قلندر پت رکھیو ….شب فتنہ ابھی باقی ہے


\"\"چار روز میں آٹھ دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ لاہور کے دل پر حملہ کیا گیا ہے۔ پولیس کے فرض شناس افسر نشانہ بنے ہیں۔ فوج کے جوان شہید ہوئے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنا کر دوسروں کی جان بچانے والا کمانڈر رزاق جان کی بازی ہار گیا ہے۔ صوفی کے مزار پر دھمال ڈالنے والے کبوتر خون میں غرق کر دیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے سیہون شریف پر حملے کو ترقی پسند پاکستان پر حملہ قرار دیا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوان افسروں کو ژیل یونیورسٹی کے استاد Steven Wilkinsonکی کتاب Army and Nation پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ 2015ء میں چھپنے والی یہ کتاب بھارت میں جمہوری نظام کی کامیابی کا تجزیہ کرتی ہے۔ پاکستان اس وقت غم و غصے میں ڈوبا ہوا ہے۔ تدبر کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے بحران سے راستہ نکالا جائے۔ وزیراعظم اور سپہ سالار نے دو راستے سجھائے ہیں۔ لیکن یہ دو الگ الگ باتیں نہیں ہیں۔ \”ترقی پسند پاکستان\” سے وزیراعظم کی مراد ایسا پاکستان ہے جہاں ہر شہری محفوظ ہو۔ سب کے عقیدے کی آزادی کا احترام کیا جائے۔ جنرل صاحب نے اسی بات کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ تمام اداروں کو آئین میں دیے گئے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اس سے قوم حقیقی استحکام کی طرف بڑھتی ہے۔ زندہ قوموں کو زیب نہیں دیتا کہ ہمہ وقت ایک خوبیوں کا پتلا ڈھونڈتی رہیں، پھر اس مسیحا سے ماورائے آئین اقدام کی توقع رکھی جائے، پھر ایک حادثہ ہو، ٹھوکر کھائی جائے، قوم کے دس برس برباد کیے جائیں اور پھر شرمندہ نظروں اور تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے کا ازسرنو عزم باندھا جائے۔

ایک ہفتہ پہلے درختوں پر کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ معاشی استحکام کے اشارے مل رہے تھے۔ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح ہو رہا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر تصویر بدل گئی ہے۔ یہ طے ہے کہ دہشت گر د قوتیں جوابی حملہ کر رہی ہیں۔ اس کا تعلق محض پی ایس ایل کے فائنل سے جوڑنا کوتاہ نظری ہو گی۔ دہشت گردوں نے پاکستان کی ریاست پر قبضہ کرنے اور اس قوم کو یرغمال بنانے کا ہدف ترک نہیں کیا۔ ان حملوں کو کسی چھوٹے موٹے گروہ کی انفرادی کارروائی سمجھنا درست نہیں۔ جس ترتیب کے ساتھ سوچ سمجھ کر چاروں صوبوں میں کارروائیاں کی گئی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا باہم رابطے کا نظام بدستور قائم ہے اور ہم دہشت گردوں کی منصوبہ سازی کی صلاحیت کو ختم نہیں کر سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کامیابی کا قبل از وقت اعلان کر دیا تھا۔ اس سہو نظر کے متعدد پہلو ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے عناصر بنیادی طور پر امن پسند ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان میں امن کا قیام تھا اور وہ جلد از جلد حالت جنگ کے خاتمے کی خواہش رکھتے تھے۔ دوسری طرف دہشت گردوں کے سہولت کار ضرب عضب کو ہر ممکن طور پر کند کرنے کی کوشش میں تھے۔ ریاست بھی دہشت گردی سے متعلقہ تکلیف دہ سوالات سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ چنانچہ آپریشن ضرب عضب پر توجہ میں ہمہ جہت غفلت ہوئی ہے۔ اگر دہشت گرد گروہ شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں سے بھاگ کر سرحد پار چلے گئے ہیں تو ایسا ہونا ہمیشہ سے قرین قیاس تھا۔ ستمبر 2009ء میں سوات آپریشن کے دوران بھی ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھی باجوڑ کے راستے کنڑ اور نورستان کی طرف نکل گئے تھے۔ گوریلا لڑائی لڑنے والے باقاعدہ فوج کا جم کر مقابلہ نہیں کیا کرتے۔ باقاعدہ فوج کو معین مدت کے اندر نتائج دکھانا ہوتے ہیں جبکہ دہشت گرد گروہوں کے پاس غیر معین مہلت موجود ہوتی ہے اور وہ اپنی سہولت کے مطابق اہداف کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ آٹھ برس قبل جب سوات پر قبضہ کرنے والے افغانستان کی طرف فرار ہو رہے تھے تو اس وقت پاکستان میں کچھ لوگ شمالی وزیرستان میں کارروائی کی مخالفت کر رہے تھے۔ امریکا میں پاکستان کے نامزد سفیر اعزاز چوہدری صاحب نے گزشتہ روز اسلام آباد میں بتایا کہ طالبان کو دہشت گردی سے گریز کی ضمانت پر پاکستان میں آنے دیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے اس وقت اس طرح کے کسی معاہدے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ 2002ء میں شکست کھا کر افغانستان سے فرار ہونے والے افراد کی قانونی حیثیت کیا تھی کہ پاکستان کی ریاست ان سے کوئی باقاعدہ معاہدہ کرتی؟ اس معاہدے کی پابندی کا تقاضا کس سے کیا جانا تھا؟ ماضی کی غلطیوں پر انگلی اٹھانا آسان ہوتا ہے۔ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ غلطی پر اصرار کرنا نقصان دہ ہوتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ اگر دہشت گردوں کا لاجسٹک نظام اب بھی موجود ہے تو ان کے سہولت کار اور عذر خواہ بھی معدوم نہیں ہوئے۔ دہشت گردوں کے پاکستان میں ممکنہ اہداف کیا ہیں؟ آئینی حکومت کو نااہل اور غیر مستعد قرار دے کر اس کی ساکھ بگاڑی جائے۔ سیاسی اور عسکری قوتوں میں اعتماد کا بحران پیدا کیا جائے۔ پاکستان کو علاقائی کشمکش میں الجھایا جائے۔ اقتصادی ترقی سے توجہ ہٹائی جائے۔ ملک کے اندر فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کو بڑھایا جائے۔ قوم کو بھی اپنی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔ آئینی بندوبست کے تسلسل پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف میں جمہوری کشمکش کو آئینی بحران کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔ جمہوری قوتوں اور قومی سلامتی کے اداروں میں باہم اتفاق اور اتحاد کی ضرورت جیسی آج ہے ماضی میں کبھی نہیں تھی۔ اقتصادی ترقی کے نصب العین سے توجہ ہٹنی نہیں چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ آواز پاکستان سے پوری صراحت کے ساتھ بلند ہونی چاہیے کہ ہم دہشت گردی کو شکست دیں گے ۔ ہم دہشت گردوں کے نصب العین سے اتفاق رکھنے والوں کو یہ موقع نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان کو عراق یا شام میں تبدیل کر سکیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ جمہوری اختلافات کے باوجود پاکستان کے تحفظ کے لیے متحد ہیں اور اپنی قوم کے اداروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جنگ ہمارا نصب العین نہیں۔ ہم پر جنگ مسلط کی جائے گی تو ہم جنگ لڑیں گے۔ انسانی تاریخ میں جنگ وہی جیتا کرتے ہیں جو امن کو عزیز رکھتے ہیں۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے رک کر پینے کے لئے پانی کا گلاس اٹھایا تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا، \”قلندر پت رکھ جا….\”۔ تاریخ کے اس موڑ پر بھٹو نے شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کا نام لیا تھا۔ شہباز قلندر انصاف کا نشان ہے۔ شہباز قلندر کے مزار پر کل خون کے چھینٹے گرے ہیں۔ شہباز قلندر نے آٹھ سو برس قبل کہا تھا۔

تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی

من آں بسمل کہ زیر خنجرِ خوں خوار می رقصم

(تو وہ قاتل ہے کہ تماشا دیکھنے کے لیے میرا خون بہاتا ہے، میں وہ بسمل پرندہ ہوں جو خنجر کے نیچے بھی رقص کرنا جانتا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments