لبرل ہونا نفرت کرنے کا لائسنس نہیں دیتا


 \"\"نفرت کرنا بہت آسان ہے۔ جو انسان ہم جیسی سوچ نہیں رکھتا اس سے باآسانی نفرت کی جا سکتی ہے۔ بچپن میں نفرتیں ہمارے اندر زبردستی ڈالی جاتی ہیں، بڑے ہو کر ہم خود ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ باقاعدہ بہت عجیب سا لگتا ہے اگر کوئی دن کسی ناپسندیدہ چیز کو دیکھے بغیر گزر جائے۔ لیکن، کیا ہر ناپسندیدہ چیز سے نفرت بھی کی جا سکتی ہے؟ اس کے خلاف لڑا بھی جا سکتا ہے؟ یا وہ نفرت اس درجے کی بھی ہو سکتی ہے کہ باقاعدہ اس کی بنیاد پر محبتوں کا فیصلہ ہو؟

کیا مزے کی بات ہے کہ دو ساتھی ہیں یا دوست کہہ لیجیے اور ان کی باہمی دوستی اس چیز پر منحصر ہے کہ ان کی نفرتیں سانجھی ہیں۔ یعنی اب محبت کرنے کے لیے بھی نفرتوں کے امتحان سے گزرنا پڑے گا اور اگر اس میں پاس ہو گئے تو بسم اللہ، آپ یاروں کے قبیلے میں ہیں ورنہ آپ کو سات سلام اور خدا حافظ۔

اس رویے کا سامنا زندگی کے ہر میدان میں کرنا پڑتا ہے۔ نفرتوں کا یہ کاروبار دفتروں، سکولوں، کارخانوں ہر جگہ رائج ہے۔ اسے ہم لابئینگ یا گروہ بندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس چیز کا سامنا بعض اوقات لکھنے والوں کو بھی رہتا ہے۔ وہ لبرل ہوں دایاں بازو ہو یا بایاں ہو، کوئی بھی نظریہ رکھنے والے ہر شخص سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مکمل اس نظریے کی تعریف پر پورا اترے گا اور بال برابر بھی ہٹے گا تو اس میں ایک دو آنچ کی کسر سمجھی جائے گی۔

نظریات انسانوں کے لیے بنتے ہیں، ٹھیک ہے بھئی کسی بھی نظرئیے کی رو سے جو بھی کام عین جائز ہے، جو محبتیں جائز ہیں، جو نفرتیں جائز ہیں، وہ ہوں گی، اپنی جگہ ہوں گی، لیکن انسان ان تمام توقعات پر پورا اترے، یہ کیا ضروری ہے۔ یہ تو ایسا ہوا گویا لبرل، دائیں یا بائیں قسم کے خیالات رکھنا کسی مخصوص فوج میں بھرتی ہونا ہے، اور اس کے بعد پارٹی ڈسپلن پر بندے قربان کرتے جائیں۔ انسان کی ذہنی آزادی ان تمام چیزوں سے بالاتر ہے۔ ہر وہ انسان جو سوچ سکتا ہے، اس کے پاس نظریات کا اپنا ایک سیٹ موجود ہوتا ہے، سوال ہی نہیں ہے کہ وہ کسی پرانے نظریاتی فریم میں فٹ ہو جائے۔ وہ یا تو کسی نئے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھے گا اور یا پھر تمام عمر کسی بھی نظرئیے کا اندھا پجاری نہیں بن پائے گا۔ ہاں، جو نہیں سوچ پائیں گے وہ بند آنکھوں سے اس سب کو فالو کریں گے جو ان کے پاس پکی پکائی کھیر کی شکل میں موجود ہو گا۔

جو استاد ہاتھ پکڑ کر آن لائن بلاگنگ میں لائے انہوں نے پہلی بات یہی سکھائی کہ بھائی جو آپ کے دل میں ہے آپ وہ لکھیں گے۔ پرواہ نہ کیجیے ٹھیک ہے، غلط ہے، سوچ جینوئن ہو، آپ کی اپنی ہو۔ الفاظ اندر سے نکلیں، اسلوب آپ کا اپنا ہو۔

تو اس چکر میں کئی بار ایسے مرحلے آئے جب لگا کہ یار لبرل ہونے کے لیے فلاں بندے سے نفرت بھی کرنی پڑے گی، یہ کیسے کی جائے؟ ایک شریف آدمی اپنی مرضی سے زندگی گزار کر مر گیا، اب ٹھیک ہے وہ ہمارے راستے پر نہیں تھا، لیکن کیا ضروری ہے کہ دفن ہونے سے پہلے اس کے مردے میں کیڑے ڈالے جائیں۔ کبھی وہ کوئی پیارا سا گلوکار تھا، کبھی وہ کوئی لکھنے والے تھے، کبھی وہ کسی اور مکتبہ فکر کے لوگ تھے، اور ان سب سے چھتیس قسم کی یادیں جڑی تھیں۔ ان سب کے خلاف کیسے لکھا جا سکتا ہے جن سے آپ نے کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔

پڑھنے کی بات آتی ہے تو اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی بلکہ تارڑ صاحب بھی کچھ حد تک دوستوں کے زیر عتاب رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اس راستے سے گزرے بغیر اگر آپ اردو ادب کی سیڑھیاں طے کر گئے ہیں تو بہت کمال کیا ہے، خاکی سمیت زیادہ تر عوام شہاب نامہ، لبیک، نکلے تیری تلاش میں یا علی پور کا ایلی وغیرہ پڑھ کر ہی کچھ مفروضے قائم کرتے ہیں اور بعد میں ان کا ہاتھ تھامے کہاں سے کہاں گھومتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کے مڑ کر دیکھنا اور اتفاق کرنا بھی بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا۔ مودودی صاحب کو پڑھا، پروفیسر احمد رفیق اختر کی بہت سی کتابیں پڑھیں، واصف صاحب کو پڑھنے کی بہت کوشش کی، نہیں سمجھ آئے، چھوڑ دیا۔ لیکن آج کسی بھی موڑ پر ان سب لکھنے والوں کی ذاتیات پر بعد کی جائے، یہ کچھ سستی حرکت لگتی ہے۔

نظریے سے اختلاف عین ممکن ہے۔ اس پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ بحث در بحث ممکن ہے۔ لیکن اس اختلاف میں شخصی حالات یا پرسنیلیٹی کو گھسیٹ لانا اور پھر عین وفات والے دن مذمتی کالم لکھنا، یہ سب ہماری اقدار بہرحال ہمیں نہیں سکھاتیں۔

لبرل ہونا نفرت کرنا نہیں سکھاتا۔ لبرل ہونا ایک عام آدمی کو بس اتنا سکھاتا ہے کہ انسان کو اظہار رائے کی آزادی ہو اور نظریات پر تبادلہ خیال مہذب انداز میں کیا جائے۔ جو شخص پسند نہیں بے شک ان کے بارے میں لکھیں لیکن اگر اس لکھنے کا مقصد دل کی بھڑاس نکالنا یا ذاتی خیالات کا پرچار کرنا ہو، اور اس سب کے لیے وقت بھی غلط چنا جائے، تو ناممکن ہے کہ وہ تحریر ان دماغوں پر اثر انداز ہو جائے جو مذکورہ شخصیات کی عقیدت میں گرفتار ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments