حافظ سعید ہمیں اب اور کتنا پھنسائیں گے؟


\"\"

حافظ سعید کی مقبوضہ کشمیر میں اینٹری دبنگ تھی۔ تب ان کی تنظیم کا نام لشکر طیبہ ہوتا تھا۔ لشکر طیبہ نے کم وقت میں بھارتی فوج کو اتنی دلیری سے ٹارگٹ کیا کہ باقی سب کشمیری عسکری تنظیمیں غیر متعلق ہو کر رہ گئیں۔ ستمبر گیارہ ہوا حالات بدلے لشکر طیبہ کا نام بدلا۔ عسکری تنظیموں کے لئے ناپسندیدگی بڑھی۔ گوریلا جنگوں کا دور اختتام کو پہنچا کہ دنیا دہشت گردی کی کے خلاف متحد ہوتی گئی۔ بندوق کوئی آپشن ہی نہ رہا۔

ممبئی حملے ہوئے کشمیر کامسئلہ ان کی دھول میں گم ہوتا دکھائی دیا۔ پاک بھارت تعلقات میں کشمیر کامسئلہ سرفہرست نہ رہا۔ کم از کم بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں دہشت گردی کو پہلا مسئلہ قرار دے دیا۔ ممبئی حملے بھارت کے لئے کیا معنی رکھتے تھے اس کا اندازہ پاکستان میں ہر گز نہ ہو سکا۔

اس کا اندازہ سید علی گیلانی کے ایک حالیہ بیان سے لگائیں۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ جب حافظ سعید کشمیر میں کسی بھی حوالے سے سرگرم ہوتے ہیں تو کشمیر تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔ گیلانی صاحب کے اس بیان کی تردید آ چکی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بیان اصلی ہے یا تردید۔

حافظ سعید کو اس وقت نظر بند کر دیا گیا۔ دنیا اس نظربندی سے کہیں زیادہ کی توقعات رکھتی ہے۔ عالمی پریشر جتنا بھی ہے اس لئے ہے کہ حافظ صاحب کی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔ اس کے ذمہ داران کو گرفتار کیا جائے اور انہیں سزائیں سنائی جائیں۔ یہ پاکستانی عدالتوں کی ساکھ ہے جو ہمیں بچاتی آ رہی ہے۔ حافظ صاحب پر کوئی ایسا کیس پاکستان میں نہیں ہے جس پر انہیں سزا سنائی جا سکے۔ حکومت کے پاس یہی ایک آپشن تھا کہ انہیں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نظربند کر دیتی سو اس نے کر دیا۔

فرض کر لیتے ہیں کہ سرکار کوئی چارہ نہ پا کر حافظ سعید کو سزا سنا دیتی ہے کسی نہ کسی طرح۔ ان کی جماعت کو تحلیل کر دیتی ہے اور ان کے مراکز کا کنٹرول سنبھال کر ان کے کارکنوں کو منتشر کر دیتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا ممکن نہیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا ہو جاتا ہے اس کے بعد کیا ہو گا۔

شدت پسندی کے حوالے سے سنجیدہ کام کرنے والوں میں عامر رانا اہم ترین نام ہے۔ عامر رانا کے ادارے نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا ڈیٹا بیس بنایا ہے۔ اس پر مختلف زاویوں سے تحقیق کی ہے جسے شائع بھی کرایا ہے۔ انہوں نے حافظ سعید کے موضوع پر بار بار لکھا ہے۔ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے تازہ کالم میں انہوں نے حرکت الجہاد اسلامی کی مثال دی ہے۔

حرکت الجہاد کبھی افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی پاکستانی عسکری تنظیم تھی۔ حال ہی میں اس کے بانی قاری سیف اللہ اختر افغانستان میں مارے گئے ہیں۔ جب ستمبر گیارہ کے بعد حکومت نے اپنی پالیسی بدلی تو حرکت المجاہدین نے بھی اپنی پالیسی بدل لی۔ اس تنظیم کو تحلیل کیا گیا لیکن اس کے ارکان سیکیورٹی اداروں کے لئے بہت مدت تک ایک بڑا چیلنج بنے رہے۔ ایک پوری دہائی اس تحلیل شدہ جماعت کے اس چھوٹے سے گروہ سے نپٹنے میں لگ گئی جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ دو ہزار دو سے دو ہزار چھ کے درمیاں زیادہ تر ریاست مخالف کارروائیوں میں اسی تنظیم کے لوگ ملوث رہے۔

\"\"

حافظ سعید حرکت سے کہیں بڑا سیٹ اپ رکھتے ہیں۔

کشمیر میں جب پرائیویٹ جہاد کو فروغ دیا گیا تو اس کے لئے سرمایہ بھی جھونکا گیا۔ یہ سرمایہ وہ سب خرابیاں لے کر آیا جو پیسے سے متعلق ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ جہاد میں شامل لوگوں نے اس سرمائے سے وہ سب کچھ کیا جو نو دولتیوں کے بگڑے ہوئے بچے کرتے ہیں۔ حلال کا پیسہ تھا دل کھول کر لگایا اور اجاڑا گیا۔ پراپرٹی کے کام میں بھی استعمال ہوا۔ اب بھی کئی سابق جہادی لیڈر پراپرٹی کا ہی کام کرتے ہیں۔ کیسا کرتے ہیں یہ کبھی ان کے ساتھ کر کے دیکھ لیں۔

حافظ سعید وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے سرمائے کو بہت سمجھ بوجھ کر استعمال کیا۔ اس کو برباد کرنے کی بجائے اس سے ادارے کو استحکام دیا۔ انہوں نے بہت صبر سے اس طرح اپنی تنظیم کی تمعیر کی کہ وہ اب چندوں سے بھی کافی حد تک بے نیاز ہیں۔ وہ فلاحی کاموں کو اپنے وسائل سے فنڈ کر سکتے ہیں۔ کچھ بڑے کاروبار بالخصوس اناج یعنی گندم چاول مکئی وغیرہ میں ان کے متعلقین کا شئیر پنجاب حکومت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔

حافظ سعید کا جو چہرہ دنیا دیکھتی ہے وہ ایک عسکری تنظیم کے سربراہ کا ہے۔ ان کے فلاحی کاموں سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ ہزاروں تربیت یافتہ کارکنوں کو انہوں نے مختلف کاموں میں مشغول کر رکھا ہے۔ کسی قسم کی ریاستی زور زبردستی جنہیں بری طرح مشتعل بھی کر سکتی ہے۔ یہ اشتعال اس لئے سامنے دکھائی دیتا ہے کہ حافظ سعید نے پاکستان کے اندر کبھی کہیں ریاست کو چیلنج نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی مل کر چلے ہیں۔

ہماری ریاست ایک سنجیدہ صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ حرکت المجاہدین کا تجربہ سامنے ہے۔ اس کا دہرائے جانے کا امکان ہی بہت خوفناک ہے۔ ہماری ریاست دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتی ہے اس لئے ان کے مطالبوں پر عمل کر رہی۔ ہماری مشکلات کو دنیا کتنا سمجھ رہی ہے ہمیں کتنی سپیس دی جائے گی اسی سوال کے جواب پر آئندہ صورتحال کا انحصار ہے کہ حافظ سعید ہمیں اب اور کتنا پھنسائیں گے؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments