ردائے بانو، قبائے خواجہ


\"\" خبر معمولی سی تھی، افواہ بھی ہو سکتی تھی لیکن انفارمیشن کے بے ہنگم ہجوم کے اس دور میں کسے یہ توفیق اور فرصت کہ وہ افواہوں کی تصدیق کرتا پھرے۔ چنانچہ لیڈیز سٹاف روم کے اس سرے سے اس سرے تک ہاہا کار بلکہ ہاہا بے کار مچی ہوئی تھی۔ اپنی اپنی ڈفلی اٹھا کر اپنا اپنا راگ گانے کا سلسلہ اس شد و مد سے جاری تھا کہ سٹاف روم قومی اسمبلی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ گنوار لیکچرر اور پروفیسران پڑھے لکھے ا رکانِ اسمبلی کی طرح ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔ البتہ یہ لڑائی ہاتھا پائی نہیں بلکہ منہ زبانی تھی۔ ہر کوئی اپنی سنانے سے زیادہ دوسرے کی نہ سننے پر بضد تھا۔ خبر کسی کے شوہرِنامدارو نامراد نے انگریزی اخبار سے پڑھ کر سنائی تھی کہ حکومت کالجوں کے اساتذہ کی یونیفارم مقرر کرنے کے حکم نامے پر غور کر رہی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم نے اس خبر کو افواہ کیوں قرار دیا؟ جواب یہ ہے کہ شوہر بیوی کو اگردرست خبریں دینے لگ جائے تو ان دونوں کا یہ عمرانی معاہدہ کتنے دن چل سکتا ہے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔ بیویاں بھلے لیکچرار ہی کیوں نہ ہوں بہر حال \”ان\” کی بات کو خواہی نہ خواہی درست تسلیم کرتی ہیں اور اگر\” انھوں \”نے سامنے ڈان اخبار پھیلا رکھا ہو تو تصدیق کی ضرورت ہے نہ حاجت۔ چنانچہ یہ خبر پٹرول بم سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی اور سٹاف روم میں موجود تمام خواتین اپنی فطرت اور روایت کے عین مطابق ایک ساتھ اظہارِخیال فرماتے ہوئے ایک دوسری سے اتفاق اور اختلاف کرنے لگیں۔

اس عالمِ نا سنوائی میں ہمارا تخیل آگے کی طرف دوڑ کر وہ منظر پیش کررہا تھا جس میں کالج سٹاف رومز ہر رنگ و بو اور جسامت کے باوردی خواتین وحضرات سے بھرے پڑے ہوں گے۔ چونکہ ہمارا واسطہ اور مشاہدہ صرف خواتین سٹاف رومز تک ہی محدود ہے لہذا ہم نے تخیل کی تحدید و تطہیر کرتے ہوئے حضرات کو اذن رخصت دے دیا۔

کالج لیکچرار کی ساری شخصیت اور سِحر اس کے لباس میں پوشیدہ ہوتا ہے جو اس کی زبان کھلنے پر ختم ہو جوتا ہے۔ عموما اس کا موقع کم ہی آتا ہے کیوں کہ کمرہ جماعت میں جانے کا رواج کم ہے اور بھولے سے اگر چلے بھی جائیں تو اب بھلا لیکچر دینے کی فرصت اور سننے کی تاب اور ذوق کسے ہے۔ کسی زمانے میں صاف ستھرا لباس اور سائستگی و عمدگی کی تصویر لباس اساتذہ سے منسوب کیا جاتا تھا۔ مگر برانڈز کی دوڑ میں امراء و رﺅسا کے ساتھ جو طبقہ بھاگتے بھاگتے ہانپ رہا ہے وہ اساتذہ ہی کا ہے۔ (یاد رہے کہ مضمون خواتین لیکچرار سے متعلق ہے)۔ سٹاف روم جہاں بڑی بڑی علمی بحثیں یوں ہوا کرتیں کہ لوگ ہفتوں کتابیں کھنگال کر علمی نکات کا جواب اور ثبوت ڈھونڈتے، اب وردہ، جے ڈاٹ، نشاط، چین وم، کھاڈی(کھڈی) وغیرہ کے بیش قیمت کپڑوں کی متوقع لوٹ سیل پر بحث سے کانوں کان بلکہ نکو نک بھرے ہوئے تھے۔ پچھلے سال کی آف سیزن سیل میں خریدے گئے کپڑوں کے ساتھ چائنہ مارکیٹ یا لنڈن بازار سے خریدے گئے جوتوں پر اتراتی اور شروع ہی سے برانڈ کانشس ہونے کی دعویدار، اپنے تئیں ہر ایک اول درجے پر فائز خواتین اب بیکنگ کے گر ایک دوسرے کو سکھایا کرتی ہیں۔ ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم علم سیکھنے کے لئے دیگر ذرائع و منبع ہائے علم کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔

بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب ہوتی ہے۔ اسی فارمولے کے تحت شوروغوغا سے بھرے سٹاف روم میں چند معقول دلائل بھی سننے کو مل گئے۔ ایک صاحبہ نے فرمایا۔

\”اساتذہ کے لئے وردی کوئی نئی بات نہیں ۔ قدیم زمانے میں اساتذہ HOOD پہنا کرتے تھے جس میں کندھے پر جیب لگی ہوا کرتی تھی۔ جب استاد گیان بانٹ کر واپسی کی راہ لیتا تو لوگ حسبِ توفیق اس کی جیب میں سکے ڈالتے جاتے۔ یہ تکبر ختم کرنے کے لئے تیر بہدف نسخہ تھا۔ بدھ بھکشو بھی کشکول اٹھائے بھکشا مانگتے پھرتے تھے\”۔

ہم نے جوابا عرض کیا کہ جناب اساتذہ کا کسی بھی زمانے یا قوم میں بھک منگا ہونے کا تصور ہمارے علم میں تو نہیں ہے۔ یہ کام پہلے طالب علم اور اب سیاست دان کیا کرتے ہیں۔ مذکورین میں بدھ بھکشو تو ہم نے نہیں دیکھے البتہ مدرسوں میں گھر گھر مانگنے والوں اور موخرالذکر کو اسی کشکولی روایت پر متفاخر ضرور دیکھا ہے۔ ہر دو طبقات کے بھِک منگے ہونے سے البتہ قوم کو عاجز ضرور دیکھا ہے

کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

عاجزی پیدا کرنے کے لئے بھیک مانگنے کا تصور قدیم ہے مگر سوال کرنے اور نانِ غیر پر بھروسہ کرنے کے بھیانک نتائج سے واقف ہمارا مذہب اسے رد کرتا ہے۔ (یہی رویہ زنانِ غیر کے باب میں بھی روا رکھا گیا ہے)۔ استاد کے طور پر ہمارے ہاں خوب سے خوب تر حکمت عملیوں سے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے معلمِ کامل ہیں، اور سروں پر پرندے بیٹھے ہونے کا گمان بخشتے شاگرد۔

ایک اور صاحبہ نے لقمہ دیا۔ \”رہ گئی بات عاجزی کی تو مملکتِ خداداد میں اساتذہ کو عاجز کرنے کے لئے وردیوں کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے یہاں ویسے ہی امام مسجد، لائبریرین اور استاد وہی بنتا ہے جو اپنے اس پیشے سے عاجز ہو۔ رہی سہی کسر معاشرے کاان تینوں پیشوں اور پیشہ وروں سے رویہ ہے۔ چنانچہ جن لوگوں کا کام اخلاقیات، کردار سازی اورزندگی کے گر سکھانا تھا وہ اب برعکس مصروف ہیں\”۔

ہم خود عجز کو ذاتِ باری تعالی کے سامنے روا سمجھتے ہیں اور عوام و خواص میں انسانی مساوات کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں لہذا گزارش کی کہ اگر استاد معمارِ قوم ہے تو اس کی خودی یا عزتِ نفس کو کچل کر ہم اپنی قوم کو کیا بنانا چاہتے ہیں، ویسے بھی ہم اس معاملے میں متعصب ہیں، کچلی ہوئی خودی کے ساتھ اقبال پڑھاتے اساتذہ اور کھلے بالوں ٹی وی پر کھانا بناتی عورتیں ہمیں سخت ناپسند ہیں۔ ثانی الذکر سے کھانے میں بال آتے ہیں اور اول الذکر سے دل میں ۔

ہمارے دل سے وردی کی حرمت 71ء کی جنگ کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ رہی سہی کسر پولیس نے نکال دی۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ورددی کا سنتے ہی ہم سمجھ گئے کہ استاد کے منصب کی رہی سہی عزت بھی نذرِ وردی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس فیصلے کے پیشِ نظر ان تمام بھگوڑے اساتذہ اور پروفیسران کی نشاندہی اور سرکوبی مقصود ہو جو کالج کے تدریسی اوقات میں اپنی اکیڈمیوں کو علم و دانش کا گہوارہ بنائے ہوتے ہیں۔ بہر حال ایک طرف تو بزعمِ خویش یہ انٹلکچوئل بحث جاری تھی، ددوسری طرف کوئی خوش ہو کر اعلان کر رہی تھی کہ جن لوگوں کا پورا وقت برانڈڈ سوٹ دیکھتے اور دکھاتے گزرتا ہے ان کا کیا بنے گا؟ ان کا وقت کیسے کٹے گا؟کیا نصیبِ دشمناں انھیں کمرہ جماعت میں جانا ہی پڑے گا۔ نیز یہ کہ اس صورت میں شو مارنے کا کون سا طریقہ اپنایا جائے گا۔ ہم نے انھیں تسلی دی کہ نئے زمانے کا چور چوری چھوڑ کر ہیرا پھیری تک محدود نہیں ہوتا وہ چوری کے نئے طریقے دریافت کرتا ہے۔

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں گھر کرنے کے سو راستے نکال لیتی ہے۔ عادی مجرم تو برانڈڈ کفن پہن کر بھی شو مار سکتے ہیں ۔ یہ تو پھر وردی ہے جوتاریخ میں \”سیکنڈ سکن \” کا درجہ بھی پا چکی ہے۔ اگر ملک میں اساتذہ کی مٹی مزید پلید کرنے کا ایسا کوئی منصوبہ زیرِ عمل لایا گیا تو سرمایہ دار سرگرم ہو جائیں گے۔ کپڑوں کے مشہور برانڈوردیاں متعارف کروا دیں گے۔ جن کے سمر، ونٹر، فال، آٹم، پوسڑ آٹم وغیرہ ٹائپ کے فیبرک آیا کریں گے۔ ہر سال آف سیزن میں% 50 آف پر سیل لگا کرے گی جن میں 200 روپے گز والا کپڑا 50% آف پر 2000 روپے گز میں بیچا جائے گا۔ برانڈ اور نان برانڈ کی یہ تفریق قائم رہے گی کہ ہم تو HAVE اور HAVE NOT کی تفریق ختم نہیں کر سکے یہ تو پھر HAVES اور MORE HAVES کا معاملہ ہے۔ اینمل فارم میں جارج آرویل نے ایک سور کے منہ سے بڑا خوبصورت جملہ کہلوایا ہے۔

All animals are equal, but some are more equal.

یہ صورتِ حال کبھی ختم نہیں ہوگی کہ ہمارے ہاں سرخ گلاباں دے موسم وچ پھلاں دے رنگ کالے ہیں۔ ہماری عمریں اور نسلیں شاید اب ایسی ہی سطحی کشاکش میں ختم ہوتی رہیں گی۔ ہمارے ابو کہتے ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی اکثریت اپنے پیشے کی اہمیت سے بے خبر اور نالاں ہے۔ دو ہی طرح کے لوگ استاد بنتے ہیں، مجبور یا معذور۔ اس ملک میں تعلیمی شعور اور ذہانت کی تقسیم کا فارمولا ہی نرالا ہے۔ ذہین ترین بچے ڈاکٹر بنائے جاتے ہیں، ان سے کم تر انجینئر۔ جو دونوں طرف سے مسترد ہو کر ٹوٹ جائے وہ استاد بن جاتا ہے، جو بچہ آوارہ، بدتمیز اور خودسر ہو وہ ٹرانسپورٹر بن جاتا ہے۔ (اب اسے جرنلسٹ بناتے ہیں۔) اور جو کچھ بھی نہیں بن سکتا اسے مدرسے میں داخل کروا دیتے ہیں کہ

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

وہ مچھنددر سے زیادہ دڑھیل بن کر نکلتا ہے اور قوم کی عاقبت سنوارنے کی خاطر ان کی دنیا برباد کرنے کا مذہبی فریضہ سرانجام دینے لگ جاتا ہے۔ جب تک معلمی مجبوراں اور معذوروں کا پیشہ رہے گا، قوم سے کچھ بننے اور بنانے کی توقع عبث ہے۔

جہاں میں ہر چند معتبر ہے ردائے بانو، قبائے خواجہ

مگر ہمارے لہو سے تر ہے ردائے بانو، قبائے خواجہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments