مجھے مہندی والا دور لوٹا دو


\"\"

ترقی دیکھتا ہوں تو دل و دماغ باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی ریل پیل ہے جدید سے جدید چیزیں میسر ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں تیزی آ گئی ہے وہ خط وکتابت والا دور گذر گیا ہے وہ گھنٹوں گھنٹوں ہفتوں ہفتوں مہینوں مہینوں والے انتظار سے جان چھوٹ چکی ہے لیکن جتنی ترقی ہوئی اتنا ہی مرنے کے اسباب بھی جدید ہوئے۔ انسان نے انسان کو مارنے کے لیے جدید سے جدید آلات بنائے۔

یہ انسان فخر بھی کرتا ہے تو بندوقوں پہ۔ یہ جس چیز پہ اتراتا ہے وہ ایٹم بم ہے۔ یہ بارود و میزائل بنا کے دنیا کو بتاتا ہے کہ دیکھیں اس میزائل سے اتنے سیکنڈ میں دنیا تباہ ہو جائے گی۔ یہ میزائل اتنے منٹ میں فلاں ملک کے شہر تک پہنچ کے شہر تباہ کر دے گا۔ آہ دنیا اسلحے کی طرف جا رہی ہے۔ دنیا اسلحے کا کاروبار کر رہی ہے۔ بجٹ میں اکثر ملک زیادہ پیسہ اسلحے کے لیے رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے اسلحہ ضرورت ہے۔ جنگ ضرورت ہے لیکن جنگ سے محبت تو نہ کی جائے۔ قوموں کو جنگ کا سبق تو نہ پڑھایا جائے۔ جنگوں کے لیے ترانے تو نہ لکھیں جائیں۔ ایسے نغمے تو نہ لکھے جائیں جو جذبات ابھارتے ہوں۔

مجھے بتایا جائے یہ بہادری و شجاعت کس بلا کا نام ہے؟ خون بہانا ہی بہادری کہلاتا ہے نا؟ شجاعت اسی کو کہتے ہیں نا کہ جو لڑائی اچھی لڑتا ہو؟ یہ دلیری کیا چیز ہے؟ یہ مفہوم کیوں نہیں بدلتے آپ؟ بہادر اسے کو کیوں نہیں کہتے جو معاف کر دے؟ شجاعت کا لقب اسے کو کیوں عطا نہیں کرتے جو صبر کرتا ہے؟ دلیر اسے کیوں نہیں کہتے ہو جو انسانیت بچانے کی بات کرتا ہے؟

برا ہو ادیبو تمھارا۔ برا ہو شاعرو تمھارا۔ برا ہو نثر نگارو تمہارا۔ تم نے برائی کو اچھائی بنا کے پیش کیا۔ تم نے نفرت کے قابل الفاظ کو محبت والا بنا دیا تم نے ان الفاظ کی تعریف ہی اتنی کی کہ لوگ باغی بہادر اور دلیر جیسے القابات کے حصول لیے جان سے گذر جاتے ہیں۔ یہ صدیوں دشمنیاں نبھاتے ہیں۔ یہ فخر سے بتاتے ہیں ہم نے جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دیے یہ بہادری کی داستانیں رقم کرواتے ہیں یہ لڑائی پہ اتراتے رہے۔

بھلا تباہی پہ فخر کیا جاسکتا ہے؟ بھلا لڑائی پہ اترایا جا سکتا ہے؟ رب کی خوبصورت تخلیق کو تباہ کرنا کون سا بہادری کا کارنامہ ہے؟ کسی معصوم کی لاش کے چھیتڑے اڑ جائیں یہ اچھی بات ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ دنیا بھر میں انسانوں کے مارنے کے باوجود جنگ کے لیے لوگ کیوں میسر آ جاتے ہیں؟ لوگ سینے سے بم باندھنا کیوں اعزاز سمجھتے ہیں؟ ارے بھیا جب جنگیں فخر بنا دی جائیں جب موت کو محبوب بنا دیا جائے تو پھر لاشیں گرتی ہیں۔ پھر خون بہتا ہے۔ پھر آنسو بہنا معمول بن جاتا ہے۔ پھر آئے روز کے دھماکوں سے افسوس بھی پیدا نہیں ہوتا۔ جب شغل ہی جنگ ہو تو پھر دل پتھر ہوجاتے ہیں۔

بے حسی ہے اور گہری بے حسی ہے دیکھیں تو سہی آج ہم یہ جملہ کہتے ہیں شکر ہے کم نقصان ہوا ہے کم لاشیں گری ہیں۔ کم لوگ مرے ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں دیکھیں جی اب مہینے میں دو دھماکے ہوتے ہیں۔ پہلے ہر روز ہوتے تھے اب کم نقصان پہ بھی کلمہ شکر بجا لاتے ہیں۔ اب کم خون بہنے پہ سجدے کرتے ہیں۔ آپ کریں سجدے۔ آپ کلمہ شکر بجا لائیں۔ آپ جنگوں پہ اترائیں مجھے میرا ماضی لٹا دیں

مجھے وہ ماضی لوٹا دیں جہاں لومڑی بولے تو دل دھڑکنا شروع ہو جائیں اور زبان آہ بھر کے کہے آج پھر کوئی مرے گا۔ مجھے وہ ماضی لوٹا دیں جہاں فضا میں مٹی اڑتی دیکھ کر عورتیں مصلیٰ بچھا لیں کہ کہیں قتل ہوا ہے۔ یہ مٹی قتل کی اور رب کی ناراضگی کی دلیل ہے۔ مجھے وہ ماضی لوٹا دیں جہاں دشمنی کے بھی آداب ہوا کرتے تھے مجھے وہ ماضی لوٹا دیں جہاں دشمن کی لاش کی بے حرمتی نہیں کی جاتی تھی

مجھے میرا وہ ماضی لوٹا دیں جہاں دشمن کے بچوں کو بھی اپنا بچہ کہا جاتا تھا۔ مجھے میرا وہ ماضی لوٹا دیں جہاں عورتوں بچوں اور بوڑھوں پہ ہاتھ اٹھانے کو بزدلی تصور کیا جاتا تھا۔ جی ہاں وہ ماضی جہاں امن تھا جہاں پیار تھا۔

یہ خون کا دور تمھیں مبارک مجھے میرا مہندی والا دور لوٹا دیں۔ کوئی لوٹا سکتا ہے؟ میں جوانی گروی رکھنے کو تیار ہوں۔ مجھے بارود کی بو سے گھن آتی ہے مجھے چنبیلی کی پھول جائے۔ مجھے دھماکوں کی آوازوں سے خوف محسوس ہوتا ہے مجھے کوئل کی آواز سنا دی جائے۔ مجھے تتلیاں چاہیں مجھے کاغذ کی کشتی چاہیے اور بارش کا پانی چاہیے۔ مجھے کچے گھروندے چاہیں۔ مجھے وہ دوست چاہیں جن سے لڑ سکوں۔ مجھے وہ بےخیالی چاہیے جہاں بیٹھ کے مٹی کے گھر بناتا رہوں۔ مجھے وہ جھونپڑی چاہیے جہاں ٹی وی نہ ہو جہاں بریکنگ نیوز کا شور نہ ہو جہاں ایمبولینس کی آواز نہ ہو جہاں دیا ہو ٹمٹماتا سا۔

میں اس شور اور ہجوم سے اکتا گیا ہوں۔ میری آنکھیں ہر روز کی لاشیں دیکھ کر پتھرا گئی ہیں۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے جہاں آئے روز بین ہوتے ہیں جہاں آئے روز لاشے گرتے ہیں؟ جہاں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں۔ میری چاہت و خواہشات کے باوجود مجھے میرا ماضی نہیں مل سکتا اس لیے کہ زندگی ارتقا کا نام ہے میرے شاعرو میرے ادیبو میرے نثر نگارو میرے سخنورو بس اتنا کیجئے یہ بہادری یہ شجاعت یہ دلیری کی تعریفیں بدل دیجئے یقین مانیں امن آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments