کوئی بھی فریق مکمل سچ کے ساتھ سامنے نہیں آرہا، عدالت کیا کرے؟


\"\"

پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے پانچ جج آج بظاہر مشکل صورتحال میں نظر آئے، جیسے انسان مسلسل یکسانیت سے اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر کوئی مسئلہ حل نہ ہو تو جھنجھلاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل پوری طرح اس کیفیت میں جکڑے دکھائی دیے۔ کارروائی کی تفصیل پڑھیے۔

مقدمے کی سماعت کے آغاز پر وکیل سلمان راجا نے جسٹس عظمت سعید کی صحت یابی پر خوشی کا اظہارکیا اور جسٹس آصف کھوسہ نے جسٹس عظمت کی صحت یابی تک مقدمے کی سماعت کا انتظار کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان راجا نے پانچ رکنی عدالتی بنچ کے سامنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا مجھ سے کچھ سوال کیے گئے ہیں، یہ کہ گلف اسٹیل مل کے ذمے واجب الادا قرض کیسے ادا کیا گیا؟ طارق شفیع نے اپنے بیان حلفی نے اپنے کیوں نہ بتایا کہ بارہ ملین درہم عبدالرحمان اہلی نقد وصول کیے تھے؟ میاں شریف نے ثانی خاندان کو رقم بنک کے ذریعے کیوں ٹرانسفر نہ کی جبکہ وہ قرض بنک سے لیتے رہے؟ میاں شریف اور شیخ جاسم کے درمیان 1980 سے 1999 کے عرصہ کی خط و کتابت کا ریکارڈ کہاں ہے؟ اور کیا شریف خاندان میاں شریف کی سرمایہ کاری سے آگاہ تھا؟ کیا نیلسن اور نیسکول کمپنی کے شیئرز کی ملکیت کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرایا گیا ہے؟

وکیل سلمان راجا نے کہا ان سوالوں کے جواب مختصرطورپر اور تفصیلی دلائل میں بھی دے ہیں۔ عدالت کے سامنے اب کچھ قانونی سوالات بھی رکھتا ہوں جو یہ ہیں۔ حسین نواز پر بارثبوت کس طرح کا اور کس حد تک ہے؟ ایسی صورت میں جب حسین نواز جواب دے چکے اور درخواست گزار کے پاس اس کے جواب کے متضاد کوئی ثبوت نہیں؟ کیا سپریم کورٹ وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے جو آئین نے دوسری عدالتوں کو دیے ہیں؟ کیا سپریم کورٹ کو خود سے کوئی ایسی ان کوائری کرنی چاہیے؟ ایسی ان کوائری جس میں شریف خاندان یا وزیراعظم کے 45 برس میں کسی غلط کام کی تلاش کرنا ہو؟ کیا سپریم کورٹ کی سطح پر کسی ملزم کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس طرح ملزم کو فیصلے کے خلاف اپیل کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ عدالت کسی مبینہ جرم کی ان کوائری کرسکتی ہے جس کا صرف الزام ہی ہو؟ کیا یہ عدالت پہلے ہی سے اس طرح کی ان کوائری کرا سکتی ہے جبکہ کسی تفتیشی ادارے کے پاس معاملہ گیا ہی نہ ہو؟ کیا یہ مقدمہ قانون کے مطابق قومی احتساب بیورو کا نہیں؟ کیا یہ عدالت کسی بھی مبینہ ثبوت کو جانچے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے؟

وکیل نے کہا نہ یہ ٹرائل ہے اور نہ میرے موکل گواہ ہیں، جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دوں گا، چالیس پینتالیس سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، عدالت بھی جانتی ہے کہ 1999 کے مارشل لا کی وجہ سے شریف خاندانی کی دستاویزات ضائع ہوئیں، کیا عدالت ان کوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے؟ میر ی رائے میں نہیں پہنچ سکتی۔ وکیل نے کہا چونکہ وزیراعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں، اس لئے ان کے بچوں کے خلاف بھی اس کیس میںکارروائی ممکن نہیں۔ وکیل بولے، میرا یہ جوباب قانون کے مطابق تین بنیادوں پر ہے، اگر وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تب بار ثبوت ان کے سر نہیں، یہ فوجداری مقدمہ نہیں، اگر حسن حسین ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف الزام میں کوئی ثبوت موجود نہیں، اگر حسین نواز کے انٹرویو کو دیکھنا ہے تو اس کے سیاق وسباق میں دیکھنا ہوگا اس حوالے سے عدالت عظمی کے فیصلے موجود ہیں، ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے ٹرائل متعلقہ فورم/عدالت میں ہی ہو سکتا ہے، قانون کے مطابق اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل سمیت دیگر کرپشن کے مقدمات کی تفتیش بھی متعلقہ اداروں سے کرائی، سپریم کورٹ خود بیٹھ کر ان کوائری نہیں کرسکتی۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اگر قانونی سوالات دلائل کے اختتام پر اٹھائیں تو بہتر ہوگا پہلے حسین نواز کا موقف بتائیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا لندن فلیٹس کی ملکیت حسین نواز کی ہے اس پر کوئی سوال نہیں، کیا یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ یہ فلیٹس کیسے خریدے گئے۔ سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا حسین نواز نے لندن فلیٹس دادا کے کاروبار کے ذریعے لئے، درخواست گزار کا کہنا ہے کہ فلیٹس وزیر اعظم کے ہیں اور اس کے لئے وہ 1999 کے لندن عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے، دوسری جانب لندن کی عدالت میں درخواست دینے والے شیزی نقوی نے کہا ہے کہ انہوں نے اس وقت فلیٹوں کو عدالتی حکم کے ذریعے گروی رکھنے کی درخواست رحمان ملک کی رپورٹ کی روشنی میں دی تھی ان کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس وقت یہ فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت ہیں، اسی شیزی نقوی نے اب نیا بیان حلفی بھی دیا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ بولے یہ بھی کہا گیا کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔ وکیل نے کہا رحمان ملک اس وقت معطل افسر تھے اور ایف آئی اے میں موجود نہیں تھے نہ ہی ان کی رپورٹ کی سرکاری حیثیت ہے، انہوں نے ذاتی تشہیر کے لئے وہ رپورٹ صدر مملکت کو بھجوائی اور میڈیا میں جاری کی۔

جسٹس اعجاز ا الاحسن نے سوال کیا رحمان ملک نے رپورٹ میں جن اکاؤنٹس اور افراد کا ذکر کیا ہے کیا اس سے انکار کر تے ہیں۔ وکیل بولے، اس رپورٹ کو مسترد کرتا ہوں اور لاھور ہائی کورٹ بھی رپورٹ کو مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکی ہے، قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیر اعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے۔ ترانوے سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹس کے بیریئر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالےکیے، جولائی 2006 میں یہ بیریئر سرٹیفیکیٹ منسوخ کرکے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔ یہاں کافی دیر سے خاموش جسٹس عظمت سعید کی فارم میں واپسی ہوئی اور بولے اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کریں گے، آپ پہلے دن سے ہمارے ساتھ ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو دکھائیں۔

بولے، الزام ہے کہ منروا کمپنی نے مریم نواز سے مالک ہونے کی وجہ سے رابطہ کیا۔ وکیل نے کہا منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی رہی ہے۔ وکیل نے کہا مریم کی ملکیت کا الزام اس لیے لگایا جاتاہے کہ ان کو وزیراعظم کے زیرکفالت ثابت ہونے پر نا اہلی کامعاملہ اٹھایا جائے۔ وکیل نے کہا مالک بہن ہے یا بھائی، کوئی بڑی بات نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا رسیدیں دکھائیں منروا کمپنی کو فلیٹوں کی دیکھ بھال کے لئے ادائیگی کون کرتا ہے۔ (پھر ہنستے ہوئے بولے دیگر ججوں نے زیادہ بولنے سے منع کیا ہے کہ خودکشی مت کرو)۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا جج صاحب کا سوال واضح ہے جواب دیں۔ وکیل نے کہا جوا کھیلنے والا آدمی نہیں، جو کچھ ریکارڈ پر دستیاب ہوا پیش کروں گا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا پہلے کہہ چکے ہیں معاملہ دیانتداری کا ہے کیونکہ وزیراعظم خطاب میں بات کرچکے ہیں، بتایا جائے حسین نواز کو فلیٹس کیسے منتقل ہوئے؟ شیخ حمد بن جاسم نے لکھا تھا کہ ان کو یاد پڑتا ہے۔ (اس بات پر عمران خان اور جہانگیرترین کے ہنسنے کی آوازیں سنی گئیں)۔ وکیل نے کہا دستاویز موجود ہے جس کے مطابق سرٹیفیکیٹ شیخ حمد بن جاسم کے نمائندے ناصر خمیس نے حسین نواز کے نمائندے وقار احمد کے حوالے کیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کیا ثانی خاندان اور میاں شریف کے درمیان معاملات 26 سال تک زبانی ہی رہے؟ وکیل بولے، اس کا تعلق حسین نواز سے نہیں، جواب نہیں دے سکتا، جتنی دستاویزات موجو د ہیں پیش کرچکا ہوں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، حسین کہتا ہے اس کو دادا کے ثانی خاندان سے کاروبار کا بتایا گیا، یہ کس نے بتایا؟ بتانے والا کون تھا؟ وکیل بولے، یہ شیخ حمد کے نمائندے ناصر خمیس نے بتایا، ناصر زندہ ہے، عدالت ٹرائل کرے تو اس کو طلب کرکے بیان ریکارڈ کرلے، ٹرائل کیے بغیر نتائج کیسے اخذ کیے جاسکتے ہیں؟ جسٹس کھوسہ نے طنزیہ کہا، لندن میں دو طلبہ کے لئے چار فلیٹس تھے۔ وکیل بولے، ایک اور طالب علم حمزہ شہباز بھی تھا۔ جج نے کہا، آج آپ ایک اور طالب علم بھی سامنے لے آئے ہیں، کیا یہ بتایا گیا ہے؟ وکیل بولے، یقین سے نہیں کہہ سکتا، حمزہ کچھ عرصہ وہاں پڑھتے رہے، تاہم اس بات کا مقدمے سے تعلق نہیں اس لیے واپس دلائل پر آتا ہوں۔

جسٹس کھوسہ نے کہا، نائن الیون سے دنیا تبدیل ہوئی تو پھر فلیٹوں کی ملکیت کی رجسٹریشن کرانا پڑی کیونکہ لندن میں بھی قانون بدل گیا۔ وکیل نے کہا، نیلسن اور نیسکول کے شیئرز سرٹیفیکٹ قطر میں پڑے تھے، جب قانون تبدیل ہوا تو سرٹیفیکیٹ منسوخ کرکے رجسٹرڈ شیئرز میں بدلنے پڑے۔ جسٹس کھوسہ بولے، تنازع حسین نواز کی ملکیت کا نہیں، یہ ہے کہ کب سے مالک ہیں۔ وکیل نے کہا، جنوری 2006 سے مالک ہیں، کسی کے پاس اس کے علاوہ ثبوت ہیں تو لے آئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا، سامبا بنک کو مریم نواز کا نام سامنے لانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ ( اس موقع پر عمران خان کو خوشی سے کرسی پر آگے جھک کر جج کی بات سنتے دیکھا گیا)۔ وکیل بولے، اس لیے کہ حسین نے مریم کو اپنا ٹرسٹی نامزد کیا تھا۔ جسٹس عظمت نے پوچھا، وہ کاغذ کہاں ہے جس پر لکھا ہے کہ حسین فلیٹوں کے مالک ہیں؟ جب سرٹیفیکیٹ منسوخ ہوئے تو شیئرز کیسے منتقل کیے گئے اس کا ریکارڈ دیں۔ جسٹس کھوسہ بولے، یہ اہم بات پہلے دن سے پوچھ رہے ہیں، اسی کا جواب کیس کو بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔

اس کے بعد عدالتی وقفہ ہوا۔ وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو وکیل سلمان راجا نے فلیٹوں کی حوالگی کی رام کہانی تفصیل کے ساتھ سنانا شروع کی۔

وکیل بولے، جنوری دوہزار چھ میں جب بیرئیر سرٹیفیکیٹ ملے تو حسین نواز نے منروا کمپنی کی خدمات حاصل کیں، حسین نے جولائی دوہزار چھ میں شیئرز منروا کے نام منتقل کیے تو مریم کو ٹرسٹی نامزد کیا۔ جسٹس گلزار نے پوچھا اس سے قبل فلیٹوں کی دیکھ بھال کون سی کمپنی کر رہی تھی؟ وکیل بولے، دوہزار چھ سے قبل اس بات کا قطر کے شاہی خاندان کو ہی علم ہوگا، یا پھر رحمان ملک نے اپنی رپورٹ میں اس کمپنی کا ذکر کیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا، جب منروا کمپنی نے فلیٹوں کا انتظام سنبھالا تو اس کا کوئی ریکارڈ بھی بنایا ہوگا۔ وکیل بولے، کمپنی نے ضرورایسا ریکارڈ تیار کیا ہوگا۔ جج نے کہا، پھر آپ کو کس نے وہ ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے سے روکا؟ وکیل نے جواب دیا، مسئلہ یہ ہے کہ دوہزار چودہ میں منروا کمپنی سے فلیٹوں کا انتظام واپس لے کر ایک اور کمپنی جے وی سی اے کے حوالے کیا گیا، حسین نواز سے کہوں گا ممکن ہو تو منرواسے دو ہزار چھ کا ریکارڈ حاصل کرلیں۔ وکیل نے کہا، درخواست گزار نے مریم کے مالک ہونے کے لئے جس دستاویزکا سہارا لیا وہ جعلی ہے، ہم نے منروا کمپنی سے رابطہ کرکے پوچھا تو اس کاجواب تھا کہ ایسی کوئی دستاویز انہوں نے جاری ہی نہیں کی جس پر مریم نواز کو مالک ظاہر کیا گیا ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ بہت اہم معاملہ ہے اتنے عامیانہ انداز سے کیوں لے رہے ہیں؟ وکیل نے کہا، عامیانہ نہیں مگر کمپنی نے خود انکار کیا ہے تو پھر اس دستاویز کی کیا حیثیت ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا 2008 میں لندن فلیٹس جرمن بنک کے پاس گروی رکھے گئے ان دستاویزات پر کس کے دستخط ہیں؟ وکیل نے کہا کیس 2006 سے پہلے کی ملکیت کا ہے تاہم اگر عدالت چاہتی ہے تو بنک گروی معاملے کی دستاویزات بھی دستیابی کی صورت میں پیش کردوں گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا حسین نواز نے گزشتہ سال ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے گروی جائیداد (مارگیج )خریدی اور ابھی تک رقم ادا کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا عجیب صورتحال سے دوچار ہیں، پیاز کی طرح ایک اتارتے ہیں تودوسرا چھلکا سامنے ہوتاہے، معلومات کہاں سے حاصل کریں؟ درخواست گزار کہتا ہے میرے پاس نہیں، آپ بھی کہتے ہیں کچھ ہیں کچھ نہیں، معاملے کو کیسے سمیٹیں؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ والدین نے کہا فلیٹ خریدے گئے، بیٹا کہہ رہا ہے مارگیج سے لیے، بیٹی کچھ اور کہہ رہی ہیں۔

(اس موقع پر جسٹس اعجاز اور جسٹس عظمت عدالتی کارروائی سے لاتعلق آپس میں سرگوشیاں کرتے دیکھے گئے تو ہمیں لگا کہ کوئی میزائل داغا جانے والاہے)۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا ہم مزید دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، مفروضے سامنے ہیں اور ان کوائری بھی نہیں کررہے۔ وکیل نے کہا یہ عدالت ان کوائری کرنے کی مجاز بھی نہیں ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا پھر اس معاملے کا اختتام کہاں ہوگا؟ جب کوئی بھی فریق مکمل سچ کے ساتھ سامنے نہیں آرہا، عدالت کیا کرے؟ آپ کے موکل سے تفصیلی تفتیش کی ضرورت ہے مگریہاں فوجداری نہیں سول مقدمہ سن رہے ہیں۔

وکیل نے کہا معاملہ خاندانی کاروبار کاہے، فلیٹ قطر کے شیخ نے منتقل کیے، مختلف ممالک کے شاہی خاندانوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں اوریہ کوئی انہونی بات نہیں، حکمران خاندان بھی ایک دوسرے سے تعلقات بناتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کو تحائف بھی دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشکل حالات میں نوازشریف کی مدد کے لئے ایک سے زیادہ ممالک کے حکمران خاندانوں نے مداخلت کی اوروہ سات برس کے لئے بیرون ملک جلاوطن ہوئے، پرویز مشرف نے بھی دس لاکھ ریال کے تحائف وصول کیے، اسی طرح ملائیشیا کے سابق صدر نے بھی ساٹھ لاکھ ڈاکر کے تحائف لینے کا اعتراف کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا، کیا تحائف کیا یہ تبادلہ یک طرفہ ہوتاہے؟ کیا قطر کے شاہی خاندان کی پاکستان میں بھی سرمایہ کاری ہے؟ وکیل نے کہا معلومات نہیں، عدالت پوچھے گی تو حاصل کرکے آگاہ کردوںگا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا، مگر مشکل وقت ننانوے میں آیا تھا، بچے تو ترانوے سے لندن فلیٹوں میں مقیم تھے۔ وکیل بولے، دونوں خاندانوں کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، چورانوے میں ایک طالب علم تھا اور چار فلیٹ تھے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا، رہائش پذیر ہونا بھی قبضے میں ہونا ہے اگر یہ مفروضہ ہی ہو۔ وکیل بولے، جواب دے چکاہوں کہ ملکیت دوہزار چھ کی ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا، چار اپریل دوہزار سولہ کو حسین نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ فلیٹ دوہزار چھ میں جدہ مل کی فروخت کی رقم سے خریدے۔ وکیل نے کہا، حسن اور حسین کے پاس لندن میں کئی جائیدادیں ہیں واضح نہیں کہ جس انٹرویو کا آپ کہہ رہے ہیں کس جائیداد کی بات ہوئی ہے، ٹی وی انٹرویو اور دستاویزی ریکارڈ الگ چیزیں ہیں۔

وکیل نے کہا فلیٹ حسین کے ہیں یا مریم کے یہ کوئی بڑا تنازع نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا یہی سب سے اہم سوال ہے۔ وکیل نے کہا یہ اسی وقت اہم ہوگا جب مریم کا وزیراعظم کے زیرکفالت ہونا ثابت ہوجائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا مریم نواز نے 2011میں ٹی وی انٹرویو میں کہاتھا ان کی کوئی جائیداد نہیں، اور پاکستان میں بھی نہیں حالانکہ زرعی زمین کی مالک ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا بدقسمتی سے ہر وہ چیز ان کے خلاف جارہی ہے جو ان کے اپنے منہ کی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا، ہم کس بحث میں پڑ گئے ہیں، مریم نواز نے انٹرویو میں جن الزامات کے جواب دیے وہ پنجاب اسمبلی کے ایک رکن نے لگائے، مریم نواز عوامی نمائندہ نہیں اس لیے ان کی نا اہلی کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں۔ وکیل نے کہا، فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے، یہ عدالت صرف دیکھے گی کہ کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس پر فیصلہ دے گی، اس کے لئے عدالت محتاط ہوکر ہر پہلوکو مدنظر رکھے۔ جسٹس عظمت بولے، اسی لیے چھوٹے قدم اٹھاکر بڑھ رہے ہیں۔ وکیل نے کہا مقدمے میں تین قانونی باتیں مدنظر رکھی جائیں، ایک یہ کہ عوامی مفاد کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپیل کا حق نہیں ہوتا، کیا میرے موکل کا یہ حق ختم کیا جاسکتاہے؟ اس طرح کا مقدمہ صرف متعلقہ عدالت یعنی ٹرائل کورٹ میں ہی سنا جاسکتاہے اور تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ان کوائری یا تفتیش متعلقہ ادارے ہی کرسکتے ہیں۔ سماعت کے وقت کے اختتام پر ججوں نے کہا اس طرح تو درخواست گزار کے اس نکتے کے حق میں بات جائے گی کہ چیئرمین نیب کو حدیبیہ پیپرز مل کیس کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لئے کہا جائے۔ وکیل نے کہا وہ معاملہ میرے موکل سے متعلق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments