اردو میں طفیلی صحافت اور سرقے کا بڑھتا ہوا رجحان


\"\"

عنوان میں ”طفیلی صحافت“ کا لفظ دیکھ کر بہت سے قارئین چونک سکتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے، سب سے پہلے اس کی تشریح کر دی جائے، کہ یہاں یہ اصطلاح کیوں کر استعمال کی گئی ہے اور اس کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ ”طفیلی صحافت“ دراصل انگریزی کے ”پیراسائٹ جرنلزم“ کا اردو ترجمہ ہے، جو ”حیاتیات“ کے لفظ ”پیراسائٹ“ سے ماخوذ ہے۔ سائنس میں پیرا سائٹ (طفیلی وجود) اس کیڑے کو کہا جا تا ہے، جو کسی دوسرے نامی وجود کے اندر یا اس سے وابستہ رہ کر گزر بسر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مفت خور کیڑے دوسرے اجسام پر پرورش پاتے ہیں اور انھی سے خوراک حاصل کرتے ہیں، جو حرکت کرنے، تلاش کرنے، محنت و جست جو کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ لغت میں”پیراسائٹ“ کے معنی حرام خور، ٹکڑ خور، کاسہ لیس ، لیموں نچوڑ، طعام تلاش، اور ہر دیگی چمچے کے بھی ہیں۔ (تفصیل کے لیے پروفیسر کلیم احمد کی مرتب کردہ ”جامع انگلش اردو ڈکشنری“ کی صفحہ نمبر 249 اور ”آکسفورڈ اردو انگلش ڈکشنری“ کے صفحہ نمبر 1187 دیکھیے)
آج کی اردو صحافت میں مفت خوری کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے جینوین اور معتبر صحافی پریشان ہیں ۔ یہ مضمون اسی صورت احوال کو پیش کرنے کی ایک کوشش ہے تا کہ قارئین بھی اس حقیقت سے آ گاہ ہوسکیں۔

راقم کو گئے دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلباء کی جانب سے منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، تو دہلی کے کئی معتبر صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ وہیں اردو کے ایک سینئر صحافی دوست سے بھی ملاقات رہی۔ باتوں ہی باتوں میں میں نے ان دنوں ان کے قلم میں ٹھہراو اور جمود کی بابت دریافت کی تو درد بھرے انداز میں وہ گویا ہوئے: ”کیا لکھوں؟ اردو میں مفت اور ٹکڑ خور صحافیوں کی اس قدر بہتات ہو گئی ہے کہ لکھنے پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک معیاری مضمون لکھنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں، کتنا مطالعہ اور کس قدر ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ایک ایمان دار اور معتبر لکھاری ہی سمجھ سکتا ہے۔ اردو میں لکھنے سے یوں بھی کچھ معاوضہ وغیرہ تو ملتا نہیں۔ اوپر سے آپ کی محنت کو بھی سرقہ کر لیا جائے یا دوسرے کی محنت کو اپنا بنا لیا جائے تو محنت و جست جو کرنے والے پر کیا گزرے گی، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیال اور نظریہ تو جانے دیجئے لوگ ڈیٹاز اور جملے بل کہ پیراگراف تک اچک لینے اور من و عن نقل کر لینے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اس میں چھوٹے نہیں بل کہ بزعم خویش خود کو اردو کا بڑا صحافی کہلوانے والے افرادشامل ہیں۔“
ابھی میرے دوست کی بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسی درمیان ایک ہندی ویب سائٹ چلانے والے ہمارے دوسرے دوست آگئے اورانھوں نے بتایا کہ ان کی چیزوں کو دھڑلے سے اردو اخبارات، برسوں سے من و عن نقل کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں بار بار متوجہ کرنے کے باوجود کریڈٹ دینا تو درکنار وہ ویب سائٹ کا شکریہ ادا کرنا، یا اس کا حوالہ تک دینا مناسب نہیں سمجھتے۔

اسی سے ملتی جلتی باتیں اوکھلا سے انگریزی کی ایک ویب سائٹ چلا نے والے صحافی نے بھی بتائیں کہ اوکھلا کے کئی صحافی ان کی ویب سائٹ سے خبریں ترجمہ کر کے اپنے اداروں کو ارسال کر تے ہیں، جس میں باضابطہ وہ اپنا نام بھی ڈال دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں جب ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو جواب دیتے ہیں ”ارے بھئی سب چلتا ہے۔“ ان کے بقول ان صحافیوں کے بارے میں انھوں نے متعلقہ اخبارات کے ذمہ داران سے شکایت بھی کی لیکن وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔
اس بابت راقم کا اپنا مشاہدہ بھی دل چسپ ہے۔ ایسے متعدد شواہد موجود ہیں جس کے مطابق اردو اخبارات کے کئی مدیران خود اس قسم کی حرکتوں اور غلط کاریوں میں ملوث ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے نمایندوں کے خلاف کوئی کارروائی کر نے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ گزشتہ کئی سالوں سے خصوصاً ”انٹرنیٹ“ کی آمد کے بعد اس میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا۔ انٹرنیٹ کی آزاد فضا نے ایسے عناصر کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ ا س کی وجہ سے حقیقی قلم کاروں کا فقدان جب کہ مفت خوروں، ہر دیگی چمچہ اور ٹکڑ خور صحافیوں کی بہتات ہوتی چلی گئی۔ اس سلسلہ میں بعض صحافی تو مہارت بل کہ ملکۂ تامہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی عادت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ آپ انھیں لاکھ توجہ دلائیں وہ اپنی”عادات شریفہ“ تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔

حال ہی میں دہلی سے نکلنے والے ایک اردو اخبار کے مدیر نے میری کتاب ”مسلم مجلس مشاورت: ایک مختصر تاریخ“ اشاعت کردہ فیروس میڈیا ہاوس، دہلی سے من و عن تقریباً تین پیراگراف اپنے مضمون میں سرقہ کرتے ہوئے شامل کر لیا جب کہ مذکورہ مدیر نے اپنے اُس مضمون کا مرکزی خیال بھی میری کتاب ہی سے اُڑایا یا چرایا۔ اسے توارد کہاجائے، یاعمداً خیالات کے سرقہ کا نام دیا جائے، یہ تو اہل نظرہی بہ تر بتا سکتے ہیں۔ بہ ہرحال نقل شدہ تین پیرا گراف کی، موصوف کے مضمون میں بغیر کسی حوالہ کے شمولیت پر میں نے احتجاج درج کراتے ہوئے انھیں میل ارسال کیا کہ آخر انھوں نے ایسا کیوں کیا ؟ حوالہ کے ساتھ متذکرہ حصہ کو شامل مضمون کرنے میں مضائقہ کیا تھا؟ لیکن اخلاقی پستی کی انتہا دیکھیے کہ انھوں نے میل کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
ابھی حال ہی میں اردو کے ایک صحافی نے اپنے اخبار کا ایک مکمل صفحہ فیس بک پر اپلوڈ کیا، جس میں نمایاں طور پر مترجم کا نام تو تھا، لیکن مضمون نگار کا نام غائب تھا۔ مذکورہ مدیر کو فیس بک کے ذریعہ ہی توجہ دلائی گئی اور پوچھا گیا کہ آخر یہ کیا ہے؟ کیا ہندی سے اردو میں رسم الخط کی منتقلی کو ترجمہ نگاری کہیں گے؟ اور اگر اسے مترجم کی محنت مان بھی لی جائے تو تخلیق کار سے زیادہ مدیر محترم کا محض خوداپنے نام کو نمایاں کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ حالاں کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ مترجم کے بجائے اصلی لکھاری کو نمایاں کیا جاتا لیکن یہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آ رہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر آپ نے صحافت کے کن اصولوں کے تحت تخلیق کار کا نام غائب کرنا مناسب سمجھا؟ موصوف نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ آیندہ اس کا خیال رکھا جائے گا، اس کے بعد پھر ان کے اخبار میں ایسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں تو آخر ان کے اس بے حسی پر مبنی رویے کو کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں یا پھر یہ ان کے نزدیک کوئی عیب ہی نہیں ہے۔

چند سال قبل ایک بڑے کارپوریٹ روزنامہ کے ادارتی صفحہ پر بھی ایسے ہی معروف ہندی اخبار ”نو بھارت ٹائمز“ کے کالم نگار کا ایک مضمون اردو کے ایک نام ور صحافی کے نام سے شائع ہوا۔ اس بابت اخبار کے مدیر کو اطلاع دی گئی تو وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہو ئے کہ ان کے ادارے کا کوئی شخص اتنی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے، لیکن مدیر موصوف کو ہندی اخبار کے تراشے اور لنک کے ساتھ ثبوت فراہم کیا گیا تو وہ لاجواب ہو گئے اور بغلیں جھانکتے نظر آئے۔ سننے میں آیا ہے کہ بغلیں جھانکنے والے مدیر اور دوسرے کا مضمون چرانے والے صحافی اب دونوں دہلی میں الگ الگ اخبار کے مالک بھی بن گئے ہیں۔
ایک ہفت روزہ اردو اخبار سے وابستہ سینئر صحافی نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے یہاں بیش تر خبریں انگریزی اور ہندی اخبارات کے تراشوں کو بنیاد بنا کر ڈیسک میں تیار کی جاتی ہیں، جس میں فرضی نام ڈال دیا جاتا ہے تا کہ لوگوں کو محسوس ہو کہ اس اخبار کے نمایندے بیرون ممالک میں بھی ہیں۔ ان کے بقول مدیر کی فرمائش پر وہ خود بھی اس قسم کی خبریں بناتے ہیں اور دل چسپی پیدا کرنے کے لیے اپنی طرف سے کچھ فرضی اور من گھڑت باتیں ملا دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اصل کا احساس ہو۔ انھوں نے فلسطین کے بارے میں ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قاری کو ”سچ“ کا احساس دلانے کے لیے وہ انٹرنیٹ سے شہروں، گلی، کوچوں اور کلب وغیرہ کا نام نکال لیتے ہیں اور پرانی دلی کی طرح گنجلک اور گھنی آبادی جیسے الفاظ کا تذکرہ کرتے ہوئے، اسٹوری تیار کر دیتے ہیں۔ اس سے عام آدمی کو لگتا ہے کہ اسٹوری کے لیے ہمارا نمایندہ بذات خود وہاں موجود تھا اور اس نے براہ راست وہاں سے یہ خبر لکھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کیے لیے وہ بہت سارے بے بنیاد مفروضے بھی قائم کرتے ہیں، تا کہ اسٹوری کو مسالے دار بنا سکیں۔

ہندُستان کے اردو اخبارات میں پاکستانی صحافیوں کے مضامین خصوصا بین الاقوامی تناظر میں لکھی جانے والی تحریروں کی چوری کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس سلسلے میں بعض صحافی تو اتنے دلیر ہیں کہ انٹرنیٹ کے اس عہد میں بھی پاکستان کے بعض قلم کاروں کے مضامین سرقہ کرتے ہوئے، اپنے نام سے شائع کر لیتے ہیں۔ بعض اردواخبارات کے ذمہ داران کی حماقت کی انتہا تب ہوتی ہے،جب وہ پاکستانی قلم کاروں کے ذریعہ ہندُستانی کشمیرکے حوالہ سے لکھی گئی تحریروں کو اپنے اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔ ”مقبوضہ کشمیر“ کی اصطلاح یوں توہمارے یہاں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے لیے رائج ہے، لیکن بہت بار ہندوستان کے اردو اخبارات میں ”مقبوضہ کشمیر“ ہندُستانی کشمیر کے لیے بھی مستعمل ہورہا ہے۔ یعنی یہ مدیران ایسے مضامین کو ایڈٹ نہیں کرتے اور اس کو ویسے ہی اپنے صفحات میں بلا کسی نوٹ یا شذرہ کے شائع کر دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ اخبارات ہندی اخبارات کے اداریوں کو دوسرے دن اپنے اخبار کا اداریہ بنا کر چھاپ لیتے ہیں۔ بعض ہندی کے اخبارات انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبارات کا ترجمہ کر کے اپنے اخباروں میں اِسے چھاپنے کے بھی عادی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ اخبارات مستقل ہندی اخبارات کے ترجمے ‘”نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے“ کے مصداق کچھ اس طرح اپنے یہاں نقل کرتے ہیں جیسے کہ یہ اُن کی اپنی اشاعتی تحریر ہو!
ابھی کچھ عرصہ قبل تک اردو کے بعض صحافی اپنی تحریروں میں انگریزی مضامین کا تذکرہ کرنا اور اس کا حوالہ دینا اپنے لیے باعث افتخار تصور کرتے تھے۔ حالاں کہ یہ بھی طفیلی صحافت ہی کے زمرے میں آئے گا کہ خود محنت نہیں کرتے اور دوسروں کی تحقیق کو اپنے مضمون میں شامل کر لیتے ہیں، یا ترجمہ کر کے اپنا بنا لیتے ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے، اب اس کا رواج ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی سہولت عام ہونے کے بعد اس سے زیادہ قبیح حرکت شروع ہوئی ہے اور اب یہ عناصر ہندی قلم کاروں کے مضامین گوگل کا سہارا لے کراردو رسم الخط میں تبدیل کر کے بڑی تعداد میں اپنے نام سے شائع کرا رہے ہیں۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مضامین، کالم اور اداریے جو ایک دانش ورانہ اور اعلیٰ سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ لوگوں کے افکار اور اذہان کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جو ادارے کی پالیسی کوبھی واضح کرتے ہیں، جب یہاں اس قدر گھپلا اور بدعنوانی ہے تو فیچر یا خبروں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ اس بارے میں کئی معتبر صحافی بتاتے ہیں کہ اردو اخبارات میں ایجنسیوں کے علاوہ ننانوے فی صد سے زیادہ خبریں چوری کی ہوتی ہیں، جو ڈیسک میں بیٹھ کر تیار کی جاتی ہیں، جس میں سے زیادہ تر خبریں ہندی ویب سائٹوں سے اخذ کی جاتی ہیں۔ مشینی ترجمہ کی وجہ سے بعض ایسی فاش غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جسے بجا طور پر اردو مدیران کی حماقت، سست روی اور مفت خوری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اِن مدیران کے اِنھیں رویوں کی وجہ سے اردو میں کہیں گوگل کے سی او ”سندر پچائی“ کو ”خوب صورت پچائی“، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کو ”نرم سنگھ یادو“، وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاویڈکر کو ”روشنی جاویڈکر“، رکن اسمبلی (بی جے پی) سنگیت سوم کو ”موسیقی سوم“، راجا اشرف کو ”بادشاہ اشرف“ اور انکشاف کی جگہ ”خلاصہ“ لکھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ یو این آئی جیسے معتبر اداروں کی خبروں میں بھی اکثر ایسی فاش غلطیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ ایک طرف یہ شکایت کی جاتی ہے کہ لوگ اردو اخبار ات نہیں پڑھتے، دوسری طرف مدیران اور ذمہ دارانِ صحافت اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ہر وہ کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے جو اخلاقیات اور صحافیانہ اقدارکے منافی ہے۔ پھر لوگ آپ کا اخبار کیوں پڑھیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اخلاقیات کا درس یہی اردو اخبارات دیتے ہیں اور ان کا ہی رویہ قابل مواخذہ بن کرابھرتا ہے۔

بد قسمتی سے اردو میں اس جانب نہ تو سنجیدہ طبقہ کوتوجہ دینے کی فرصت ہے اور نہ ہی تنقید نگار اور دانش وروں کا طبقہ اس پر بحث کر رہا ہے کہ آخر اس پر لگام کیسے لگائی جائے؟ مغربی مفکرین اس پر عرصے سے غور و فکر کر رہے ہیں اور وہ اس کے حل کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں انگریزی میں اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو لوگ اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ ان کے خلاف اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں، لیکن اردو میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے اخلاقی حدود کو پار کرجانے والے ایسے افراد مزید حوصلہ مندی کا ثبوت دینے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ رویہ سرقہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس سلسلہ میں بی بی سی کرنٹ افیئر پروگرام کے میزبان اور معروف ٹیلے ویژن پروڈیوسر ولارڈ فوکسٹن نے اپنے ایک مضمون جو انتیس جولائی دو ہزار تیرہ کو ”اسٹیٹس مین“ میں شائع ہوا ہے، میں اس طفیلی صحافت کو سرقہ سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک قرار دیا ہے۔
فاضل مضمون نگار کہتے ہیں: ”میرے خیال میں یہ رویہ سرقہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے جس میں لوگ دوسروں کی محنت کو اپنے نام کر لیتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق طفیلی کیڑا جہاں سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے، اُس کو وہ ہلاک نہیں کرتا اور نہ ہی نقصان پہنچاتا ہے، لیکن یہاں دیر یا سویر وہ اصل لکھاری ہلاک ہو رہا ہوتا ہے۔ اس میں ایسا ہوتا ہے کہ اصلی قلم کار مال تیار کرتا ہے، جس کا استعمال بغیر کسی محنت کے طفیلیہ کر لیتے ہیں، یعنی کہ تخلیق کار کے لیے کچھ نیا تخلیق کرنا زیادہ منہگا ہو جاتا ہے، بہ نسبت کاسہ لیسوں کے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایمان دارانہ رویے کے ساتھ صحافیانہ تخلیقیت کو جنم دیں، تاکہ نئے افکار کو تابندگی ملے اور زیادہ سے زیادہ تخلیقیت پروان چڑھے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم جلد ہی صحافت کو اور بھی قعر مذلت میں دھکیل دیں گے۔“

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments