محافظوں کے ’بڑے منظرنامے‘ میں تیمور کا قتل نہیں


\"\"

اور بالآخر لاکھ بھاگنے اور نہ چاہنے کے باوجود میں نے قلم اٹھا ہی لیا۔ دوست احباب لکھنے کو کہتے رہے لیکن میں ٹالتی رہی، بھاگتی رہی، کیوںکہ ایسا نہیں ہے کے میرے پاس الفاظ نہیں، بلکہ میں لکھنے کے فن سے نا آشنا ہوں۔ مجھے اپنے احساسات کو الفاظ جامہ پہنانا نہیں آتا۔ میرے پاس ننگے احساسات ہیں۔ اصلی انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ اور ان کہانیوں میں الم ہیں، کیا کیجئے لاکھ کوشش کے باوجود میں دکھ اور دکھی انسان دیکھ پاتی ہوں۔

بہرحال آج پورا دن میں جس چہرے سے، جس خبر سے بھاگتی رہی ہوں، ’اگنور‘ کرتی رہی ہوں، کہ جسے نہ سوشل میڈیا پر ’شئیر‘ کیا، نہ ہی کوئی تبصرہ، اس وقت اس خبر کو نظر انداز کرنے کی، بھولنے کی لاکھ کوشش کے باوجود، صبح کے 4:30 بجے میں اسی کے بارے میں لکھنے پر مجبور ہوں۔ کی میں سو نہیں پا رہی۔ وہ چہرہ آنکھوں میں آتا ہے۔ اس چہرے کی ماں کا خیال لیٹنے نہیں دے رہا۔

وہ چہرہ میری نظر سے گذرا۔ لاابالی، معصومیت سے بھرپور، نوخیز، سادگی و شرافت چہرے پہ عیاں تھی۔ پھر ساتھ لگی خبر پہ نظر پڑی تو معلوم پڑا کہ یہ ایک ’مقتول‘ کا چہرہ ہے۔ یہ سما ٹی وی کے رپورٹر کا چہرہ ہے جسے رینجرز کے شہر کراچی میں ’نامعلوم‘ افراد دن دھاڑے حملے میں مار جاتے ہیں۔ اس رپورٹر کا نام تیمور تھا۔

اتفاق کی بات ہے کہ میرے بھائی کا نام بھی تیمور ہے۔

میں نے تفصیل پڑھے بغیر خبر سے نظر چرا لی۔ آگے بڑھ گئی۔ سوچوں کا رخ بار بار وہاں جاتا اور میں خود کو ’مشغول و مصروف‘ کرتی جاتی۔ حالانکہ یہ خبر بظاہر نئی نہیں ہے۔ اب تو ان قاتلوں اور مقتولوں کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔ روزانہ ڈھیروں کی تعداد میں ایسی خبریں آتی ہیں۔ نوزائدہ بچوں سے نوجوانوں تک اور بوڑھوں سے لے کر عورتوں، خواجہ سراؤں تک۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو اس غارتگری سے محفوظ ہو۔ پھر بھی جانے کیا ہے اس چہرے میں؟

ہم حساس لوگ بجائے خود ایک مسئلہ ہوتے ہیں۔ حادثات و واقعات کو اتنی گہرائی سے محسوس کرنے لگتے ہیں کے جیسے یہ سب ہم پر بھی بیت رہا ہو۔ اور پھر یا تو اپنی ہی بھوک و نیند اڑا بیٹھتے ہیں یا پھر غم و غصّہ میں اول فول بکتے ہیں کے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ (معذرت کے ساتھ، یقیناً عقلمند و تمیزدار حساس بھی ہوتے ہیں)۔ میری ماں صحیح کہتی تھی کے ’اتنا نہ طاری کیا کرو خود پر، پاگل ہو جاؤ گی‘۔

تو جناب اس وقت میں یہ ہی سوچ رہی ہوں کہ تیمور تو منوں مٹی تلے دب کر اس سب شور و غوغا سے آزاد ہوا۔ پرسکون ہوا۔ اور یہ میں اتنے پر یقین انداز میں اس لئے کہہ رہی ہوں کے کچھ گھنٹوں پہلے میرے شوہر نے اپنے ایک دوست طحہٰ عبیدی کی لکھی ہوئی ایک تحریر مجھے پڑھ کر سنائی۔ (سچ ہے جتنا جس چیز سے بھاگو، وہ اتنا ہی آپ کے سامنے آتی ہے)۔ تو اس تحریر کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کے 22 یا 23 سالہ تیمور اپنی 2 جوان بہنوں، اپنے فالج زدہ باپ اور بوڑھی ماں کا واحد کفیل بھی تھا۔ 2 نوکریاں کرتا تھا۔ اور جس عمر میں وڈیروں اور جرنیلوں کے بچے پرامن ملکوں کے مہذب معاشروں میں ہائر اسٹڈیز کے لئے جاتے ہیں، وہاں تیمور کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں تھیں۔

میں یہ بھی سوچ رہی ہوں کے روزانہ ہزاروں تیمور مرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک چھوٹی خبر ہے۔ ہمیں یقیناً محافظوں سے سوال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کے سامنے بڑا منظرنامہ ہے۔ ملکی و قومی سلامتی کے مسائل ہیں۔ وہاں چھوٹے موٹے ’تیموروں‘ کے قتل اور ان کے فالج زدہ باپوں کے رنج سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ کیا ہوا باپ کے کندھے تیمور کو جوان کرتے جھک گئے اور اب انہی جھکے کاندھوں سے تیمور کی لاش اٹھانی پر گئی تو بھی کیا؟

ابھی تو اور بھی کتنے ہی تیموروں نے مقتولوں کی فہرست میں آجانا ہے۔ خدانخواستہ میرا بھائی نہ ہو بس اس فہرست میں اور آپ میں سے بھی کسی کے بھائی کا نام تیمور ہے تو وہ بھی سلامتی میں رہے۔

باقی میرے الفاظ سے ’sense‘ بنانے کی کوشش بے کار ہے۔ کیونکہ یہ تو دل سے بوجھ اتارنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔ کہ شاید۔ شاید میں اب سکون سے سو سکوں!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments