لعل شہباز خود کش حملہ، انتہائی معمولی واقعہ


\"\"گزشتہ دِنوں پاکستان میں دھماکوں کی ایک نئی لہر نمودار ہوئی ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، اور اب سندھ میں ہونے والا سانحہ لعل شہباز بہت معمولی سانحات میں سے ایک ہے۔ آپ کہتے ہوں گے، میں کتنا بے حس ہوں جو اسے معمولی کہتا ہوں، لیکن میری بات مان لیجیے، یہ انتہائی معمولی سانحہ ہے۔ موت تو اک دن سبھی کو آنی ہے، سو مرنے والوں کی کیا کہیے، کہ موت آسان ہو گئی ہوگی۔ جینے والوں سے پوچھیے کہ زندگی کیسی ہے۔

لعل شہباز پر حاضری دینے والوں ہی کے حالات جان کر دیکھیے تو معلوم ہوگا، ان میں سے کچھ ایسے تھے، جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، یا ان سے طاقت وروں نے انھیں انصاف سے دُور رکھا ہوا ہے۔ وہ برسوں سے جوتیاں چٹخا رہے تھے، ہو سکتا ہے، اب اُن کی جیب میں اتنا بھی نہیں رہا ہو کہ وہ منشی کو کچھ دے دلا کر مقدمے کی اگلی تاریخ ڈلوا لیں۔ ان میں ایک آدھ ایسا مل جائے گا جس کا مال متاع دو تین سال پہلے سیلاب لے گیا تھا، یہاں وہ منت ماننے آیا ہوگا کہ حکومت کی طرف سے دیا گیا امدادی چیک کیش ہو جائے تو وہ کچھ چڑھاوا چڑھا دے گا۔ اب اس کے ورثا کو ایک اور چیک دیا جائے گا، جس کے کیش ہونے نہ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ سمجھا جائے تو سانحہ یہ ہے۔

کچھ ایسے ہوں گے، جو اپنے لیے یا اپنی اولاد کے لیے معاش کی فکر سے نجات کی دُعا کرنے آئے ہوں گے۔ اُن کا بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے، لیکن کوئی سفارش نہیں کہ پندرہ بیس ہزار کی ملازمت ہی دلوا سکیں۔ کچھ چاہتے ہوں گے، اُن کی بیٹی شادی کی عمر سے گزری جا رہی ہے، اُسے کوئی مناسب بر مل جائے۔ کچھ عاشق بھی ہوں گے کہ اُن کے والدین اُن کی پسند کے خلاف ہیں۔ کچھ ایسے بھی تو ہوں گے جنھیں جرگے کی سزاوں کا خوف لاحق ہوگا!

وہ بھی لعل شہباز سے شفا لینے آئے ہوں گے جو غربت کی وجہ سے اپنے پیاروں کا علاج نہیں کروا سکتے۔ وہ کہنے آئے ہوں گے کہ نجی اسپتالوں کا جرمانہ بہت زیادہ ہے، اور سرکاری اسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ہیں بھی تو ان میں وہ سہولیات نہیں جو نجی شعبے کے یہاں بھاری معاوضے پر میسر ہیں۔ ان میں سے بھی ایک ضرور ہوگا، جس کے گاؤں میں پینے کا صاف پانی تو کجا گدلا پانی بھی دست یاب نہیں۔ بیماری سے، پیاس سے سسک سسک کر مرنے سے تو بہتر ہے کہ وہ ایک ہی دھماکے میں خاکستر ہوگئے۔ سوچیے تو کتنی نعمت ہے، کہ اب انھیں یہ غم نہیں رہا، ان کا پیارا دوا کا منتظر ہے۔ غم سے آزادی کا اتنا سہل نسخہ اور کہاں سے ملتا؟

سانحہ لعل شہباز میں مرنے والے کچھ بچے ایسے ہوں گے جو یہ شعور ہی نہیں رکھتے کہ ہر بچے کو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے تو وہ لعل شہباز ہی سے سوال کرنے آئے ہوں گے کہ اُن کی محرومی کا ازالہ ہو۔ جب بچوں کی تعلیم کا انتظام نہیں تو ایسے بچے ملک کا کیا مستقبل ہوتے۔ اب وہ جنت کے پھول بن گئے ہوں گے، کہ جہاں بچے نہیں وہ جنت کیسی؟ آپ پتہ کیجیے دو وقت کی غذا کو ترسنے والوں میں سے چند ایک لعل شہباز کے لنگر سے روٹی کی بھیک لینے آئے ہوں گے، ایسے میں موت نے انھیں نگل لیا۔ اچھا ہوا، کہ وہ بھوک سے بے نیاز ہو گئے، لیکن جو زندہ ہیں، ان کا کیا؟ معلوم کیجیے تو مرنے والوں میں ایک آدھ ایسا بھی مل جائے گا، جس کی زمین پر پراپرٹی مافیا کا قبضہ ہے۔ وہ لعل شہباز سے کہنے آیا ہوگا کہ خدا اس کے لیے کچھ نہیں کر رہا کیوں کہ مافیا چیف اُس سے ہتھیائی ہوئی زمین پر دُنیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے کا اعلان کر چکا ہے۔ لعل شہباز نے کہا ہوگا، میں مافیا چیف کے ہاتھوں بے بس ہوں، تم جاؤ اور خدا کے پاس جا کر خود عرضی پیش کرو۔ سانحہ تو یہ ہے۔

ان مرنے والوں میں کتنے ایسے ہوں گے، جنھیں گزر گاہوں پر لگے ناکوں پر ذلیل کیا جاتا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو آپ زندہ کیوں کر سمجھ بیٹھے تھے؟ سانحہ لعل شہباز ایک معمولی درجے کا واقعہ ہے۔ اس سے کہیں بڑے بڑے سانحات ہر دم ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی سہیلی کو اُس کے چاہنے والے کے ساتھ گھر سے بھگانے والی کو زندہ جلا دینا اتنا بڑا سانحہ نہیں، سانحہ تو یہ ہے کہ اس کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں دی جا رہی۔ سانحہ یہ نہیں کہ کسی پر بہتان لگایا گیا، سانحہ یہ ہے کہ بہتان لگانے والے آزاد گھومتے ہیں، اور جن پر جھوٹا الزام لگا، وہ منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ سانحہ یہ ہے کہ قانون کی عمل داری نہیں، قوی کے لیے دوسری کتاب ہے، اور ضعیف کے لیے الگ قانون۔ پس سانحہ یہ ہے، کہ یہاں انصاف نہیں ہوتا۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، کہ یہ حملے ہنود و یہود کی سازش ہیں، ہماری روز افزوں ترقی انھیں ایک آنکھ جو نہیں بھاتی۔ وہ نہیں چاہتے ہمارے بچے اسکول جائیں، بیماروں کو شفا ملے، رعایا کو ان کی دہلیز پر انصاف ملے، تو آئیے دشمن پہ تبرا کریں۔ آئیے ہم جمہوریت کو اس کا ذمہ دار ٹھیرائیں؛ آئیے آمریت کو دہائی دیں۔ آئیے یورپ کی خوش حالی کے گن گائیں۔ آئیے اسلام کے سنہرے اصول گنوائیں۔ آئیے ثابت کریں کہ کون سا فرقہ دین حق کی رُوح کے زیادہ قریب ہے۔ آئیے اپنے حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کریں اور پھر کسی مزار پر جا کر دُعا کریں کہ ہمارے حالات سدھر جائیں۔ کیوں کی دوا ہمارے بس میں نہیں، یا دسترس میں نہیں۔ آئیے یہ مکالمہ کریں کہ ویلنٹائن ڈے مشرقی تہوار ہے، یا مغربی۔ پھر یہ بھی کہ حیا ڈے منانا بدعت ہے یا بدعت مستحسن۔ محرومیاں ایسے ہی دُور ہوتی ہیں، نہیں یقین تو محروم طبقے کے ان لوگوں کا احوال جانیے جو لعل شہباز کے مزار پہ دُعا کرنے آئے تھے کہ ان کی مشکلات میں کمی آئے۔ دیکھیے تو ان میں سے کتنے ہیں، جنھوں نے اس رذیل دُنیا کے بدلے ابدی دُنیا کو گلے لگا لیا کہ وہاں کوئی مشکل، مشکل نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments