عقلی نفسیات کا تھا۔ لہذا اسے کسی بھی طرح مابعدالطبیعی کہنا درست نہیں ۔ اسی طرح جدید نفسیات نا تو روح ، نفس ، وجدان کو ماورائی انداز سے دیکھتی ہے نا ہی کسی فوق تجربی اخلاقی مرکز¸وجود یا جوہر کی کھوج میں ہے۔

نفسیات اور مذہب کے مابعد الطبیعی اشتراک کے ساتھ ساتھ خورشید ندیم صاحب نے مذہبی تجربےکی نفسیات کو عصری منہج علم کے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے صوفیا کا میدان بھی مذہب کی بجائے نفسیات قرار دیا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل اور خورشید ندیم صاحب دونوں کے مضامین کا تعلق مذہبی نفسیات کی تحلیل کے موضوع سے ہے۔ اس سے پہلے کہ خورشید صاحب کے دعوی کا جائزہ لیا جائے یہ دیکھا جانا چائیے کہ عصری دینیاتی فکر میں مذہبی تجربے کی نفسیات پر زور دیے جانے کا رجحان کیونکر شروع ہوا اور علم الکلام میں اس رویے کے سامنے آنے کی علمی وجوہات کیا ہیں؟ جیسا کہ سطورِ بالا میں بتایا گیا ہے جدیدیت کے نتیجے میں شعوری رویے اور علمی ترجیحات میں تبدیلی پیدا ہوئی۔ دور قدیم اور قرون وسطی کے علمی و شعوری رویے پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کونیات و وجودیات کو اولیت حاصل ہے۔ اشیا اور جواہر کی بنیادی ساخت کیا ہے یہ سوال اس پورے زمانے میں فائق رہا۔ دور قدیم و وسطی کا فلسفہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ یونانیوں کی ذہنی تگ و تاز کا مقصد کائنات کے وجودیاتی جوہر کا کھوج لگانا تھا۔ دور جدید میں علمیات کا سوال سب سے اہم بن گیا اور مسئلہ یہ نہ رہا کہ حقیقت کیا ہے بلکہ صورت یہ بنی کہ جو کچھ بھی ہے اس کا علم کیسے حاصل کیا جائے اور پھر اس علم کی تصدیق کے بعد اس کی بنیاد پر اس \” موجود جو کچھ \” کو حقیقت کے ایک تصور کے طور پر پیش کیا جائے۔ قدیم دور میں حقیقت کا یہ تصور علمیات سے بھی اول ظہور میں آتا تھا۔ علمیات کی اہمیت پر زور کے اس رجحان نے سائنسی منہاج کے غلبے کی راہ ہموار کرنے میں بھی حصہ ڈالا اور ساتھ ہی ساتھ ماورائی فکر پر دوررس اثرات ثبت کیے۔ کانٹ کے بعد روح کے ماورائی وجود سے توجہ ہٹا کر مذہب کو فرد کے اخلاقی تجربے میں جگہ دی گئی اور عقلی نفسیات کا خاتمہ ہوا۔ عقلی الہیات کا زوال اس سے بھی پہلے ہو چکا تھا اور مادی کائنات کی تشریح سے مذہبی مفاہیم کو جدا کردیا گیا تھا۔ ریاست و مذہب کی علیحدگی میں اس فکری رویے کا بھی حصہ ہے۔ کانٹ کے ایک صدی بعد تک مذہب محض ذاتی اخلاقی تجربہ بن کر رہ گیا تھا۔ جدیدیت نے مذہب کو اس انداز میں فرد کا ذاتی مسئلہ بنا دیا کہ عملی زندگی اور سائنسی و پیداواری طریق سے کٹ کر مذہب ایک روکھا پھیکا ذاتی اور اخلاقی قانون سا بن گیا۔ اسی تناظر میں جدید دینیاتی فکر کے ایک بڑے نام اور وجودیت کے بانی سورن کیرکیگارڈ نے آنکھیں کھولیں۔ عقیدے اور فرد کی نفسیات پر اس کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کیرکیگارڈ جدیدیت اور اجتماعیت پر تنقید کے ضمن میں عقیدے کو فرد کے وجود کے جواز اور اثبات کے لیے لازمی مانتا ہے۔ تاہم عیسائیت پر عقیدے کو اپنے وجود کا جواز ماننے والا یہ مفکر منظم مذہبی اداروں کا باغی تھا ۔ وہ فرد اور اس کے عقیدے کے معروض کے درمیان کسی بھی ادارے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے خیال میں عقیدہ عقل سے جدا بلکہ ابسرڈ ہے اور اس پر ایمان فرد کی نفسیات کی اتھاہ گہرائیوں میں ہے ناکہ چرچ اور کسی تبلیغی ادارے یا کسی عقلی توجیہہ کی سرگرمی کا نتیجہ۔ ابسرڈ کے تصور کو جدید وجودیت میں مرکزی کردار دینے میں کیرکیگارڈ کا اہم مقام ہے۔ دینیاتی فکر کا یہ پہلو نسبتا ایک مابعدجدید رجحان ہے تاہم جدیدیت کے علمیات پر خصوصی زور دینے اور مادی کائنات و فطری مظاہر کی تعبیر و تشریح کا حق سائنس کے پاس جانے کی وجہ سے عقلی کونیات کا خاتمے ہوا اور مذہبی فکر کے مرکزی موضوعات بھی مادی کائنات کی مذہبی تشریح کے مسائل اور مابعد الطبیعات سے تبدیل ہو کر علمیات کے گرد گھومنے لگے۔ وحی و وجدان کو مرکزی حیثیت دے کر علمی رخ سے دیکھا جانے لگا اور مذہبی نفسیات یعنی مذہبی تجربہ کی نفسیات کو رواج حاصل ہوا۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ جدیدیت کے دورِ آخر میں سامنے آنے والی چند رد عقلی فلسفیانہ تحریکوں سے اس دینیاتی فکر کو کافی مدد حاصل ہوئی۔ چنانچہ کیرکیگارڈ کی ردعقلی وجودیت نے جہاں عقیدے کی نفسیات کو نمایاں کیا وہیں ہنری برگساں کی ردعقلی ارادیت نے دینیاتی فکر کو وجدان کا نظریہ عطا کیا۔ علامہ اقبال اسی برگساں سے متاثر ہوئے ہیں اور اس ردعقلیت سے بھی فیض لیا ہے۔ بعد ازاں مذہبی نفسیات پر فریڈرک نطشے کا کام بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ مذہبی تجربے کی مرکزیت پر عصری بحث کی مندرجہ بالا تا ریخ اور تناظر سے یہ سامنے آتا ہے کہ مذہبی تجربے کے موضوع کا اس قدر مرکزیت حاصل کرنا بھی ا س بات کا ثبوت ہے کہ جدیدیت کے نتیجے میں جہاں فلسفے کی ازسر نو حد بندی کی گئی اسی طرح مذہب کے لیے بھی ایک الگ اور محدود علاقہ باقی رہ گیا جہاں عصری علوم کے مقابل کسی نہ کسی حد تک اپنا زور باقی رکھا جا سکے۔ پس مذہبی تجربے کی کسی بھی بحث میں یہ امر پیش نظر رہنا چائیے۔

خورشید ندیم صاحب کی تحریر کے جواب میں – حصہ دوم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments