جناب ہمارے بھی کچھ وعدے ہیں (عتیق الرحمان)۔


ہمارے ایک مہربان دوست اور بھائی کی ایک تحریر چند روز قبل ”ہم سب“ پر شائع ہوئی تھی، جس میں انھوں نے اہل مذہب، اہل سیاست اور عساکر کے حوالے سے اپنی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے، یہ بیان کیا تھا کہ جس دن سے لکھنا شروع کیا سب سے پہلے خود سے یہ عہد کیا کہ ان تین قسم کے لوگوں کے خلاف وہ کبھی نہیں لکھیں گے۔ یعنی نہ تو اہل مذہب کے خلاف کبھی کچھ لکھیں گے نہ اہل سیاست کے اور نہ عساکر پاکستان کے خلاف۔ ان کے اس عہد سے آگہی کے بعد میں کافی دیر تک یہ سوچنے پر مجبور رہا کہ پھر لکھیں گے کیا؟

ہمارے پاس تو ان موضوعات پر خاموشی کے بعد تو ”چیچیو چیچو چاچا گھڑی پہ چوہا ناچا“ اور ”بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی“ جیسی آفاقی سچائیاں ہی باقی بچتی ہیں۔ کیا انھی پر اکتفا کر لیا جائے؟ ہم صدق دل سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ جتنی خامیاں، ہمیں معاشرے میں دکھائی دے رہی ہیں ان میں ان تینوں گروہوں کا پورا پورا حصہ موجود ہے۔ یہ محض Blame game نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے، جس پر ہم تادم تحریر قائم ہیں۔ ایسے میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر دیں۔ تو جناب بات یہ ہے کہ لکھنے لکھانے کا شغل شروع کرنے سے بہت پہلے ہم نے بھی کچھ عہد کیے تھے۔ اور اپنی عمر رفتہ ان وعدوں کی پاس داری میں گزارنے کی کوشش کی، اگرچہ وعدوں پر سو فی صد عمل کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ اور اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں۔

سب سے پہلا وعدہ میں نے نماز پڑھتے ہوئے اللہ میاں سے کیا تھا کہ یا اللہ جب تک زندہ ہوں حق کا ساتھ دوں گا۔ جب بولوں گا تو کوشش کروں گا کہ سچ ہی بولوں۔ اور پھر اس کے نتیجے میں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان پر صبر کروں گا۔ کچھ وعدے وعید سورت الفاتحہ کی تلاوت کے دوران کیے۔ اور کچھ اس کے بعد تلاوت کے دوران۔ اور آج تک یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے جو وعدے ایک مسلمان کرتا ہے ان پر کماحقہ تو مشکل ہے بہر کیف اپنی بساط کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اب اسے بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی، آنے والے وقتوں نے لکھنے لکھانے کی دنیا میں دھکیل دیا، تو اس دنیا میں وارد ہونے کے بعد بھی سابق وعدوں کی روشنی میں گذر بسر کرتا رہا ہوں۔ اور ان وعدوں ہی کی وجہ سے نہ تو کبھی اہل سیاست کو بخش سکا نہ اہل مذہب کو اور نہ ہی عساکر کو۔ کہ جب بھی حق کا تقاضا سامنے آیا اس پر اپنی بساط کے مطابق رائے دی۔ جس کی زد پر کبھی یہ آئے کبھی وہ آئے۔ آج خود ہمارے وہ دوست اسی حق کی زد پہ آئے ہوئے ہیں۔ ان کا نام اس لیے نہیں لکھتا کہ میں سمجھتا ہوں ان کا نام لکھنا ایک طرح سے زیادتی ہے، کیوں کہ ان کی طرح سوچنے والے سیکڑوں اور بھی لوگ ہوں گے، لہٰذا سب کو ایک ہی صف میں رکھ کر بھگتا لیا جائے۔

تو دوستو! عرض یہ ہے کہ ہم نے نہ تو کبھی اہل سیاست کو کوئی استثنا دیا نہ کبھی اہل مذہب کو تقدس کے چولے میں لپیٹ کر طاق نسیاں میں رکھا! نہ ہی کبھی عساکر سے خوف کھایا۔ کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ جہاں جس بات کو حق سمجھا بیان کیا۔ اگر غلطی اپنی فہم کی ہوئی تو رجوع کر لیا کہ غلطیوں سے پاک ہم نے کبھی خود کو نہیں سمجھا۔ آئیے آپ کو دکھاتے ہیں کہ ان تین طبقات کے بارے میں ہم کیا سوچتے، سمجھتے اور لکھتے رہے ہیں۔ اہل سیاست کے حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ اگر کسی نے اخبارات میں ملاحظہ نہ کیا ہو تو ہماری وال وزٹ کر لے اور دیکھ لے کہ ہم نے کہاں کہاں ان کی بھد نہیں اڑائی۔ ان کے ساتھ وہ سارے کام کیے جو عملی زندگی میں وہ خود ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ ہماری تحریروں میں اس وقت تک آپ ما سوائے معدودے چند سیاستدانوں کے شاید ہی کسی کے لیے کوئی نرم گوشہ دکھائی دیتا ہو۔ میں صدق دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ جن طبقات سے ہمارے دوست نے پہلو تہی فرمائی ہے وہی تین طبقات ایسے ہیں جن کے بارے میں سچ نہ بولنا پوری نسل انسانی کے ساتھ زیادتی ہے۔ اب سیاست دانوں کی سیاہ کاریوں کا بیان تحریر کو طویل کر دے گا، اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔

اہل مذہب کبھی ہماری تنقید سے بالا تر نہیں رہے ( نہ ہی میں نے کبھی خود کو تنقید سے بالا تر سمجھا ) مثال کے طور پر ہم اہل مذہب کے رویئے اور ان کے دوہرے معیاروں کے شدید مخالف ہیں۔ ایک جانب تصویر حرام ہے کی گردان کرتے ان کی زبانیں نہیں تھکتیں اور دوسری جانب مسجدوں میں ٹوپی لے کر قائد اعظم کی تصویر والے نوٹ اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ جیب میں تصویروں والے نوٹ ٹھیک؟ شناختی کارڈ پر تصویر ٹھیک؟ لیکن تصویر پھر بھی حرام! اگر چندہ وصولی کے لیے تصویر کی رخصت مل سکتی ہے تو دیگر غیر منصوص معاملات میں رخصت کا تصور کیوں ختم کیا گیا؟ مثلا پگڑی اور داڑھی سے لے کر پائنچوں تک کے لباس میں رخصت کا تصور مفقود! مگر نوٹ وصولی کے لیے تصویر پر سمجھوتا؟ یہ معاملہ ہم خالصتا اہل مذہب سے متعلق سمجھتے ہیں اس لیے کھل کر بیان کیے دیتے ہیں۔ یہ تو خیر سے ایک اعتراض ہے اس کے سوا دیگر بھی بہت سی باتیں، جو اہل مذہب کے لیے اپنے اندر تنقیدی مفہوم رکھتی ہیں ہم کھل کر کہتے رہے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے ہماری وال سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

آیئے تیسرے فریق پر بھی بات کرتے ہیں اور وہ ہیں عساکر پاکستان۔ بھئی یہ تنقید سے کیسے بالا ہوگئے؟ کیا جی ایچ کیو نے عرش سے کوئی سرٹیفٹیکٹ حاصل کیا؟ کہ وہ جو بھی کریں گے ہم بلا چوں و چراں تعمیل کریں گے اور کبھی ان پر انگشت نمائی نہیں کریں گے؟ کیا حق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے معاملے میں ہمیشہ خاموش اختیار رکھی جائے؟ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہ خیال حق پر قائم رہنے کے اللہ سے کیے گئے وعدے سے مطابقت نہیں رکھتا! یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کا یا دنیا میں کسی بھی ملک کا کوئی بھی فوجی قانون شکنی کرے اور ہمیں رائے زنی کرنی پڑ جائے تو ہم چپ رہیں، کہ ”منظور تھا پردہ ترا“ خواہ وہ کسی بھی نوع کی قانون شکنی کرے گا ہم اسے غلط کہنے یا سمجھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی جنرل ہو یا کوئی عام فوجی اہل کار۔ جہاں ہم نے سمجھا کہ فلاں فوجی غلط کر رہا ہے ہم اس فوجی کا ساتھ نہیں دیں گے البتہ حق کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ عہد ہے میرا اپنے رب کے ساتھ۔ یہ نہیں کہ گوانتا نامو بے میں زیادتی کرنے والے فوجی کے حق میں رہوں اور کشمیر، عراق و شام میں بے گناہوں کو قتل کرنے والی فوجوں کے خلاف بولنے سے خود کو معذور سمجھوں۔ اگر پاکستان کی فوج کی ایسی کوئی بات سامنے آتی ہے تو اس پر بھی ہماری wall، آپ نامہ اعمال کی طرح سیاہ پائیں گے۔ اب ایسے میں کوئی جان سے مارے یا نہ مارے ہم اپنے رب سے کیے گئے عہد سے منحرف نہیں ہو سکتے۔ اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی جانب کہ اگر ان تینوں طبقات میں سے کوئی بھی جب اچھا کرے گا۔ جسے ہمارا شعور حق اور سچ سمجھے گا ہم اس کے حق میں بھی بولیں گے تا کہ کسی کے لبوں پر یہ سوال نہ مچلے کہ ”آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ “ اور ہم اس وقت تک بولیں گے جب تک کہ قوت گویائی سلب نہیں ہو جاتی۔ خواہ وہ اہل مذہب ہوں۔ اہل سیاست یا عساکر۔

یہ تصور کہ فلاں طبقہ کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہنا ہمارے خیال کے مطابق اور جو کچھ بھی ہو کم از کم یہ کوئی معتدل خیال نہیں ہو سکتا۔ آپ حق کا ساتھ دیں۔ سچ بیان کریں۔ اگر استطاعت نہیں تو خاموش رہ سکتے ہیں کہ رخصت کی سہولت موجود ہے، لیکن یہ قبل ازیں ہی طے کرلینا کہ ان معاملات میں بولنا ہی نہیں کم از کم ہم اسے منصفانہ طرز عمل نہیں کہہ سکتے۔

عزیزان من۔ سچ نہیں بولنا تو خاموش رہا جاسکتا ہے۔ کیا شعور انسانی کے ساتھ خیانت نہیں کہ میں یہ کہوں کہ فلاں کے خلاف کبھی نہیں بولنا؟ سچ کہوں تو یہ مرض اگر اہل دانش و بینش کو لاحق ہو جائے تو ان کی تگ و تاز انہیں درباری مورخین سے زیادہ کچھ نہیں بنا سکتی۔ البتہ حق اور سچ کے ساتھ چلیں۔ جسے حق سمجھیں اس کا ساتھ دیں۔ جہاں اپنی غلطی دیکھیں اس سے رجوع کرلیں۔ جہاں اپنی زیادتی دیکھیں توبہ کریں۔ جس کے ساتھ زیادتی ہو اس سے معافی مانگ لیں۔ غلطیوں سے پاک یہاں ہمارے سمیت کوئی نہیں۔ ہم سب انسان ہیں اور ہم سے غلطیاں تو لازمی ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے دامن رحمت میں آنے کے لیے توبہ کا آپشن جب تک موجود ہے تو مایوسی کیسی؟ اللہ ہمیں حق بولنے، حق لکھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments