وہ جو چارہ گر نہیں ہے….


\"farooq\"”ابن خلدون: جدید دنیا کا معیشت دان“ کے نام سے ایک تحریر سامنے آئی۔ کیا یہ مضمون انسانوں کو مشقت پر مجبور کرنے اور سرمائے کا غلام بنانے کے لیے لالچ اور ہوس کی نفسیات کو مصنوعی طور پر مسلط نہیں کرتا؟ صاحبِ مضمون جیسے سرمایہ داری کے عذر خواہ اکثر یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ ’ترقی‘ کے لیے پیسے کا لالچ اور مقابلہ بازی ضروری ہیں۔ صاحب مضمون چونکہ سرمایہ داری کے علم بردار ہیں اِس لیے قوت محرکہ کو محض پیسے کا مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ انسان بہت سے کام صرف اپنے شوق اور لگن کے تحت کرتے ہیں۔ درحقیقت ایسے تمام کام جو ہمیں حیوان سے انسان بناتے ہیں، ہماری حس جمالیات کو جلا بخشتے ہیں، ہماری زندگی کو مقصد فراہم کرتے ہیں اور انسانوں کے مابین بے لوث تعلقات پیدا کرتے ہیں، وہ زر کی زہریلی ملاوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ اگر انسان کے ’فطری طور پر لالچی‘ ہونے کا خیال درست ہے تو پھر خود سرمایہ دارانہ سماج میں آئن سٹائن، نکولا ٹیسلا اور جوناس سالک (پولیو ویکسین دریافت کرنے والا) جیسے درجنوں عظیم سائنسدان کیا ’لالچ‘ میں سب کچھ کر رہے تھے؟ صاحبِ مضمون نے اپنے خیالات کو پیش کرنے کے لئے ابن خلدون کے معاشی نظریات کا محض نام لیا ہے، ورنہ 2013ءمیں دنیا کے سب سے مستند سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں طویل تحقیق کے بعد شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’اگر انسان فطری طور پر لالچی ہوتا تو نسل انسان اب تک معدوم ہو چکی ہوتی۔“ اِس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ارتقا خود غرضی اور لالچ کو پسند نہیں کرتا بلکہ فطرت معاونت کو پسند کرتی ہے۔ مئی 2012ءمیں بی بی سی پر شائع ہونے والے کیرین پیکیما کے ایک مضمون میں مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار سے کی جانے والی سات تحقیقات کا نچوڑ پیش کیا گیا جس کے مطابق پیسے کی ہوس انسان کی قوت محرکہ نہیں ہے۔ پیسے کا لالچ ترغیب دینے کی بجائے کام کی ترغیب، فعالیت اور لگن کو ختم کرتا ہے۔
ابن خلدون کے معاشی نظریات کے پرچارک آخر اِس حقیقت سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں کہ سامراجیت کے اس عہد میں حقیقی مقابلہ بازی بھی ایک مفروضہ بن چکی ہے۔ صرف 47 ملٹی نیشنل اجارہ داریاں عالمی معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔ بڑی کمپنیاں آپس میں ساز باز کر کے کارٹیل بنا کر مختلف منڈیوں پر مناپلی بنا لیتی ہیں کیونکہ سرمایہ دار جانتے ہیں کہ آزاد منڈی کے انتشار کے مقابلے میں معاشی منصوبہ بندی زیادہ کارگر ہے۔ لیکن یہ ساز باز بھی انسانوں کی فلاح کی بجائے منافع اور استحصال میں اضافے کے لیے کیا جاتا ہے۔ منصوبہ بند معیشت کو ’انسانی آزادی‘ کے منافی قرار دینے والے سرمایہ داروں کی اپنی کمپنیوں اور فیکٹریوں میں تمام انتظام اور پیداوار بڑے پیمانے کی جامع منصوبہ بندی اور اشتراکِ عمل کے ذریعے ہوتی ہے جس کا مقصد کارکردگی اور منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔
ابن خلدون نہ ہی معیشت دان تھا نہ ہی ا±س نے کوئی نیا نظریہ پیش کیا تھا. ایسے سرمایہ دارانہ نظریات کے تحت وسیع اکثریتی آبادی کی زندگی فکر معاش کی ذلت میں کٹ جاتی ہے۔ اِن نظریات کے متضاد کارل مارکس کے نظریات زیادہ محکم اور فطرت سے ہم آہنگ ہیں. جہاں تک ’انسانی فطرت‘ کا گھسا پٹا سوال ہے تو یہ نام نہاد انسانی فطرت تاریخ میں مسلسل بدلتی رہی ہے۔ قدیم اشتراکی سماجوں میں نجی ملکیت کو ایک جرم تصور کیا جاتا تھا، پھر غلام داری کی ذلت ’انسانی فطرت‘ بن گئی، جاگیر داری بھی آئی اور ’انسانی فطرت‘ بن کے گزر گئی۔ ایک وقت میں ’فطری‘ سمجھے جانے والے ماضی کے یہ سماج آج کتنے غیر فطری لگتے ہیں! لیکن ساتھ ہی ساتھ سرمائے کے لالچ اور ہوس کو ’انسانی فطرت‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ تاریخ کا ہر حکمران طبقہ اپنے نظام کو ازلی اور ابدی قرار دیتا رہا ہے لیکن انقلابات کے انجن تاریخ کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ مادی حالات انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ جب قلت اور محرومی کے حالات بدلیں گے تو ان سے وابستہ نفسیات بھی قصہ ماضی ہوجائے گی۔
صاحبِ مضمون نے طلب اور رسد کی کہانی ڈال کر نجانے کس یوٹوپیائی دنیا کو اپنا ٹھکانہ بنایا ہے. اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ داری کی زندگی اس بات سے مشروط نہیں کہ لوگ صرف مختلف اشیا خریدتے رہیں بلکہ ضروری ہے ایک ہی شے بار بار خریدی جائے۔ اس نظام میں وہ اشیا نہیں بنائی جاتیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہے بلکہ لوگوں میں اس شے کی ضرورت کو پیدا کرنا ہی سب سے بڑا فن مانا جاتا ہے جو کہ بنائی گئی ہے اور اس بنائی گئی شے میں ایک چیز ہی لازمیت کی حامل ہو گی کہ اس میں منافع ہے۔ اور اسی منافع کی شرح کو بڑھاتے رہنا ہی سرمایہ دار کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔
صاحبِ مضمون کو ایک بات سمجھنی ہوگی کہ نہ تو روپے کا کوئی دین مذہب ہے نہ اس کے پجاریوں کا۔ ان کے لئے وہی محترم ہے جس کے پاس یہ ہے۔ ڈاکٹر فاو¿سٹ (کرسٹوفر مارلو کے کھیل کا مرکزی کردار) نے تو صرف اپنی روح بیچی تھی لیکن سرمایہ دار اپنے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ اپنا جسم، اپنا مستقبل، اپنے بچے، اپنا دین دھرم اور اپنی زندگی تک بیچ ڈالتاہے۔ اسے صرف ایک ہی لفظ یاد رہ جاتا ہے جوکہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے سے نیچے کے تنخواہ دار غلاموں کے سروں پر ننگی تلوار کی طرح لٹکتے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ لفظ ہے ’ٹارگٹ‘۔ یہ پینٹ کوٹ پہنے، ٹیکنی کلر ٹائیوں کے پھندنے لٹکائے، ٹھوڑیوں پر فرنچ رکھ کے خود کو ’ایگزیکٹیو‘ سمجھنے والے تنخواہ دار غلام مسلسل ٹارگٹ پورا کرنے کے طریقے سوچتے، ایجاد کرتے اور سیکھتے رہتے ہیں۔ ابن خلدون نے ساری عمر اپنے آقاو¿ں کے خلاف حملہ آوروں کے ساتھ تعاون کرتے اور بدلے میں ’انعامات‘ وصول کرتے گزاری۔ صاحب مضمون جیسے یہ ’دانشور‘ اپنی دانشوری بگھارتے ہوئے ایک فاش قسم کی فلسفیانہ غلطی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ معروضیت میں جا کر موضوعیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس میں ان کی ’دونوعیتی‘ یا دوہرا معیار صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ جہاں کہیں محنت کشوں کے حقوق کی یا اجتماعی انسانیت کی بات سنتے ہیں تو ’انفرادیت‘کی بین بجانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کو ذرا سا کریدا جائے تو ان کے نزدیک ’انفرادیت‘ محض ان کے اپنے آپ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر موضوعی عنصر کو پیداوار میں سے نکال باہر کر دیا جائے تو ہی روبوٹ کام کر سکتے ہیں۔ یعنی انسان کی ضرورت نہ رہے۔ اسی بات کو اگر تھوڑی سی باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان ’دانشوروں‘ کی دانشوری کا پول کھل جاتا ہے۔
سرمایہ داری کے اس پاگل پن سے نکلنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں پیداوار کا مقصد منافع یا شرح منافع نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہے۔ سرمایہ داری میں معیشت انسان کو چلاتی ہے، سوشلزم میں انسان معیشت کو اشتراکی اور جمہوری طور پر چلاتے ہیں۔ تمام افراد کو ان کی بنیادی ضروریات مزدور ریاست فراہم کرتی ہے۔ ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے اور اس طرح معاشرے کو استحصال سے مکمل طور پر پاک کیا جاتا ہے۔ یقیناًایسے سماج کی جدوجہد انسانیت کے روشن مستقبل کی واحد ضامن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments