ڈاکٹر سلیم اختر کے بچپن کی یادیں


\"\" میری باقاعدہ یادیں 1939ء سے شروع ہوتی ہیں۔ اس زمانہ میں ہم فلیمنگ روڈ کی ایک بند گلی کے آخری مکان میں رہتے تھے۔ اس سے اگلی گلی ٹھنڈی کھوئی والی کہلاتی تھی اور تھوڑا آگے جا کر سبزی منڈی آ جاتی تھی۔ ایک طرف قلعہ گوجر سنگھ کا چوک اور دوسری جانب حضرت شاہ ابو العلی کا مزار۔اسی گلی میں تاجور نجیب آبادی کے رسالہ ’’شاہکار‘‘ کا دفتر تھا۔ ان کا ایک بیٹا عرشی میرا ہم عمر اور دوست تھا۔ یہیں اختر شیرانی بھی بیٹھتے تھے اور ابا جی بھی۔ یہ مجھے اس لئے یاد ہے کہ کئی مرتبہ آپا جی نے وہاں سے ابا جی کو بلوانے کے لئے مجھے اس دفتر میں بھیجا۔ اسی طرح وہاں ایک نائی کی دکان پر بھی بعض اوقات یہ لوگ بیٹھتے۔ میں ایک مرتبہ ابا جی کو نائی کی دکان سے بلانے کے لئے آیا تو اختر شیرانی کہہ رہے تھے:

مرتے ہیں جس سلمیٰ پہ وہ سلمیٰ ہی اور ہے

میں نہیں جانتا یہ مصرعہ کیوں میرے ذہن میں اٹک گیا حالانکہ نہ میں مرنے کا مطلب سمجھتا تھا اور نہ ہی سلمیٰ کا!

اس دور کی بہت سی باتیں واضح طور پر ذہن میں ہیں۔ جیسے مجھے کسی کے گھر کی سیڑھیوں پر سے اکنی مل گئی‘ گھر جا کر آپا جی کو خوشی خوشی دکھائی تو انہوں نے سمجھایا کہ یوں کسی کے گرے ہوئے پیسے نہ اٹھانے چاہئیں۔ میں جاؤں اور وہیں پر رکھ کر آؤں جہاں سے اکنی اٹھائی تھی۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔میں نے پڑوسن کو جا کر کوئی ایسی بات کہہ دی جو خاصی نازیبا تھی چنانچہ ابا جی نے ٹھیک ٹھیک پھینٹی لگائی۔میں سکول کے ساتھ چڑیاگھر گیا مگر سب سے بچھڑ کر راستہ بھول گیا اور پھر دھکے کھاتا نہ جانے کیسے خودبخود گھر پہنچ جاتا ہوں مگر پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کر آپا جی پکارتا ہوں اور پھر بے ہوش ہو جاتا ہوں۔

بازار سے دودھ لاتا ہوں لیکن راستہ میں گرا دیتا ہوں اور پھر سیڑھیوں میں کھڑا روتا رہتا ہوں کہ دودھ گرا دینے پر پٹائی ہو جائے گی۔نسیم سے میری لڑائی ہوئی ہے‘ میں چھوٹی قینچی سے اسے زخمی کر دیتا ہوں اور پھر روتا ہوں کہ اب کیا ہو گا‘ مجھے سزا ملے گی‘ قینچی کی صرف نوک چبھی تھی زخم نہ تھا لیکن میں ہراساں تھا۔

اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو ہماری گلی اور ٹھنڈی کھوئی والی گلی کے درمیان خالی قطعہ پر قبریں تھیں۔ میں ان قبروں پر نظریں جمائے بیٹھا رہتا‘ میں سوچتا مرنے کے بعد یہ سب اﷲ میاں کے پاس چلے گئے‘ اﷲ میاں کیسے ہوں گے۔ لمبا قد‘ گورا رنگ اور لمبی سفید داڑھی۔ اس سے زیادہ کی میری کمزور تخیل میں سکت نہ تھی۔

خوب بارش ہوتی ہے۔ گلی میں پانی کھڑا ہے۔ سب بچوں کے ساتھ مل کر میں بھی اس پانی میں نہاتا ہوں۔ گھر آیا تو ڈانٹ پڑی۔ گندے پانی میں نہانے سے بیمار ہو جاؤ گے۔ اس کے بعد گلی میں جا کر بارش میں نہانے کی حسرت ہی رہی۔ اب تک!

ابا جی گھر میں ایک رسالہ لاتے ہیں۔ یہ بچوں کا پرچہ ہے۔ نام تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ سروق پر ایک جھنڈے کے گرد بچوں کا دائرہ بنا تھا۔ ادب سے میری اولین شناسائی تھی۔

میرے چچا عبدالرشید کوٹھے پر پتنگ اڑا رہے ہیں۔ میں ڈور کا پنا پکڑے کھڑا ہوں۔ خود بھی گھر والوں کی آنکھ بچا کر گڈیاں اڑا رہا ہوں۔

میں ابا جی اور آپا جی کے ساتھ سینما ہال میں ہوں۔ فلم کا نام تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ فلم میں دروازے کھلتے اور بند ہوتے ہیں‘ سفید لباس میں ایک روح ہے‘ جوان دروازوں میں سے گزر رہی ہے‘ ساتھ ایک نوجوان ہے‘ وہ روح اسے کچھ سمجھا رہی ہے۔ میں سخت خوفزدہ ہوں۔ شاید ڈر کے مارے روتا بھی ہوں۔

پہلا اور لاڈلا بچہ تھا اس لئے کسی ایسے ویسے سکول میں کیسے داخل کرایا جاتا۔ چنانچہ مجھے انگریزی سکول میں داخل کرایا جاتا ہے۔ اگر میں نام میں غلطی نہیں کر رہا تو اس کا نام سٹینڈرڈ سٹی ہائی سکول تھا اور یہ میکلوڈ روڈ پر تھا۔

کلاس میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اودے اودے‘ نیلے نیلے‘ پیلے پیلے ربنوں والی لڑکیاں اور نیکروں میں لڑکے‘ لڑکے کیا‘ احمق! جنہیں ساتھ بیٹھنے والی لڑکی کی افادیت کا اندازہ نہ تھا۔ اس ضمن میں کوئی خاص تاثرات میرے ذہن میں نہیں ہیں۔ کیا میری کسی لڑکے یا لڑکی سے کوئی خاص دوستی تھی؟ غالباً نہیں! ہاں! یہ یاد ہے کہ ایک ہندو لڑکے کا گھر سکول کے سامنے گلی میں ہے‘ وہ مجھے اپنے گھر لے جاتا ہے‘ ایک معمر عورت ہمیں دودھ پلاتی ہے۔

میں خاصا نالائق طالب علم ثابت ہوتا ہوں۔ نہ انگریزی آتی ہے نہ ریاضی‘ بس میں ڈانٹ کھاتا رہتا ہوں۔ ساتھ بیٹھنے والی لڑکی سے لڑتا رہتا ہوں۔ اس کے کپڑوں پر روشنائی پھینک دیتا ہوں۔اسی سکول میں میں نے وہ پہلی لڑکی دیکھی جو مجھے اچھی لگی۔ یہ میں آج سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے اچھی لگی۔ اس عمر میں تو اچھی لگنے کا مطلب بھی معلوم نہ تھا۔ وہ میری کلاس فیلو نہ تھی‘ جوان لڑکی تھی۔ میں آج بھی آنکھیں بند کروں تو اس کا نیلا فراک اور سینہ سے لگائی کتابیں دیکھ سکتا ہوں۔ اس سے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ میں محض ’’چھوٹا‘‘ تھا۔ اس اسے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ اس کی وجہ سے مجھے نیلا رنگ پسند رہا اور مدتوں تک عیسائی لڑکیوں کے بارے میں عجب طرح کا تاثر رہا ہے۔ میرے ابتدائی دور کے بیشتر افسانے عیسائی لڑکیوں کے بارے میں تھے۔ یہ اسی تاثر کی وجہ سے تھا۔ کالج کے زمانہ میں ایک عیسائی لڑکی کے چکر میں بھی رہا۔ لیکن یہ الگ قصہ ہے!

1939ء میں عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی لیکن بچوں کا اس جنگ سے کیا تعلق؟ ابا جی ملٹری اکاؤنٹس میں تھے۔ سو اگلے برس یعنی 1940ء میں انہیں مڈل ایسٹ بھیج دیا گیا اور ہم اپنی پھوپھی رشیدہ کے پاس فورٹ سنڈیمن میں رہنے کے لئے آ گئے۔ پھوپا ایم سی ایس میں تھے اور ان دنوں وہاں تعینات تھے۔ باپ دور تھا، ماں کا لاڈلا، پڑھتا کیسے سارا سال آوارہ گردی میں گزرا۔

اس زمانہ کا فورٹ سنڈیمن بلوچستان کا چھوٹا سا قصبہ تھا‘ انگریزی عمل داری کی آخری حد‘ اس کے بعد آزاد علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ وہاں کی صرف ایک یاد محفوظ ہے بصورت بچھو! سیاہ رنگ کے خاصے لمبے بچھو‘ اتنے عام کہ شریر لڑ کے انہیں پکڑ کر دھاگے میں باندھ کر ایک دوسرے کو ڈرایا کرتے۔ ہفتہ میں‘ ایک آدھ بچھو مار لینا گویا معمولات میں شامل تھا۔ آپا جی نے پہننے سے پہلے جوتی اٹھائی تو اندر سے بچھو نکل آیا۔ میں دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ اوپر نگاہ کی تو سیاہ بچھو زہر بھری مالا اٹھائے چلتا نظر آیا۔ میں بچھو بچھو چلاتا بھاگا۔

دوسری یاد ملیریا کی ہے۔ شدید کپکپی سے بخار چڑھتا اور کونین کی سرخ کڑوی دوا پینی پڑتی۔ میں نے اتنی کونین پی‘ اتنی کونین پی‘ کہ کڑواہٹ کے تلخ ذائقہ کا احساس ہی ختم ہو گیا‘ کونین غٹاغٹ پی جاتا۔ منہ کی کڑواہٹ دور کرنے کو نہ چینی لیتا نہ نمک۔ یہ وہ ابتدائی ’’ٹریننگ‘‘ تھی جو اب کام آ رہی ہے یعنی نہ بچھو صفت لوگوں سے ڈر لگتا ہے اور نہ ہی گالیوں کی کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔

ہاں یاد آیا‘ فورٹ سنڈیمن ہی میں میں نے پہلا کیمرہ خریدا‘ یہ کوڈک کا باکس کیمرہ تھا‘ قیمت صرف دس روپے‘ اب تو قیمت سن کر ہنسی آتی ہے مگر اس زمانہ میں دس روپے خاصی معقول رقم تھی۔

میں دن بھر لڑکوں کے ساتھ‘ پہاڑیوں پر کھیلتا رہتا‘ کوئی روک ٹوک نہ تھی‘ اول تو لاہور ہی میں کوئی ایسا عالم فاضل نہ تھا مگر سال بھر کی خالص آوارہ گردی نے بالکل ہی چوپٹ کر دیا۔ ہاں! فوٹو گرافی خوب کی‘ اب سوچتا ہوں کیا پدی کا شوربہ کیا اس کی فوٹوگرافی۔ اتفاق سے اس زمانہ کی اتاری ہوئی تصاویر میں سے ایک آدھ محفوظ رہ گئی ہیں۔

مجھے فوٹوگرافی کا مدتوں شوق رہا۔ آؤٹ ڈور مناظر اور چہروں کے کلوزاپ‘ یہ خاص دلچسپی تھی میری! معلوم نہیں آج کل فورٹ سنڈیمن کیسا ہے اس زمانہ میں تو ہر طرف انگوروں کی بیلیں نظر آتیں‘ لڑکے سارا دن ان بیلوں پر چھاپے مارتے اور جھولیاں بھر بھر انگور کھاتے۔ دراصل چوری چوری انگور توڑنا کھانے کے لئے کم تھا۔ یہ ایک طرح کا کھیل بلکہ ایڈونچر تھی۔ انگور کھٹے ہوتے تو پھینک دیتے مگر انگور کی بیلوں پر دھاوا مارنے سے باز نہ آتے۔

ایک سال بعد اگست 1941ء میں ابا جی مڈل ایسٹ سے واپس آئے تو ان کی پوسٹنگ پونا میں ہوئی۔ کچھ عرصہ ہم زبیدہ پھوپھی کے ہاں بمبئی میں مقیم رہے۔ غالباً بھنڈی بازار کے قریب فلیٹ تھا۔ یہاں ابا جی کا جے جے ہسپتال میں ہرنیا کا پہلا آپریشن ہوا۔ ہسپتال کا نام اس لئے یاد ہے کہ ابا جی کو کھانا دینے میں ہی جاتا تھا۔ ٹھیک ہو جانے کے بعد ایک دن ابا جی نے سارے دن کے لئے ٹیکسی لی اور تمام بمبئی کی سیر کرائی۔ بمبئی میں بھی آزاد پھرتا رہا۔ کئی ماہ بعد ابا جی نے پونے میں رہائش کا بندوبست کیا اور ہم بمبئی سے چلنے والی ٹرین ’’دکن کوئین‘‘ سے پونے وارد ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments