سی پیک اور ماحول پر ممکنہ اثرات


\"\"

پاکستان اور چین کے درمیان معاشی ترقی سے جڑے یہ کوریڈور ابھی آغاز میں ہے اور ماہرین معاشیات اس سے حاصل متوقع فوائد اور ترقی کے اشاریے پیش کر رہے ہیں جو بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے۔ اللہ کرے جیسے بھی ہو پاکستان ترقی کرے، یہاں کے فاقہ زدہ عوام کے لئے روٹی کی بہتات ہو۔

ترقیاتی منصوبوں میں مگر ایک اور پہلو بھی دیکھا جاتا ہے اور وہ ہے مجوزہ منصوبے کے علاقے کے قدرتی ماحول پر اثرات۔ منصوبے کے ماحولیاتی اثرات جانچنے کے لئے فیزیبلٹی رپورٹ کے ساتھ ساتھ ماحول پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ بنتی ہے جسے (Environmental Impact Assessment ) کہا جاتا ہے۔ سی پیک میں لیکن ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کی طرف ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور منصوبے پہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ماحولیات اور جنگلی حیات کے حوالے سے سرگرم اداروں اور افراد کی نظر میں یہ انتہائی تشویش کا پہلو ہے۔

سی پیک پاکستان کے ایسے حصوں سے گذرتا ہے جو قدرتی وسائل اور ماحولیاتی مسائل کے اعتبار سے انتہائی اہم اور زد پذیری کے لحاظ سے انتہائی نازک ہیں۔ پاکستان کا شمالی حصہ جس میں گلگت بلتستان کا صوبہ اور خیبر پختونخواہ کے اضلاع چترال، کوہستان وغیرہ شامل ہیں اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان علاقوں میں پاکستان کے نہ صرف آبی وسائل کا ذخیرہ ہے بلکہ پاکستان میں پائے جانے والی جنگلی حیات کی اکثریت بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ کئی ایک ان جانوروں اور پودوں میں ایسے ہیں جو مکمل طور پر مقامی ہیں، ان علاقوں سے باہر دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے، اور ان کو بقا کے خطرے سے دوچار قرار دیا جا چکا ہے۔ جبکہ معدومیت کے خطرے سے دوچار دنیا کے کئی ایک جانور اور پودے بھی انہی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ برف اور گلیشیئرز کے حوالے سے اس علاقے کو قطب شمالی اور جنوبی کے بعد دنیا کے تیسرے بڑے ذخیرے کا درجہ حاصل ہے۔ قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ کے انہی برف زاروں پر ہندو پاک کے میدانی علاقوں میں ہریالی اور زندگی کا دارو مدار ہے۔ پاکستان کے انہی علاقوں میں پانچ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے گلیشیئرز اور ڈھائی ہزار کے قریب قدرتی جھیلیں موجود ہیں جہاں سے پانی پورے پاکستان کو سیراب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ علاقے پرندوں کے موسمی نقل مکانی کے اہم راستوں میں سے ہیں، بیسیوں پرندے افزائش نسل کے لئے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

کسی بھی علاقے کے ماحول، اس میں بسنے والے چرند، پرند اور درندوں کا وہاں موجود انسانوں سے نہایت پچیدہ، متوازن اور باریک تعلق ہوتا ہے جس میں کئی طرح کے ماحولیاتی عوامل وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس پورے سسٹم کے کسی بھی حصے کا توازن بگڑنے سے ماحول کے لئے انتہائی نتائج پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پاکستان میں ماحول کے حوالے سے حالات پہلے ہی سے کافی خراب ہیں۔ پاکستان ماحولیاتی تغیرات اور حرارت میں عالمی اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ ملک میں ترقیاتی منصوبہ بنانے والے اس طرف مگر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ کوئی تریچمیر گلیشیر کے دہانے سے نہر نکالنے کے لئے بھاری مشینری استعمال کر رہا ہے یا کسی نیشنل پارک کے بیچوں بیچ سڑک نکال رہا ہے تو گلیشیئرز، قدرتی ماحول اور وہاں موجود جانوروں کے مسکن کا کوئی خیال نہیں رکھ رہا۔ منصوبہ لوگوں کی ترقی اور فلاح کے لئے ہے تو سوچنا چاہیے کہ کل کو یہی منصوبہ ترقی کا نہیں سیلاب اور طوفان کی صورت میں تباہی کا ذریعہ تو نہیں بنے گا۔ حالانکہ ہر موسم میں آفات کا ایک سلسلہ ہم دیکھ رہے لیکن ادراک نہیں کر پا رہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ کچھ عشروں سے ان بالائی علاقوں میں گرمی میں اضافے کی شرح نشیبی علاقوں سے زیادہ رہی ہے ۔ درجہ حرارت میں عالمی اضافے کی وجہ سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ 1992 سے 2000 کے دوران بٹورا گلیشیر 17 کلومیٹر اور بیافو گلیشیر قریباً 10 کلومیٹر سکڑ گیا ہے، اس مطالعے کے بعد 17 سال گذرے ہیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال بد تر ہے۔ اب ان علاقوں میں سے سی پیک گذرے گا اور ساتھ میں کئی صنعتی بستیاں بسائی جائیں گی۔ لوگوں کو روزگار بیشک ملے گا لیکن یہاں کے نازک ماحول پر اس کے اثرات بھی شدید ہو ں گے۔

ایک طرف آمد و رفت، درآمد و بر آمد کی گاڑیوں اور کنٹینروں کے قافلے گذرنے سے جنگلی حیات کے مساکن مزید ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے اور قوم ان قدرتی اثاثوں سے محروم ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ جس مقدار میں کاربن کا اخراج ہوگا وہ ان علاقوں میں بڑھتی حرات کو تیز تر کر دے گا اور گلیشیئرز کے ذخائر کا پگھلنا اور سکڑنا مزید تیز ہوگا، نتیجتاً سیلاب کی تباہ کاریاں جو ابھی سے کچھ کم نہیں مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔ مذکورہ عوامل کی وجہ سے ان علاقوں میں پائے جانے والے جانوروں کی بقا بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ یہاں کوئی چالیس سے اوپر کی تعداد میں ممالیہ جانور پائے جاتے ہیں، جن میں برفانی چیتا، تیندوا، بھورا ریچھ، سیاہ ریچھ ، سیاہ گوش، لداخ اڑیال، مارخور، آئی بیکس، مارکو پو لو شیپ، بھرال (Blue Sheep)، جیسے بڑے اور اہم جانور شامل ہیں۔ ان کے مسکنوں کو خطرہ پہنچنے سے ہم قیمتی اثاثے سے محروم ہو سکتے ہیں کوئی بھی سی پیک جس کا متبادل نہیں بن سکتا ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ضیاع کے کتنے واقعات جنگلی جانور کے اچانک روڈ کے اوپر آنے سے یا پھر گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوتے ہیں، اس کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ممکنہ نتائج سے نمٹنے کے لئے ابھی سے تیار رہا جائے۔ شنید ہے جنور ی کے وسط میں نیپال میں ایک کانفرنس کے دوران ماحولیاتی تغیرات کے وزیر جناب زاہد حامد کی اس سلسلے میں اپنے چینی ہم منصب سے تبادلہ خیال ہوا اور اس پہ کام کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ پہلا کام تو یہی ہونا چاہیے کہ سی پیک کی ماحول پر ممکنہ اثرات کی جانچ ہونی چاہیے۔ اور اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔ اور ضروری ہو تو منصوبے کی ڈیزائن میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ ماحول سے مطابقت پیدا ہو۔ فضا سے کاربن جذب کرنے کے لئے ان علاقوں میں جو مقامی جنگلی درخت جیسے جنیپر (Juniper )اور برچ (Birch) پائے جاتے ہیں ان کی موجودہ قطعوں کی حفاظت اور مزید شجر کاری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ غیر مقامی جنگلی پودے یہاں کے شدید ماحول میں پنپنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جہاں جہاں جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے محفوظ کردہ علاقے جیسے نیشنل پارکس ہیں یا ان جانوروں کی موسمی یا مستقل گذرگاہیں ہیں وہاں سڑک کو اوپر سے کوور (Cover) کر کے ان کی مسکنوں کو مزید ٹکڑوں میں بٹنے سے بچانے کا انتظام کیا جائے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں جہاں بھی ترقیاتی منصوبوں کی ایسی جانچ ہوئی ہے اکثر میں دیانت داری سے کام نہیں ہوا، کچھ پرانی باتیں دہرا کے، کچھ جواز تراش کے، کچھ حیلے بنا کے ماہرین ماحولیات ماحول کو ہی کھینچ تان کے منصوبے سے مطابقت پیدا کر دیتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے بھی کام نبٹا کےاپنا حساب کھرا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں آسٹریلیا سے چوہا اتا ہے تھائی لینڈ و ملیشیا سے ڈینگی در اتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایئر پورٹ اور بندرگاہوں پر نہ صرف سامان بلکہ انسانوں کو بھی بوقت ضرورت ”کوارینٹاین (Quarantine) کیا جاتا ہے۔ کیا سی پیک میں بھی ایسا کوئی انتظام ہوگا۔

ترقی بہت ضروری ہے، ہم اقوام عالم میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سی پیک، جیسا کہ کہا جا رہا ہے، پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ لیکن کسی بھی ترقیاتی منصوبے کے لئے ہمیں اپنے قدرتی ماحول کی قربانی نہ دینی پڑے، ہمارے قدرتی وسائل ختم نہ ہو جائیں۔ ہماری تقدیر ضرور بدلے لیکن اس طرح نہیں کہ کل کو پانی بھی چین سے خریدنا پڑ جائے۔ پاکستان میں میڈیا میں ہر چیز پر بحث ہوتی ہے لیکن ماحول ایک نظر انداز موضوع ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اس پر بھی بات کریں، اس کی بہتری کی کوشش کریں۔ کیونکہ تمام تر ترقی کے بعد اور ساتھ ہمیں اسی زمین پر اسی ملک میں رہنا ہے۔ ابھی مریخ کا دروازہ ہم پر کھلا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments