ہر مطلق العنان تحریک کو ایک دشمن چاہیے ہوتا ہے


\"\"

ہر مطلق العنان تحریک کو ایک دشمن چاہیے ہوتا ہے جس کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کر کے وہ تحریکیں اپنا جواز حاصل کرتی ہیں کہ اگر اس دشمن کو ختم کر دیا جائے تو سب دکھ مٹ جائیں گے اور اسی دنیا میں ہی ازلی جنت قائم ہو جائے گی

فاشزم کے لئے ولن یہودی تھے کیونکہ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سارے جرمنی کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ کہ ان سے جراثیمی وبائیں پھیلتی ہیں جو جرمنی میں تمام امراض کا سبب ہیں۔

لینن سٹالن اور ماؤ کے لئے ولن سرمایہ داری نظام تھا کیونکہ انہوں نے سارے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے اور دنیا کے تمام مسائل کی وجہ محض یہ سرمایہ دار ہیں اور ان کا نظام ہے۔

نیشنلزم کے لئے یہ ولن سرحد پار بیٹھے عوام یا ادارے ہوتے ہیں اگر انہیں کسی طرح ختم تر دیا جائے یا زیرنگیں ہو جائیں تو سب مسائل ختم ہو جائیں۔

دور جدید میں انتہائی دائیں بازو کی نیشلسٹ، نسل پرست، مرچنسٹالسٹ اور غیر لبرل تحریکوں کو دوبارہ سے سر اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ ان کے مطلق العنانیت پسند نظریات کے لئے بھی ایک ولن موجود ہے مسلمان، اگر ان کا سر کچل دیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر فری ٹریڈ اور امیگریشن پر پابندی یا کنٹرول لگا دیا جائے تو ہر طرف خوشحالی ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

زیر نظر مضمون Ian Buruma کا ہے جو انہوں نے پروجیکٹ سنڈیکٹ کے لئے لکھا ۔ Ian Buruma نے اس مضمون میں ہٹلر اور نازیوں کی یہود دشمنی اور دور حاضر میں ٹرمپ اور اس کے مذہبی و نسل پرست فاشسٹ حلیفوں کی مسلم دشمنی کا موازنہ کیا ہے۔ Ian Buruma جمہوریت انسانی حقوق اور صحافت کے بارڈ کالج میں پروفیسر ہیں، کئی کتابوں کے انتہائی مقبول مصنف ہیں۔ آیئے ترجمہ پڑھتے ہیں۔


\"\"

ان لوگوں کو اب خوش ہو جانا چاہیے جو ہمیں بتاتے رہے ہیں کہ صرف جہادی اسلام نہیں بلکہ سارا کا سارا اسلام مغربی تہذیب کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر اور اس کے مشیران خاص ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل مائیک فلن کے الفاظ ہیں ”مسلمانوں کا خوف حقیقی ہے“ ۔ سٹیفن بینن، انتہائی دائیں بازو کے ادارے Breitbart News کےسابق ایگزیکٹو چیئرمین اور اب ٹرمپ کے چیف پولیٹیکل اسٹریٹجسٹ اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے رکن ہیں، لکھتے ہیں : ”یہودیوں اور عیسائیوں کے مغرب“ کے خلاف اسلام ایک عالمی جنگ لڑ رہا ہے۔

ٹرمپ کا انتخابی وعدہ ”سب سے پہلے امریکہ“ 1930 کے امریکی تفریدیوں (isolationists ) سے مستعار شدہ ہے جن کا بہت ہی مقبول ترجمان چارلس لنڈبرگ تھا جو یہود دشمنی میں بہت ہی بدنام تھا۔ جس کا کہنا تھا کہ یہودیوں اور لبرلز نے امریکہ کو ہٹلر کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ہے۔ وہ ہٹلر کو بہت پسند کرتا تھا۔ لنڈبرگ کو یقین تھا کہ ” ہم اس وقت تک امن اور سیکورٹی نہیں پا سکتے جب تک کہ ہم غیر ملکی افواج کے حملوں اور غیر ملکی نسلوں کی آمیزش سے خود کو محفوظ نہ کر لیں“۔

اسی طرح ”سب سے پہلے“ امریکہ کا نعرہ اپنے ڈی این اے میں نسل پرستی کا عنصر رکھتا ہے۔ کیا اسلام سے متعلق وائٹ ہاؤس میں مورچہ بند خیالات 1930 کی یہود دشمنی سے کسی طرح مماثلت رکھتے ہیں؟ کیا بینن، فلین، اور ٹرمپ کے خیالات اسی پرانے تعصب کی نئی اور سادہ شکل ہیں اور اس نے ایک گروہ کی دشمنی کو دوسرے گروہ سے بدلا ہے؟

بلکہ شاید یہ ایک دوسرے سے تبدیل بھی نہیں ہوئے۔ حالیہ ”یوم ہولوکاسٹ یاد آوری (Holocaust Remembrance Day )“ کے اپنے بیان میں ٹرمپ نے یہودیوں کا یا یہود دشمنی کے مخالف بیانیہ (Anti Semitism) کا کوئی ذکر نہیں کیا جو کہ انتہائی عجیب بات ہے۔ اسی طرح اپنی الیکشن کمپین میں ٹرمپ نے نمایاں یہودیوں جیسا کہ ”جارج سورس“ کے خلاف یہ الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے زوال کی سازش کر رہے ہیں، ٹرمپ کی یہ دھمکی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔

اس کے باوجود بھی 1930 اور آج کے حالات میں کچھ حد تک واضح فرق ہے۔ اس وقت یہودیوں کی کوئی بھی عسکری انقلابی تحریک نہیں تھی جو اپنے عقیدہ کے نام پر جہاد کر رہی ہو۔ نہ ہی یہودی اکثریت پر مبنی کچھ ممالک ایسے تھے جن کا مغرب کے خلاف رویہ معاندانہ ہو۔

مگر کل کی یہود دشمنی اور آج کی مسلم دشمنی کے درمیان کچھ واضح یکسانیت بھی ہے۔ ایک یخ بستہ حقیقت دشمن کے ادراک سے متعلق بائیولوجیکل زبان کا استعمال ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کو زہریلے نسلی جراثیم کہا تھا۔ ایک پمفلٹ کا عنوان تھا ”یہودی عالمی طفیلیے ہیں“، اس پمفلٹ کو نازیوں نے بڑی تعداد میں تقسیم کیا تھا۔ فرینک گیفنی ٹرمپ کے اردگرد موجود ”نسل اور قوم پرست“ لوگوں میں ایک بااثر نام ہے۔ اس نے مسلمانوں کو دیمک قرار دیا ہے جو ان کی سول سوسائٹی اور اداروں کو چاٹ رہے ہیں۔

جب انسانیت کو طفیلیوں، جراثیموں اور مضر صحت دیمک میں تقسیم کیا جاتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا دور نہیں رہتا کہ انہیں اپنی سماجی فلاح کے دفاع میں تباہ کر دینا چاہیے۔

تاہم وہ مظالم جو یہودیوں پر ڈھالے گئے اور دور حاضر کی مسلم دشمنی کے درمیان ایک اور فرق بھی ہے۔ جنگ عظیم سے پہلے کی یہود دشمنی کا رخ محض مذہبی یہودیوں کے خلاف نہیں تھا بلکہ (شاید بالخصوص ) یہ ان یہودیوں کے خلاف بھی تھا جو مذہبی نہیں تھے اور سماج میں جذب ہو چکے تھے اور جنہیں یہودیوں کی نمایاں نشانیوں سے پہچاننا آسان نہ تھا۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب نسلی کم محسوس ہوتا ہے مگر ثقافتی اور مذہبی زیادہ ہے۔

تاہم شاید یہ فرق بھی حقیقی سے ذیادہ ظاہری ہی ہو۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی یہود دشمن تحریکیں یہ سمجھتی تھیں کہ ایک یہودی ہمیشہ یہودی ہی رہے گا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دراصل وہ کس چیز پر یقین رکھتا ہے اور کس چیز پر نہیں۔ یہودی ہمیشہ اپنی نسل سے وفادار ہوتے ہیں۔ یہودی مذہب کو ایک روحانی عقیدہ سمجھنے کے بجائے ایک سیاسی ثقافت سمجھا جاتا تھا جو ان کے خیال میں مغربی تہذیب اور مغربی اداروں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ کہا گیا کہ یہودی ثقافت ان کے خون میں شامل ہے، جس کے دفاع میں یہودی ہمیشہ غیر یہودیوں سے جھوٹ بولتے ہیں۔

یہود دشمنی کے یہ خیالات نازیوں سے کہیں پہلے موجود تھے اور انہی افکار ہی کے سبب آزاد ناروے کے پہلے آئین کے تعلیم یافتہ مصنفین نے 1814 میں یہ قانونی مسودہ پیش کیا کہ یہودی ناروے کے شہری کبھی نہیں بن سکتے۔ یہودیوں کو شہریت کے حق سے باہر رکھنے کے لئے جو جواز اختیارکیے گئے انہیں روشن خیالی کے اصولوں کے دفاع کا نام دیا گیا۔ کہا گیا : یہودی ثقافت اور عقائد ناروے کی لبرل جمہوریت کو یقینا کمزور کر دیں گے۔

دور حاضر میں اسلام کے دشمن بعینہ اسی دلیل کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں : مسلمان غیر مسلم سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کا مذہب روحانی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ یہ بظاہر ترقی پسند نظر آتے ہیں مگر اصل میں یہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ گیفنی کے الفاظ میں ہمیں ان کے خفیہ اور تخریبی قسم کے جہاد سے ڈرنا چاہیے۔

اور اگر مسلمانوں اور یہودیوں کے مفروضہ سازشی تصورات کے ڈر اور تعصب میں یکسانیت ہے تب بھی ان دونوں کے نتائج میں عدم یکسانیت کا امکان زیادہ ہے۔ یہودی جن پر نازیوں نے الزام لگایا کہ یہ جرمنی کی بقا کے لئے خطرہ ہیں کے خلاف کارروائی ممکن تھی اور بعد میں ان کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ سوائے چند چھوٹی بے خوف بغاوتوں کے، یہودیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا کہ وہ نازیوں کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔

مگر مسلمانوں کے معاملہ میں جہادی اسلام ازم کے وحشیانہ تشدد کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی ممالک میں اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشتگردیوں سے مسلمان معاشروں میں بہترین انٹیلیجنس اور پولیس ورک سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر تمام مسلمانوں سے دشمنی برتی گئی اور انہیں ذلیل کیا گیا تو دہشت گردی بدترین صورت اختیار کر لے گی۔ اور اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے سبب مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں آتش گیر سیاست کے بھڑکنے کا امکان آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس صورت میں تہذیبوں کے تصادم کا تصور جو مسلمان دہشتگردوں کے ذہن میں ہے یا ان دہشتگردوں کے کچھ پرجوش مخالفین کے وہم میں ہے، محض سراب خیال نہیں رہے گا بلکہ حقیقت محسوس ہونے لگے گا۔

یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ کے صلیبی جنگجو جس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، کیا جانتے بھی ہیں کہ وہ دراصل کیا کر رہے ہیں یا اصل میں اس آگ کو بھڑکانا ہی ان کا مقصد ہے۔ ان کی دبیز جہالت بھی بعید از قیاس نہیں۔ مگر یہ تصور کرنا خالی کلبیت پسندی نہیں کہ ٹرمپ کے نظریہ ساز اس آگ کو بھڑکتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلامی دہشت گردی کا سامنا کرنے کے لئے ایمرجنسی کے قوانین بنائے جائیں گے، کے ریاستی حمایت یافتہ تشدد کا رواج ہو گا اور شہری آزادیوں پر حد بندیاں لاگو ہوں گی۔ ، دوسرے لفظوں میں مطلق العنانی قائم ہو گی۔

ممکن ہے ٹرمپ بھی یہی چاہتا ہے۔ مگر یہ وہ نتائج نہیں جو امریکیوں کی اکثریت بشمول وہ لوگ جنہوں نے اسے ووٹ دیا، چاہیں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments