سانحہِ سیہون شریف اور ایدھی جیسے لوگ


عبدالستار ایدھی کی وفات پہ میرے دل سے یہ دعا نکلی تھی۔ ”اللہ ایدھی صاحب کو جنت میں جگہ دے، اور ہمیں کوئی دوسرا نہ ایدھی دے کہ ایدھی ہمیشہ بدعنوان اور بے انصاف معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ “

کل سہون شریف کا خودکش حملہ جس میں ستر سے لوگ جاں بحق اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر دو زاویوں سے زیر بحث لایا گیا۔ پہلا تو ظاہر ہے ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور ان کے اثرات اور دوسرا وہ پہلو جسے ہم اس مضمون میں دیکھیں گے

سہون شریف جہاں کل یہ افسوسناک حادثہ پیش آیااس کی آبادی سوا لاکھ سے زیادہ ہے جس جگہ یہ دھماکہ ہوا ہسپتال اس وقوعہ سے کم از کم اڑھائی گھنٹے (ایک سو بیس کلومیٹر) کے فاصلے پرتھا۔ کوئی بھی ایمبولینس زخمیوں کو لے جانے کے لیے موجود نہ تھی۔ لوگ زخمیوں کو چارپائیوں اور موٹر سائیکلوں پر لے کر گئے۔ پورے علاقے میں صرف چار ڈاکٹر اور چند نیم خواندہ قسم کی نرسیں تھیں۔

فرض کریں سہون شریف میں بھی کوئی ایدھی ہوتا جو بلا تاخیر اپنی ایمبولینس سروس کے ساتھ موجود ہوتا، مرنے والوں کی لاشیں غسل کے بعد دفنا دی جاتیں اور جائے وقوع کو فوراً ایسے صاف کر دیا جاتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو تو کون دیکھتا کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد پچھلے پندرہ سال سے پاکستان پیپلزپارٹی (جو صوبائی حکومت بھی رکھتی ہے) کا نمائندہ اس حلقے سے کامیاب ہوتا آ رہا ہے۔

ایک ایسی صوبائی حکمران جماعت جس نے پچھلے سال سندھ فیسٹول پر دو سو پچاس ملین، ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پہ پچیس ملین خرچ کیے جبکہ بھٹوز کے مزارات پہ اب تک چار سو بتیس ملین خرچ ہو چکے ہیں، وہ حکومت لاکھوں کی آبادی کو ہسپتال اور ایمبولینس جیسی بنیادی سہولیات تک نہ دے سکی۔

آج سہون شریف میں بھی کوئی ایدھی جیسا سادہ لوح اور شریف بندہ ہوتا تو حکمرانوں کی نا اہلی پر پردہ پڑا رہتا اور وزیراعلیٰ کو یہ بیان نہ دینا پڑتا کہ ہمارے پاس زخمیوں کو لے جانے کا کوئی انتظام نہیں۔

دعا کریں اس معاشر ے میں ایدھی پیدا ہونا بند ہو جائیں تاکہ جنہیں ہم گھنٹوں لائین میں لگ کے ووٹ دیتے ہیں ہمیں ان کا اصل چہرہ تو دکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments