نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا


\"\"

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا!

نقش، شوخیِ تحریر کا ہو یا نہ ہو، غالب کا یہ شعر جو سر ِ مطلع دیوان ہے اور جس کا آغاز روایت ”حمد“ سے کیا گیا، غالب نے یہاں بھی اپنی شوخی مطبع کا ثبوت دیا ہے، بایں طور حمد کے پردے میں خدا سے گلہ کیا ہے۔ انھوں نے انسان کے ظہور ِ کمال پر اس بات کا شکوہ کیا کہ جب ہر مخلوق کو فنا ہی کے لیے پیدا کیا گیا تو پھر اس کی پیدائش میں اس قدر کمال کا اظہار کیوں کیا گیا۔

اگرچہ غالب نے اپنے ماحول میں انسان کو بہت پست اور ذلیل پایا تھا۔ اور زندگی کے طوفان میں وہ اپنے آپ کو ایک بے بس تنکے کی مانند بہتے ہوئے دکھائی دیتےتھے۔ اس پستی کے باوجود غالب کو انسان کی فطری شرافت و فضیلت سے کبھی انکار نہیں ہوا چناچہ وہ انسانی ذلت کا منظر دیکھ کر بڑی شوخی سے فاطر ارض و سما سے پوچھتے ہیں۔

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں۔

غالب کا انسان نہ تو لوح ِجہاں پر حرفِ مکرر کی حیثیت رکھتا ہے نہ ہی رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر ہے، ان کے نزدیک انسانی انا اور خوداری ہی اس کا سرمایا ہے۔ یعنی خوداری ہی وہ انسانی جوہر ہے جو اس کو عام میں خاص بناتا ہے اور غالب اسی جوہر سےخاص ہی نہیں بلکہ خاص الخاص ہوئے مگر انا کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر حقیقت سے ٹکرا کر مجروح ہو جاتی ہے، اس لئے مثبت قسم کی مضبوط شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اس میں حقیقت کا تصور سمویا جائے۔ شخصیت میں حقیقت کے لیے جگہ موجود ہو تو انا حقیقت سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہونے کی بجائے اس کو قبول کرکے آگے چلتی ہے۔ یہاں حقیقت سے مراد مابعد الطبعیاتی معنوں میں نہیں، بلکہ عام معنوں میں یہاں حقیقت سے مراد وہ خارجی چیز ہے جو انا سے متصادم ہو لیکن انا کا تصادم صرف خارجی چیزوں سے نہیں ہوتا بلکہ بعض اندرونی چیزیں بھی انا کے خلاف عمل کرتی ہیں، مثلاَ جبلتیں، بھوک، پیاس، نیند اور جنسی ضرورت سب انا کے دشمن ہیں اور غالب کہاں کہاں سے اس مطالبے کو پورا کر پایا ہے۔ اس کی زندگی اسے ثابت کیا۔ غالب کو بڑا شاعر کہلوانے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی تھی کہ لوگ انہیں بڑا رئیس کہیں پر جہاں بہادر شاہ ظفر کی بادشاہی خطرے میں ہو وہاں خیالی اقرار و بیان پر غالب کو کون مانے۔ غالب کی پرورش چونکہ ننہال میں ہوئی او ر وہ اس کا عنصر غالب کی شخصیت پر بھی وہ ہی پڑا جو ایک باپ کے نہ ہونے پر کسی بھی بچے پر پڑتا ہے۔

\"\"

غالب کو محسوس ہوتا تھا کہ تقدیر اس کے خلاف ہے، زمانہ اس کے خلاف ہے بلکہ خود خدا بھی اس کے خلاف ہے۔ اس لئے غالب نے سب سے ایک پیکار باندہ رکھی ہے مگر تقدیر، زمانے اور خدا سے اس جنگ میں غالب، غالب بن گئے۔

یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے،
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں۔

انسان کی اس عظمت کے اعتراف میں ان کا عشق بھی عظیم تر ہو جاتا ہے۔ غالب کا تصور ِعشق عام مشرقی شعرا کے تصور سے بالکل مختلف ہے وہ عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں، ان کو اس بات کا بڑا قلق رہا ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن راہ عشق میں ایک بھی قربانی نہ دے سکے اور وہ غالباَ اس لئے کہ ان کے پاس عشق کے حضور پیش کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔

غرض فکر و نظر کا یہ بادشاہ مملکتِ عشق کی حقیقت جانتے ہوئے بھی اس میں داخل نہیں ہو سکا۔ عشق کا ہونا نہ ہونا آدمی کے بس کی بات نہیں، اس کے لئےایک خاص ذھنی افتاد اور ایک خاص جذباتی کیفیت کی ضرورت ہے تا کہ آدمی عشق سے فیض پا سکے اور یہ افتاد اور یہ کیفیت ہر ایک کو نہیں مل سکتی۔

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب،
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔

جینے کا اصل مزا عشق ہی سے ملتا ہے۔ یہ ایک ایسا درد ہے جس کا کوئی علاج نہیں لیکن یہ خود ہر درد کا علاج ہے۔ گویا جس طبیعت میں عشق رچ گیا ہو وہ زندگی کے ہر مقام سے فیض حاصل کر سکتی ہے۔

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ بے دوا پایا۔

عشق کے بغیر زندگی گزارنا عبث ہے بلکہ عشق سے خالی ہو کر زندگی ایک مسلسل عذاب بن جاتی ہے۔ غالب کو اس بات کا افسوس ہے کہ وہ اس میدان میں اترنے کے قابل ہی نہیں، وہ لذتِ آزاد کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔

بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے
اوریاں طاقت بہ قدر لذتِ آزار بھی نہیں

باوجود ستم ہائے زمانہ کے غالب کی ظرافتِ طبع موجود رہی بقول حالی ”غالب حیوانِ ظریف“ ہیں اور اس بات سے یہ بات سامنے آتی کہ غالب نے ظرافت کے میدان میں نمایاں کردار کیا ہے۔

غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے،
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے،

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد،
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments