شدت پسندی، احیا پسند مولوی اور کچھ لاشیں


 لیجیے صاحب، ایک اور صوفی بزرگ کی درگاہ پر شدت پسندوں نے کار تبلیغ انجام دے دیا۔ لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر بچوں اور خواتین کو خودکش دھماکے میں اڑا کر بتا دیا گیا کہ لوگوں کے پرخچے اڑا دینا کتنے ثواب کا کام ہے۔ اب حکومت، فوج، علماء، صحافی، لیڈر سب کے لئے ڈائس تیار ہے، آئیے اور اپنا اپنا تعزیتی بیان سنا سنا کر کھسکتے جائیے۔ اگلی بار پھر جب کہیں کسی درگاہ میں بم پھوٹے گا تو اسی بیان میں بس نام اور مقام تبدیل کرکے لے آنا اور بول کر چلے جانا۔

صوفیاء کے مزارات پر دھماکے پہلے بھی ہوتے آئے ہیں۔ جولائی 2010 میں لاہور کے داتا دربار میں حملہ ہوا۔ ابھی نومبر میں شاہ نورانی کے مزار میں دھماکہ ہوا، اس سے پہلے بھی درگاہیں، خانقاہیں، صوفیا اور گدی نشین حضرات نشانے پر رہے ہیں۔ ہر حملے کے بعد مذمت کی رسم نبھائی گئی ہوگی، سب نے نبھائی ہوگی لیکن عملی طور پر کس نے کیا کیا؟ سب کو چھوڑیئے وہی شدت پسند مولوی جنہوں نے دھماکے کی سخت مذمت کی ہوگی انہوں نے ہی جب جاکر مسجد میں نماز پڑھائی ہوگی تو کیا اس کے بعد وعظ میں درگاہ پر جانے کو بدعت نہیں بتایا ہوگا؟

محبت بھلے ہی ایک نظر میں ہو جاتی ہو لیکن نفرت کو پروان چڑھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ کہیں کوئی کسی کے کان میں پہلی بار نفرت کا بیچ داخل کرتا ہے۔ دوسرے لوگ اس نفرت کے جذبے کو کھاد پانی دیتے ہیں جس سے یہ جذبہ اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ کوئی مولوی مسجد کے منبر پر کھڑے ہوکر حدیثیں سنا سنا کر فرزندان توحید کی غیرت کو جگاتا ہے۔ بار بار بتاتا ہے کہ یہ مشرک ہیں، بدعتی ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ پھر جب یہ نفرت تناور درخت بن جاتی ہے تو اس شخص کی نفرت کو کوئی تنظیم پہچان لیتی ہے وہ گرم لوہا دیکھ کر وار کرتی ہے اور اس طرح کوئی شدت پسندی کے نشے میں چور ہوکر جسم پر بم باندھ کر کسی درگاہ میں دھماکے کے لئے نکل پڑتا ہے۔ دھماکہ کرنے والا تو مر چکا، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی۔ ظاہر ہے داعش ہماری دسترس سے باہر ہے اس لئے رو دھو کر کیوں نہ خاموش ہو جایا جائے؟

اب یہاں سے سوال پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں۔ اس دھماکے کے لئے شدت پسندی کو فروغ دینے والے بھی کیا برابر کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس کس مسجد، خطبے اور تبلیغی اجتماع میں مسلمانوں کے کسی مخصوص طبقے کے خلاف زہر کے بیج بوئے جا رہے ہیں؟ لگے ہاتھ یہ بھی سوچ لیجیے کہ فرقہ وارانہ تنظیمیں مسلم معاشرے میں کیا کیا خدمات انجام دے رہی ہیں؟ ہر سال محرم میں پاکستان میں خطیبوں اور واعظین کے ادھر سے ادھر جانے پر پابندی کی فہرست جاری ہوتی ہے، کیوں نہ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ سال کے باقی دنوں میں یہ حضرات کیا کیا خطاب فرماتے رہے؟

کسی بھی معاشرے میں ریوائیولزم یا احیاء کی سنک افیم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ خطرناک اس لئے بھی ہے کہ اس کے علم بردار عظمت رفتہ کی بحالی کے نام پر کچھ بھی کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ریوائیولزم کی یہی سنک بہت دلکش ناموں سے موجود ہے۔ اسلاف کی دہائی دے کر، موجودہ دور میں رائج ہر چیز کو حرف غلط بتا دینا اور داستانی دنیا کے نشے میں چور ہوکر اصلاح کے لئے لاٹھی بلکہ دھماکہ خیز مواد باندھ کر نکل پڑنا ایسا مالیخولیا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔

لعل شہباز قلندر کے آستانے میں پھیلی بچوں اور خواتین کی لاشیں صرف داعش کا کیا دھرا نہیں ہیں بلکہ ہر اس مولوی، مبلغ اور خطیب کے ہاتھ گٹوں تک ان بے گناہوں کے خون میں سنے ہوئے ہیں جنہوں نے شرک اور بدعت کے نام پر، عزاداری کے نام پر، درگاہ کے نام پر، مزار کے نام پر سیدھے سیدھے یا اشارتا کسی کو کافر بتایا تھا۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments