تصویر نہیں، بیانیہ بدلیں


\"\"صحافتی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کو Cliché یعنی گھسا پٹا لفظ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کی بے لگام آزادی اور بریکنگ نیوز کی دوڑ نے دھماکوں سے جڑے ڈکشنری کے تقریباً ہر لفظ کو Cliché بنا دیا ہے۔ دھماکہ ہونے کے ساتھ ہی اسا ئمنٹ ایڈیٹرز بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ریکارڈ میں پڑے مذمتی بیانات ٹی وی سکرین پر چلانا شروع کرتے ہیں جن کے بارے میں ابھی ان لیڈرز کو خودبھی خبر نہیں ہوتی۔ خود کش حملوں اور دھماکوں کے نتیجے میں جو سیاسی ، عسکری اور عوامی ردعمل آتا ہے وہ سب کا سب گھسا پٹا ہے۔ دھماکے کے اگلے منٹ کے اندر ہی سیاسی و عسکری قیادت کے پاس قریب قریب اس طرح کے بیانات ہوتے ہیں۔
ہم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کا آخری سانس تک پیچھا کیا جائے گا۔
دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ یہ بزدلانہ حملے ہمارا حوصلہ پست نہیں کر سکتے۔
پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ملک کے تحفظ کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے۔ ’را‘ کی کارروائیوں کا حساب لیا جائے گا۔
شہدا کا خون قرض ہے۔ خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔ افغانستان سے دہشت گردی کا نیٹ ورک پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔
مجھے ان سب باتوں سے اتفاق ہے۔ لیکن آخر کب تک ہم ان بیانات کے پیچھے چھپتے پھریں گے؟
عوامی سطح پر بھی کہانی کچھ مختلف نہیں ہوتی۔ سب سے پہلے فیس بک اکاﺅنٹ پر پروفائل تصویر تبدیل ہوتی ہے اور اس کے بعد خشوع و خضوع سے سیاسی قیادت اور پولیس کو گا لیاں دینے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ کہیں کہیں دبے الفاظ میں عسکری قیادت سے بھی گلہ شکوہ نظر آتا ہے۔ ’را‘ پر الزام لگتا ہے اور افغانیوں کو گا لیاں دی جاتی ہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ banned organizations  محب وطن ہیں اور ان میں اور دہشت گردوں میں فرق ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے اگرچہ مولانا عبد العزیز کی مجلسوں اور نعروں میں داعش کو سپورٹ کیا جاتا ہے اور داعش زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں لیکن ان کے خلاف ثبوت نہیں ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب ’را‘ کر رہا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا کر ہی نہیں سکتا۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ مزار شرک کی فیکٹریاں ہیں اور وہاں جانے والے مسلمان نہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ سوال کرنے والے کو الٹا لٹکا دو یا غائب کر دو۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ مدرسوں اور مولویوں پر بات کرنا نعوذ باللہ دین کے خلاف بات کرنا ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم سری لنکن ٹیم پر حملہ کرنے والے لشکر جھنگوی کے کارندوں کو جیل نہیں بھیج سکتے کیونکہ ثبوت ناکافی ہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ رانا ثنااللہ ، شیخ وقاص اکرم ، اور چوہدری نثار کے پابندی شدہ تنظیموں سے صرف سیاسی روابط ہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ پراسیکیوشن کمزور ہے۔ پچاس کیمروں میں فائرنگ کرتے ہوئے نظر آنے والے شخص کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ اور مہمند میں مرنے والے جاں بحق اور لاہور میں مرنے والے شہید ہیںتو ہم صرف پرو فائل کی تصویر بدلتے ہیں ذہن نہیں۔ میری نظر میں یہ سب Cliché بن چکا ہے۔
اگر ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں بحیثیت قوم Cliché سے جان چھڑانی ہو گی۔ آپ فیصلہ کر لیں۔ تصویر کی جگہ بیانیہ بدل کر دیکھیں انشا اللہ فتح ہماری ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments