مرے وطن، ترے دامان تار تار کی خیر


\"\"دوران سفر گاڑی سے باہر دوڑتے بھاگتے مناظر اور ان کے ساتھ ساتھ آتے جاتے منتشر خیالات، کیا سوچوں اسی ایک سوال کے پیچھے کئی خیالات ناراض ہوکر منھ موڑ جاتے ہیں۔ چاہ کر ہی تو کچھ نہیں سوچا جاسکتا نا! خیال میں مصنوعی پن در آتا ہے، اور پھر نہ سوچ اپنی رہتی ہے نہ خیال۔ ہاں جب ذہن آزاد چھوڑ دیا جائےاور آنکھوں کا کام نظارہ ہی طے پائے تو آنکھوں کےراستے کیسے کیسے مناظر، اور کتنی ہی یادیں دماغ میں اپنا راستہ بنا کر خیالات کی لہریں بن کر پورے جسم میں دوڑ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی خیال کی رو سارے جسم کو خوشی سے بھر کر ترنگ اور سرخوشی میں مبتلا کرتی ہے تو کبھی کسی پریشانی اور الجھن کی صورت جسمانی اضطراب اور ارتعاش کی صورت اپنا اظہار بن جاتی ہے۔
ہاں یوں ہی خیالات کا ایک تار بنتا چلا جاتا ہے، یہ خیالات کا تار جو کبھی کسی جدائی سے جڑا ہوتا ہے تو کبھی ملن سے، کبھی اس میں حسد کے جذبات ہوتے ہیں تو کبھی رشک کے۔ کبھی محبوب کی یاد سےچٹکی لیتا ایک خیال اور پھر خیالات کا ایک مسلسل تار۔۔۔
ہاں تار!
تار جو کبھی کسی زمانے میں اپنوں کا پیام لاتا تھا۔ کبھی کسی دور دیس کا شہزادہ جو برقی تار یا تار بابو کے ذریعے اپنی آمد کی اطلاع دیتا اور پھر دل اس تار کی لے پر اڑا اڑا پھرتا۔ کون ہوگا، کیسا ہوگا، اپنا بنے گا یا غیر رہے گا، ہائے تن من ڈولے جاتا۔ کبھی یہ تار خوشی کی خبر لاتا تو کبھی غم کی۔ خوشی کی خبر آتے ہی اس کے خیرمقدم کا اہتمام ہوتا تو غم کی خبر ملتے ہی آنکھوں سے اشکوں کا تار رواں ہوجاتا۔
جب صدمے اور دکھ کی کیفیت اس حد تک بڑھ جائے کہ یہ قطرہ قطرہ مل کر نمکین موتیوں کی لڑی بنالیں اور ان لڑیوں کا تار بندھ کر ہر لڑی سلسلہ وار آنکھوں سے پھسل پھسل کر گالوں کو بھگوتی، لبوں کو چومتی اور ٹھوڑی سے ٹپک کر لباس میں گم ہوجاتی ہیں تو کبھی دوپٹے اور رومالوں سے پونچھ لی جاتی ہیں۔
اور کچھ رومال بھی تو ایسے ہوتے ہیں نا جو اسی ستم گر کے نام سے سجے ہوتے ہیں جو ان اشکوں کی وجہ بنتا ہے۔ ان کی بنت کے تاروں میں آنسو دینے والا کا نام چھپا ہوتا ہے تو کبھی رنگ برنگ تار سے دل بنا کر اس ظالم دشمن جاں کا نام کاڑھ لیا جاتا ہے۔ کبھی یہ زر تار گھونگھٹ بن کر سہاگن کے ماتھے پر سج کر اس کے رخ روشن کو چھپا لیتے ہیں تو کیسے نوجوان دل اس چہرے کو اک نظر دیکھنے کو مچلتے ہیں۔ اور کبھی یہ تار عزت کی چادر بن کر مرد و زن کے وجود کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں عزت کا تصور لباس کے تار کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ ذرا بھی سماج کے قاعدوں سے ہٹ کر ملبوس ہوئے اور عزت تار تار ہوجاتی ہے۔ کبھی عاشق کا تار تار گریبان بن کر اس کی تشنگی و بےتابی کو عیاں کرڈالتی ہے۔ کبھی یہ تسبیح کا تار بن کر الہامی ذکر کی امین بنتی ہے تو کبھی شمع کا تار بن کر رات بھر جلنا اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ کبھی تارکشی کی صورت لباس کو نت نئے انداز دیتی ہے تو کبھی تار توڑ کی صورت نقش و نگار اور بیل بوٹے ترتیب دیتی ہے۔
کہیں یہ کفن کا تار بھی تو ہوتی ہے۔ ان تمام زندوں کا کفن جو اس دنیا میں آتے ہیں اور اس بے وفا کو ایسے اپنا لیتے ہیں کہ جانے کے نام سے ہی جان جانے لگتی ہے۔ لیکن یہ تار نفس جو پیدائش کے ساتھ ہی زندگی کی علامت بنتا ہے اس سانس کا سلسلہ یکدم ایسے رک جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔
کبھی یہ تار و پود مل کر زندگی کو جنم دیتے ہیں تو کبھی ان گنت واقعات کا تار بن جاتے ہیں۔ کچھ واقعات بھی تو کیسے دلخراش ہوتے ہیں، جیسے دھاتی تار سے زخمی ہوجانے اور جان سے گزر جانے کے واقعات۔ ان دھاتی تاروں نے واقعی پتنگوں میں استعمال ہوکر ایک حسین کھیل ہی نہیں بلکہ پوری بسنت رت کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ دھاتی تار کی ایک صورت یہ بجلی کے تار بھی تو ہیں جو سائنس کی ترقی کے رازدار ہیں۔ اور اب تو سائنس بھی ایسی ترقی پاگئی ہے کہ بے تار پیام رسانی بھی اس کا جز بن گئی ہے۔ کبھی یہ تار بجلی کے کھمبوں میں اٹکا کر بجلی چوری کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ان سے نہ صرف ملک و قوم کا نقصان ہے بلکہ لوڈشیڈنگ میں اضافے کی بنیادی وجہ بھی تو یہی ہے۔ بجلی کے کھمبوں کے پاس تاروں کے ایسے گچھے نظر آتے ہیں کہ کیا کسی محبوبہ کی زلفوں کے الجھے تار ہوں گے۔
ہائے محبوبہ کی زلفوں کے تار بھی کیسے کیسے عشاق کے دلوں کو برماتے اور ان کے رگ و پے میں نرم گرم لہریں دوڑاتے ہیں۔ کچھ زلفوں کے تار کسی دل کو فتح نہیں کرپاتے اور بالآخر چاندی کے تار بن کر کنوارے ارمانوں کو ناآسودگی بخش کر زلفوں کے سیاہ تاروں کے بیچ چمکنے لگتے ہیں۔ یہ چاندی کے تار جنھیں دنیا سے چھپانے اور اپنی عمر رفتہ کو آواز دینے کی خاطر لوگ سیاہی سے رنگ لیتے ہیں۔ لیکن زندگی کے تجربات اور دکھوں کے نشان چہروں پر کئی تار نما نشان رقم کر جاتے ہیں۔ وہ دکھ اور بےقراریاں جو کئی تیرہ و تار راتوں کا ثمر ہوتی ہیں۔ کسی شب تار کے امین جب آنکھیں پرنم ہوتی ہیں اور دل کسی یاد کے تار سے جڑا۔ کچھ یادیں بھی تو ایسی نغمہ بار و مترنم ہوا کرتی ہیں جیسے کسی آلہ موسیقی کے تار آپس میں ٹکرا کر سریلی آوازوں اور شاعری کو حسن دوام بخش دیتے ہیں۔
زندگی بھی تو کئی کھٹے میٹھے سروں کا مجموعہ ہے۔ جہاں کوئی ایک تار بھی اونچا نیچا ہوجائے تو ساری لے بگڑ جاتی ہے۔ اور میٹھا بھی تو اپنی مٹھاس پوری طرح نہیں دے پاتا جب تک شکر یا قوام کا تار اچھی طرح نہ بن جائے۔ میٹھے اور مرغن کھانے اور پکانے والے تار کی اچھی پہچان رکھتے ہیں۔ بالخصوص اہل مشرق کی خواتین جو کھانا پکتے ساتھ ہی سالن کا تار اتار کر الگ برتن میں رکھ دیا کرتی ہیں کہ ان کے شوہر اس لذیذ سالن کی لذت اپنی زبان سے معدے میں اتار کر انھیں مسکرا کر دیکھیں اور ان کے دل کے تار چھیڑ جائیں۔
کیا ہیں یہ خیالات بھی تار عنکبوت کی طرح ایک دوسرے میں باہم پیوست اور منسلک لیکن جدا جدا رنگوں کے حامل۔ کیسے ایک خیال آتا ہے اور پھر خیالات کا تار ہی بندھ جاتا ہے نا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments