سہون پر حملہ – کیا واقعی افسوس ہوا؟


\"\"

افسوس ہوا افسوس ہوا، جی بڑا ہی افسوس ہوا۔ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے جی۔ یہ سب وہ رٹی رٹائی لائنیں ہیں جو ہم کسی بھی سانحے کے بعد اپنے منتخب نمائندوں کی طرف سے ٹی وی پر بیان کی صورت میں سنتے ہیں ۔ چینل بدل دیجیے بچے بیٹھے ہیں، اف کتنے بے رحم ہیں کیسے معصوم لوگوں کو بے رحمی سے مار دیتے ہیں، اچھا مرنے والوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ یہ وہ جملے ہیں جو چاردیواری میں بولے جاتے ہیں۔

فائدہ کیا؟ ۔ کل تو یاد بھی نہیں ہوگا۔ کل ہم سب کیڑے مکوڑوں کی طرح دوبارہ صبح سویرے سے رینگنا شروع کرینگے اور کہیں نا کہیں چالیس پچاس کیڑے مکوڑوں کو مسل دیا جائے گا پھر جو کیڑے بچ جائیں گے وہ رات کو گھر پر آکر اوپر لکھے ہوئےجذبات کا اظہار کرنے کے بعد رضائی اوڑھ کر سو جائیں گے۔ رات گئی بات گئی۔ یا یوں کہیے کہ ہماری حالت ان مرغیوں جیسی ہے جو مرغی فروش کی دکان پر پنجرے پر بند پڑی ہوتی ہیں۔ جیسے ہی مرغی فروش پنجرے میں ہاتھ ڈالتا ہے سب کی سب اپنی گردن بچاتی ہیں کچھ دیر بعد چار پانچ مرغیاں حلال ہورہی ہوتی ہیں اور باقی سب مارے افسوس کے ٹسوے بہاتی ہیں۔

مگر یہ انصاف نہیں ہوگا۔ یہ مرغیاں اور کیڑے مکوڑے ہم سے بہتر ہیں۔ ان کو خدا نے نفس نہیں دیا، یہ سوچ نہیں سکتے، یہ تو مجبور ہیں۔ مگر ہمیں تو نفس بھی دیا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی دی۔ اتنا کافی نہیں رہا توجذبات بھی دے دیے ۔ بھلا ہمارا کیا کام کے ہم سوچیں، سمجھیں، غور و فکر کریں؟ ۔ پہلے ہی کم جنجھٹ ہیں؟ ۔ مرتے ہیں تو مریں۔ کر تو لیا افسوس۔ بھلا ہم اور کیا کریں؟ ۔ اب ہمارا بچہ تو تھا نہیں۔ تھے نجانے کس ماں کے بیٹے۔ ہم نے کہا تھا کہ جاؤ سہون اور دھمالیں ڈالو؟ ۔

حیف ہے ہمارے انسان ہونے پر۔ پیدا تو انسان ہوئے تھے حیوان بن کر رہ گئے۔ مارتے جاؤ۔ ہم مرنے والے کو شہید کہیں گے تم مارنے والے کو شہید کہنا۔ ہم خدا کے ولیوں سے عقیدت رکھیں گے تم ہمیں بدعتی کہنا۔ مر بھی جائیں تو ہمارے مردار جسم کو نکال کر پھر سے مارنا اور پھر بھی تمہاری آگ ٹھنڈی نہ ہو تو بہت سارے مردے قبروں سے نکال کر جمع کر کے ان کو بم سے دوبارہ مار کر ان چیتھڑے اڑا دینا۔ تم ایسا کر سکتے ہو۔ بالکل کر سکتے ہو کیوں کہ ہم پہلے سے ہی مر چکے ہیں۔ یہ جو ہم چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں یہ ہمارا مردار جسم ہے۔ ہم نہیں ہیں۔ اب تم ہزار بار بھی ہمیں مارو گے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابھی ہماری ماؤں کی کوکھ بنجر نہیں ہوئی ۔ ابھی ہر گھر میں صف ماتم نہیں بچھی۔ ہم یونہی کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رہینگے، اور تم یونہی ہمیں مسلتے رہنا۔ لگے رہو ہم حاضر ہیں۔

بس ایک گزارش ان لوگوں سے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم شہدا کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ خدارا یہ نہیں کہا کرو۔ برابر کے شریک بنو گے؟ ۔ بن سکتے ہو؟ ۔ تمہارا بچہ ابھی یتیم نہیں ہوا۔ تمہاری بیوی کا سہاگ ابھی سلامت ہے۔ تمہاری ماں دروازے پر کھڑی یہ انتظار نہیں کر رہی کہ تم مرنے والوں میں ہو یا زخمی ہونے والوں میں۔ خدا کے واسطے یہ مت بولا کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments