بسنت پر کیا کریں؟


\"\"

فروری کی آمد کے ساتھ ہی جاڑا ختم ہونے لگتا ہے تو بسنت کے نام پر بحث بہت زورو شورسے شروع ہوجاتی ہے۔ پتنگ بازی ایک کھیل ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، پاکستان کے علاوہ دنیا کے اور ملکوں میں بھی پتنگ بازی کی جاتی ہے لیکن کچھ قاعدے قانون کے تحت۔

برسوں گذر گئے اس خوبصورت تہوار کو منانے ملک کے تمام حصوں سے پاکستانی لاہورجایا کرتےتھے۔ خوبصورت لباس پہنے جاتے، رنگ برنگی پتنگیں اڑا کرتیں، ذائقہ دار کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ہوتا اور جاڑے کی سردی سے مرجھائے چہروں پر بہارکے پھول کھل جاتے۔ رنگ برنگی پتنگوں سے اٹے آسمان کے نیچے جب بو کاٹا کا نعرہ لگتا تھا تو بہت سے مرجھائے چہروں پر بھی مسکان بکھر جاتی تھی۔ بسنت اس قدر مقبول ہوگئی کہ بیرون ملک سے بھی سیاحو ں کی بڑی تعداد صرف بسنت منانے کے لئے پاکستان آنے لگی اور بسنت پاکستان کی ایک خوبصورت پہچان بننے لگی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اس طرح کے تہواروں کی بدولت ہمارا نوجوان انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوا تھا۔ لیکن پھریوں ہوا کہ اس رنگوں بھرے تہوارکو نظر لگ گئی۔ اب اس رنگ برنگے تہوار میں کیمیکل ڈور، دھاتی ڈور اور تندی کی آمیزش نے خون کی رنگینی کا اضافہ کردیا۔ ایک خوبصورت تہوارسے ایک خونی تہوار میں بدل گئی۔ درجنوں جانیں ضائع اور سینکڑوں شہری زخمی ہونے لگے۔ مجبوراً ریاست آگے آئی اور پتنگ بازی پر پابندی لگ گئی۔

آج حالت یہ ہے کہ بسنت کا نام آتے ہی ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ ایسی بسنت جس میں معصوموں کی گردنیں کٹیں اور موٹرسائیکل سوار خون میں نہا کر قبر میں جا لیٹیں، ہم ایسی بسنت پر لعنت بھیجتے ہیں رہا روزگارتو کسی کی جان کی قیمت پر کوئی روزگار کرنا چاہتا ہے تو وہ بے شک بھوکا مر جائے ہمیں کوئی پروا نہیں۔ جاندار استدلا ل ہے اور اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں لیکن دوسری طرف پتنگ بازی کا شوقین طبقہ ہر صورت پتنگ بازی کی اجازت دیے جانے پر مصر ہے جبکہ حکومت اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ کسی ایک جان کی قیمت پر بھی پورے شہر کو تفریح کی اجازت دینا دانشمندی کی بات نہیں لیکن پتنگ بازوں کا ایک طبقہ کھل کھیلنے کی شتر بے مہاری کا آرزومند ہے۔ بسنت کے حامی اور مخالف دونوں کوسر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس اہم مسئلہ پر بات کرکے کوئی درمیانہ راستہ نکالنا چاہیے۔

بسنت ایک خوبصورت تہوار ہے اور اس کے منائے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن طریقہ کار ایسا ہونا چاہیے کہ تفریح کی صورت میں جو سرگرمی بھی ہو اس سے کسی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ پتنگ بازوں یا پتنگ فروشوں کی کوئی تنظیم حکومت کو یہ ضمانت دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ کیمیکل یا دھاتی ڈور استعمال نہیں ہوگی۔ تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کا بہت آسان سا حل ہے، بسنت کا تہوار زیادہ تر لاہور، قصور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں منایا جاتا ہے اگر اسے کچھ ضابطوں کا پابند بنا دیا جائے تو پنجاب کا یہ خوبصورت تہوار ایک عالمی میلے میں بدل سکتا ہے جس سے پاکستانیوں کو روزگار کے بے پناہ مواقع بھی میسر آئیں گے اورغیر ملکی زرمبادلہ بھی حاصل ہو سکے گا۔

لاہور شہر کی گنجا ن آباد یوں سے دور جلوپارک اور سوزو واٹر پارک جیسے مقامات بھی موجود ہیں، فیصل آباد میں لاہور روڈ پر گٹ والا کے مقام پر ایک وسیع عریض پارک ہے، ملتا ن کی گنجان شہری آبادی سے دور کرکٹ سٹیڈیم موجود ہے، راولپنڈی سے نکلیں تو مری روڈ پر چھتر پارک یا اسلام آباد میں لیک ویو پارک ہے، یہ چند بڑے شہروں میں موجود وہ مقامات ہیں جہاں بسنت پورے جوش و خروش سے بغیر کسی نقصان کے منائی جاسکتی ہے۔ حکومت اگرفروری اور اگست یا ستمبر کے مہینوں میں ان جگہوں پر پتنگ بازی کی اجازت دے تو بہت آسان ہے کہ یہاں آنے والے پتنگ بازوں کی ڈور کو ایک مقررہ معیار کے مطابق پر کھا جاسکے، اس طرح نہ صرف دھاتی ڈور اور ضرورت سے بڑے سائز کی پتنگوں پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور دوسرے کھیلوں کی طرح پتنگ بازی کے مقابلے بھی کروائے جاسکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments