بولڈ فیصلہ نہ کیا تو دھماکوں کی لہریں آتی جاتی رہیں گی


\"\"

بادشاہوں تاجروں راہبوں نے ہندوکش سے پار خیبر پاس کے رستے ہمیں کابل اور دہلی کو آپس میں بار بار ملایا ہے۔ ہم کلچر مذہب علم معاش اور بادشاہتوں کا مشترکہ ورثہ رکھتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف مرحلوں پر ہم اکٹھے رہے ہیں ایک رہے ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو سہارا دیا ہے مستحکم کیا ہے۔ بدھا کے مجسمے جو اینک اور بامیان میں ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کی یادگاریں جو دلی میں ہیں ہمیں ملاتی ہیں۔ ہمارا آرٹ اور کلچر ہماری زبان ہمارا ادب ہمارے میلے ہماری خوراک ان سب میں ہمارا مشترکہ ماضی جھلکتا ہے۔

یہ بھارتی وزیراعظم مودی کی تقریر سے اقتباس ہے جو انہوں نے کابل میں کی۔ ہندوتوا پر یقین رکھنے والا ایک بنیاد پرست بھارتی لیڈر اپنی سوچ بیان کر رہا ہے۔ افغانستان نے دہلی پر حکومت کی ہے۔ افغانوں میں بھارتی ہندو سے نہ وہ ڈر ہے جو ہم پاکستانیوں کو رہا ہے۔ نہ کابل بھارت سے خوفزدہ تو چھوڑیں ان کی سازشوں کو بھی مذاق سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ ہم ہیں جو بھارتی سازشوں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ تاریخ میں کبھی کابل کبھی دلی اس پورے ریجن میں طاقت کی علامت رہا ہے، دونوں ہی بڑے اعتماد سے جب دل کرے ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔

پاکستان ستر سال پرانی ایک نئی حقیقت ہے۔ کابل ہو دلی ہو دونوں میں اس نئی حقیقت نے ایک ڈینٹ ڈالا ہے۔ دونوں کی تاریخ سے شیر والا ایک حصہ بھی پاکستان نے وصول کر لیا ہے۔ یہ حصہ تاریخ و ادب سے بھی پایا ہے اور اہم علاقائی تہزیبی علامتوں کا وارث ہو کر بھی پایا ہے۔ افغانستان میں پختون اکثریتی نسلی اکائی ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے پختونوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے۔ یہ ان سے زیادہ خوشحال زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔

بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ سیدھی بات یہ ہے کہ دلی ہو یا کابل ہو پاکستان نے ان دونوں کے تاریخی اعتماد کو طاقت کو چیلنج بھی کیا ہے اسے زک بھی پہنچائی ہے۔ اس لیے ان دونوں کی جلن ایک حقیقت ہے جو رہے گی۔ یہ باقی بھی رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہم نے مقابلے بازی کے لئے جو میدان منتخب کیے وہ غلط تھے۔ ہم کھیلوں میں تعلیم میں ترقی میں مدقابل ہونے کی بجائے ایک دوسرے سے جنگ آزما ہو گئے۔

پاکستان پہلے دن سے عدم تحفظ کا احساس کمتری کا شکار رہا۔ غریب ماں کے یتیم بچے جیسی نفسیات رہی ہماری۔

پاکستان بنا تو بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے سے رہ گیا۔ اس پر جنگ لڑی تو اکہتر میں بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام میں ہم اپنی کوتاہیاں بھول گئے۔ بھارت کی کھلی مداخلت ہمیں یاد رہی۔ باقی پاکستان میں پختون قوم پرست بے قابو ہوتے دکھائی دیے۔ ان کی سیاست کا علاج ہمارے سب سے مقبول لیڈر سے ڈھونڈا نہ جا سکا۔ اسی مقبول لیڈر نے پختون قوم پرستوں کی اٹھائی اک ڈھیلی ماٹھی پرتشدد تحریک کا جواب افغانستان میں مذہبی شدت پسندوں کی حمایت میں ڈھونڈا۔ گلبدین حکمت یار پروفیسر برہان الدین ربانی بھٹو کی دریافت و فخریہ پیشکش تھے۔

روس افغانستان آیا تو امریکہ یورپ سعودی عرب نے ہمارے دریافت کردہ گوریلے گود لے لیے۔ روس نے شکست عالمی اتحاد سے کھائی تھی۔ اس شکست کو ڈالر ریال سٹنگر اور سستے مذہبی لڑاکوں نے ممکن بنایا تھا۔ ہم اس کو اپنی کامیابی سمجھے۔ اپنے بل بوتے پر ہم نے جہاد کا یہی ماڈل کشمیر پر اپلائی کر دیا۔

اس لڑائی کی شروعات کرنے کو جب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہمیں مذہبی شدت پسند تک دستیاب نہ ہوئے۔ کشمیر میں گوریلا تحریک کا آغاز کشمیر لبریشن فرنٹ کے ذریعے کرایا گیا۔ لبریشن فرنٹ کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مسلم جانباز فورس سامنے لائی گئی۔ اس فورس کا مکو ٹھپنے کے لئے حزب المجاہدین سرگرم ہوئی۔ حزب المجاہدین بے قابو نہ ہو جائے اس کے لئے البدر مجاہدین کو بھی ساتھ ہی متعارف کرایا گیا۔ کشمیری تنظیموں کے بعد پاکستانی لڑاکوں پر مشتمل تنظیمیں حرکت المجاہدین لشکر طیبہ اور جیش محمد سامنے لائی گئیں۔

ہم لوگوں سے ایک بنیادی غلطی ہوئی۔ ہم یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ روس کو ہرانا طاقتور دنیا کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر پنگے میں ہمارے ریاستی اداروں تک کی سوچ میں یکسانیت نہیں تھی۔ نتائج بھی ویسے سے ہی نکلنے تھے۔ ہم نے کشمیر دہکا لیا۔ اس کا ایک انچ آزاد نہ کرا سکے۔ وادی کے قبرستانوں میں البتہ لاکھ قبروں کا اضافہ ضرور ہو گیا۔

یہاں ایک اہم بات کا تزکرہ ضروری ہے۔ عام تاثر کے برعکس بھارت کا خاصا اہم فیصلہ ساز حلقہ جنرل ضیا کی دل سے قدر کرتا ہے۔ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے بھارتی فیصلہ سازوں کے مطابق جنرل ضیا کے پورے اقتدار کے دوران کوئی ایک بھی پاکستانی مداخلت کار بھارتی سرزمین پر کسی کارروائی کے لئے نہیں گیا۔

ہم جب بھارت کو کشمیر میں ایک بڑی گوریلا جنگ میں الجھا رہے تھے۔ اسی دوران ہم افغانستان میں بھی تزویراتی گہرائی تلاش کر رہے تھے۔ افغانستان میں ہم گھوڑے بدل بدل کر اپنی طاقت آزما اور بڑھا رہے تھے۔ ہماری یہ کوششیں افغانستان کے ایک بڑے طبقے میں ہمارے لئے منفی جذبات پیدا کر رہی تھیں۔ صرف اتنا ہی نہیں ہو رہا تھا بھارت اور افغانستان آپس میں قریب بھی آ رہے تھے۔ دونوں پاکستان کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھ رہے تھے۔

اٖفغانستان میں ہماری تزویراتی گہرائی ڈھونڈنے کی کوششوں کا کیا حال ہوا۔ یہ جاننے کے لئے کور کمانڈر کوئٹہ کا بیان ہی کافی ہے انہوں نے کہا کہ تزویراتی گہرائی کی پالیسی ہم نے بنائی تھی افغانستان کے لئے، اس پالیسی کو کامیابی سے استعمال افغان طالبان نے کیا پاکستان کو اپنی تزویراتی گہرائی کے طور پر استعمال کر کے۔

ایک سیکیورٹی امور سے متعلقہ ماہر کا تبصرہ دلچسپ ہے۔ پاکستان نے مذہبی شدت پسندی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا تجربہ کیا۔ یہ جن بوتل سے نکل آیا اور تھوڑی دیر بعد بے قابو ہو گیا ہے۔ ہم لوگ اچھے برے طالبان کے گھن چکروں میں کھو کر رہ گئے۔ یہ کیسے چکر تھے کیسے چکر ہیں یہ اس سے بھی جانیں کہ لوگوں میں تاثر کیا ہے۔ بہت عرصہ تک لوگ حتی کے سیکیورٹی فورسز سے متعلقہ لوگ بھی شدت پسندوں کے بارے میں کنفیوز رہے کہ شاید یہ لوگ کوئی ارفع مذہبی مقاصد رکھتے ہیں۔

ہمارے جی ایح کیو پر حملہ ہوا نیول بیس ہوائی اڈے آرڈینس فیکٹریاں نشانہ بنیں۔ لیکن لوگوں میں ایک تاثر باقی رہا کہ اس سب میں سرکاری ایجنسیاں ملوث ہیں۔ یہ تاثر جیسا بھی مبالغہ آمیز تھا مگر موجود تھا۔ اس کا ایک رخ اور بھی ہے کبھی ہماری ایجنسیوں نے ہی مقدس مشن کے لئے مذہبی لڑاکوں کو تیار کیا تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ انہیں لڑاکوں نے اسی مقدس مشن کے حوالے دے کر اداروں میں اپنے رابطے بنائے۔

ایک قومی اخبار میں خبر چھپی ہے۔ سب سے ڈسپلن والی عسکری تنظیم جس نے ریاست کے خلاف کوئی ایک اقدام بھی نہیں کیا اور یہ عسکری تنظیم صرف کشمیر پر ہی فوکس ہے اس کے بھی تین سو سے پانچ سو لوگ منحرف ہو کر شدت پسندوں سے جا ملے یہ سب تربیت یافتہ تھے۔

کابل دلی اسلام آباد ایک ہی خطے میں واقع ہیں۔ بہت سے حوالوں کے ساتھ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انتقام لڑائی مداخلت کی ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں۔ جب تک ان تینوں ملکوں میں کسی ایک جگہ پر بھی شدت پسند عسکری کارروائیاں کرتے رہیں گے۔ کسی ایک ملک میں بھی امن نہیں آئے گا۔ ہر جگہ خون بہتا ہے تو اس کا رنگ لال ہی ہوتا ہے۔

افغان طالبان اگر پاکستان دوست ہیں، وہ اپنی کارروائیاں صرف افغانستان میں کرتے ہیں، پاکستان میں پر امن رہتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ ٹی ٹی پی بھی پھر ایسی ہی افغان دوست ہے۔ افغانستان میں رہتی ہے کارروائیاں صرف پاکستان میں کرتی ہے۔ ہمارے دوست افغان طالبان اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ کبھی کرتے رہے ہوں گے۔ وہ جب جب ایسا کرتے رہے جواب میں ان کے اہم لوگ پاکستان میں نشانہ بنتے رہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان میں ان کو نشانہ بناتی رہی۔

پاکستان آرمی نے آپریشن ضرب عضب شروع کر کے شدت پسندوں کو پاکستان میں ایک واضح فوجی شکست دی ہے۔ وہ لیکن ختم نہیں ہوئے۔ سب کچھ آرمی نے ہی نہیں کرنا ہے۔ سول اداروں نے بھی کچھ کرنا ہے۔ حالت یہ ہے کہ نہ لوگ یہ سمجھنے کو تیار ہیں کہ پاکستان کسی جنگی دور سے گذر رہا ہے۔ نہ ہمارے سول ادارے اس حوالے سے ادراک کر پائے ہیں۔ دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے بھی فوجی عدالتیں بنانا پڑتی ہیں۔ سول عدالتوں میں دہشت گردوں کے خلاف سزائیں سنائی جاتیں اور ان پر عمل ہوتا تو کیا یہ نوبت آتی۔

یہ مسئلہ باقی ہے لمبے عرصے کے لئے۔ امن و امان میں واضح بہتری آئی ہے۔ شدت پسندی عسکریت کی لہر کو بہت ہمت سے قربانیوں نے فوج نے واپس دھکیلا ہے۔ لہریں تو پھر لہریں ہیں واپس بھی جائیں تو لوٹ کر آتی ہیں۔ ایک مستقل علاج تب ہی ہو سکے گا جب دلی کابل اسلام آباد کسی ایک پالیسی پر متفق ہوں گے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ میں اعتماد پیدا کریں۔ ایک ایٹمی ملک کی طرح برتاؤ کریں۔ خود پر یقین کر لیں کہ ہمیں کوئی بیرونی خطرہ نہیں ہے۔ ہم ہر قسم کے بیرونی خطرات سے نپٹنے کے قابل ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کے لئے بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے جس کے لئے سب سے پہلے اپنے اوپر اعتماد کرنا ضروری ہے۔

ورنہ یہ دھماکوں کی لہریں آتی جاتی رہیں گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments