خودکش بمبار کا فکری سہولت کار کون


\"\"دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں اور انہیں پناہ دینے والوں کے خلاف کارروائی بھی بہت ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ایک جیتا جاگتا انسان اپنے آپ کو کیوں دھماکے سے اڑا لیتا ہے۔ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے آس پاس کے تمام لوگوں کو بھی بھیانک موت دے کر وہی انسان درندے کا روپ دھار لیتا ہے۔ جب تک خودکش بمبار کی نفسیات کا مطالعہ کرکے ایسی نفسیات تشکیل دینے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہوتی ملک میں خود کش حملے ہوتے رہیں گے۔ خودکش حملوں کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا پہلا خودکش حملہ آور ایک 25 سالہ سوشلسٹ نوجوان اگناسی تھا جس نے 13 مارچ 1881ء کو روسی بادشاہ زار الیگزینڈر دوئم کو خودکش حملے میں ہلاک کردیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی کامیکازی ہوابازوں کی جانب سے بھی اتحادی فوج کے بحری بیڑوں پر خودکش حملے کئے گئے تھے۔ اگناسی کی نفسیات کا محرک اس کا نظریہ اور جاپانی ہوا بازوں کی نفسیات کے محرکات میں حب الوطنی ایک اہم جزو تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک کی فوجیں جب بھی دشمن کے خلاف کمانڈو ایکشن کرتی ہیں تو ان میں بھی موت تقریباَ یقینی ہوتی ہے جس کے پیچھے حب الوطنی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا ایک مختلف دنیا ہے۔ جس میں اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد مختلف بین الاقوامی قوانین تشکیل پائے اور معاہدوں نے جنم لیا تاکہ انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ کامیکازی ہوابازوں کے ناکام حملوں اور امریکہ کے کامیاب ایٹمی حملوں کے بعد جاپانیوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ کسی بھی جنگ میں کامیابی کی اصل وجہ خودکش بمباروں کی تیاری نہیں بلکہ معاشی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ یہی وجہ بنی کہ جاپان نے معاشی و تکنیکی میدان مں جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور آج کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد خودکش حملہ آور کی نفسیات کے محرکات بھی تبدیل ہوگئے۔ حب الوطنی کی جگہ حیات بعد الموت کے نظریے نے لے لی۔ حیات بعد الموت کا نظریہ تقریباَ دنیا کے تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس نظریے کے منفی استعمال کی انتہائی شکل خودکش حملوں کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اصل توجہ حیات بعد الموت کے نظریے کے منفی استعمال کا سد باب کرنے پر دی جانی چاہئے۔ اس ملک کی اکثریت مذہبی رجحانات رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ لہٰذا مذہبی تنظیمیں اور علما اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ جو لوگ شام، فلسطین اور برما کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف سراپا احتجاج رہتے ہیں وہ اپنے ہی ملک میں ہونے والے خود کش حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے بے گناہ مسلمانوں کی اموات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ان کا وہ ردعمل سامنے نہیں آتا جو دیگر ممالک کے مسلمانوں کی اموات پر نظر آتا ہے۔ آج تک کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ اگر کسی ایک مسلک کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہو تو دیگر مسالک کے لوگوں نے بھی احتجاجی جلوس نکالا ہو۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی جانب سے اس طرح کے حملوں کا الزام پہلی فرصت میں غیرملکی ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان حملوں کے لئے مالی معاونت کوئی غیر ملکی ایجنسی کرتی ہوگی اپنے مخصوص مقاصد کے لئے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی غیر ملکی ایجنسی کو چند مخصوص مسالک سے نفرت اور کچھ خاص فرقوں سے محبت کیوں ہے۔ سرحد کے اس پار بھی یہی معاملہ ہے۔ خواہ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو بغیر تحقیق کے الزام پاکستان پر لگادیا جاتا ہے۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا خودکش بمباروں کے فکری سہولت کار مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والی مذہبی جماعتیں ہیں یا وہ کالم نگار، تجزیہ نگار یا اخبار مالکان جو ایسے عناصر کے لئے ہمدردی کا گوشہ رکھتے ہیں۔ یا پھر لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے کچھ مخصوص ٹی وی چینل ہیں۔ مذہبی چینلوں اور ویب سائٹس کا پیمرا کو باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا غلط استعمال تو نہیں ہورہا۔ جو کہ دیدہ دلیری سے ہورہا ہے۔ گذشتہ دنوں مربوط حکمت عملی کے تحت ایک چینل کے اینکر کے ذریعے تمام ان افراد پر الزامات لگائے گئے جو ماضی میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ اس اینکر نے کسی ایسے فرد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تھا جو شدت پسندوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو۔ اس ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے بیانیے کی جنگ کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تاکہ انتہا پسندوں کے خلاف بلند ہونے والی آوازیں اس خوف سے خاموش ہوجائیں کہ کہیں ان پر بھی بھیانک الزامات لگا کر کردار کشی کی مہم نہ شروع کردی جائے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بیانیے کی جنگ بھی جاری رہنی چاہیے تاکہ خودکش بمباروں کے فکری سہولت کاروں کو کھلا میدان میسر نہ آسکے۔ اس جنگ کے سپاہیوں یعنی انتہا پسندی کے مخالف قلم کاروں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ بنیادی نظریات پر بے جا تنقید کی بجائے انتہا پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں تاکہ دہشت گردوں کے فکری سہولت کاروں کو یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر آپ کی بلند ہوتی ہوئی آوازوں کو خاموش کروادیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments