ہم ناکام قوم ہیں اور ذمہ دار ہمارا ناکارہ نظام تعلیم ہے
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ نہ تو یہ علوم سیکھنے والے افراد پیدا کر رہا ہے اور نہ ہی منطقی انداز میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے۔ اگر پیٹنٹ حاصل کرنے کو ایجادات اور علوم کی نئی جہتیں ماپنے کا معیار بنایا جائے تو پاکستانیوں کا مقام شرمناک حد تک نچلے درجات پر ہے حالانکہ آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کے بڑے ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں۔
اس فکری جمود کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر نوجوان بلکہ اساتذہ بھی منطقی انداز میں سوچنے سمجھنے سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ تخلیق کی بجائے تقلید پر ان کا یقین ہے۔ کسی چیز کا تجزیہ کرنے کی بجائے وہ سنی سنائی سازشی تھیوریوں پر ایمان لانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مکالمے اور رواداری سے وہ ناآشنا ہیں اور اپنی رائے سے مختلف رائے پا کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے اور ایسی رائے رکھنے والا ان کو دین و وطن کا غدار اور غیر ملکی ایجنٹ دکھائی دیتا ہے۔
بنیادی شہری اخلاقیات سے ہمارا معاشرہ ناآشنا ہے۔ ہم کوڑے دانوں میں کوڑا ڈالنے کی بجائے سڑک پر پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ قدرتی حسن کی تلاش میں دور درا کے پہاڑوں پر جاتے ہیں اور ادھر کوڑا پھینک کر ان کو کچرے کے ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو شکریہ کہنے کے روادار نہیں ہیں اور دوسرے شہری کی مدد کرنے کی بجائے اپنے اختیارات کو استعمال کر کے اسے تنگ کرتے ہیں۔
آپ سڑک پر نکل جائیں تو آپ کو قانون توڑنے کے مناظر عام دکھائی دیں گے۔ سو میٹر آگے جا کر یوٹرن لینے کی بجائے بڑی شاہراؤں پر بھی اپنی اور دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈال کر ون وے کی خلاف ورزی کرتے لوگ عام دکھائی دیتے ہیں۔ راستے میں پانچ سیکنڈ کے لئے بریک لگا کر دوسرے شخص کو راستہ دینے کی بجائے ہم اپنی گاڑی راستے میں پھنسا دیتے ہیں اور چوک پر ٹریفک جام کر کے آدھے گھنٹے تک خود بھی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔
ان رویوں کی جڑ بہت حد تک ہمارے نظام تعلیم میں ہے۔ ہمارے تمام تر اخلاقی برتری کے دعووں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی اور علمی طور پر ایک پست مقام پر کھڑے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ کسی ترقی یافتہ اور پرامن معاشرے کا نصاب لے کر وہ چلا دیا جائے تاکہ اس معاشرے کے کچھ مثبت اثرات ہمارے معاشرے میں بھی آ سکیں؟ اس غیر ملکی نصاب میں لازمی مضامین کے طور پر مطالعہ پاکستان اسلامیات وغیرہ ضرور ڈالیں لیکن باقی مضامین تو معیاری رکھیں۔
غیر ملکی زبانوں کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ پلے گروپ سے لے کر ایم اے تک 19 سال انگریزی سکھانے کے باوجود اگر طالب علم نہ تو روانی سے انگریزی بول سکتا ہے اور نہ ہی اس میں خط لکھ سکتا ہے تو پھر 19 سال وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
انگریزی بولنے والے گورے بھی اپنے طلبہ کو سکول میں ہی انگریزی کی بزنس کمیونیکیشن اور کری ایٹو رائٹنگ (تخلیقی تحریر نگاری) سکھاتے ہیں اور ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ یہ کیا بلائیں ہیں۔ انہوں نے سپینی فرانسیسی وغیرہ جیسی غیر ملکی زبان سکھانی ہو تو چھے مہینے سال میں ہی ٹوٹی پھوٹی زبان بولنے کا اہل بنا دیتے ہیں اور ایک دو سال میں یہ اجنبی زبان طالب علم کی مناسب دسترس آ جاتی ہے۔ غیر ملکی نظام تعلیم میں یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ کسی ایک غیر ملکی زبان کو سکھانے پر توجہ دیتے ہیں اور طالب علم کے لئے یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کون سی زبان منتخب کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر طالب علم پر تین چار نامانوس زبانیں ٹھونس دے، کیا ہم انگریزی یا عربی فارسی وغیرہ کو اختیاری مضامین کے طور پر ان خطوط پر نہیں پڑھا سکتے ہیں؟
ہمارے نظام تعلیم اور نصاب میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جو کہ ہمارے بچوں کو انسانیت سے محبت کرنا سکھا سکے اور نمبر حاصل کرنے کی بجائے علم حاصل کرنے کی طرف مائل کرے۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).